Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 111
قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَرْجِهْ : روک لے وَاَخَاهُ : اور اس کا بھائی وَاَرْسِلْ : اور بھیج فِي الْمَدَآئِنِ : شہروں میں حٰشِرِيْنَ : اکٹھا کرنیوالے (نقیب)
بولے ڈھیل دے اس کو اور اس کے بھائی پر گنوں میں جمع کرنے والوں کو،
خلاصہ تفسیر
(غرض مشورہ طے کر کرا کر) انہوں نے (فرعون سے) کہا کہ آپ ان (موسیٰ ؑ کو اور انکے بھائی کو مہلت دیجئے اور (اپنی حدود قلمرو کے) شہروں میں (گردآوروں کو یعنی) چپراسیوں کو (حکم نامے دے کر) بھیج دیجئے کہ وہ (سب چہروں) سب ماہر جادوگروں کو (جمع کر کے) آپ کے پاس لاکر حاضر کردیں (چنانچہ ایسا ہی انتظام کیا گیا) اور وہ جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے (اور) کہنے لگے کہ اگر ہم (موسیٰ ؑ پر) غالب آئے تو (کیا) ہم کو کوئی بڑا صلہ (اور انعام) ملے گا، فرعون نے کہا کہ ہاں (انعام بھی بڑا ملے گا) اور (مزید برآں یہ ہوگا کہ) تم (ہمارے) مقرب لوگوں میں داخل ہوجاؤ گے (غرض موسیٰ ؑ کو فرعون کی جانب سے اس کی طلاع دی گئی اور مقابلہ کے لئے تاریخ معین ہوئی اور تاریخ پر سب ایک میدان میں جمع ہوئے اس وقت) ان ساحروں نے (موسیٰ ؑ سے) عرض کیا کہ اے موسیٰ (ہم آپ کو اختیار دیتے ہیں) خواہ آپ (اول اپنا عصا میدان میں) ڈالئے (جس کو آپ اپنا معجزہ بتلاتے ہیں) اور یا (آپ کہیں تو) ہم ہی (اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں) ڈالیں، موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ تم ہی (پہلے) ڈالو جب انہوں نے (اپنی رسیوں اور لا ٹھیوں کو) ڈالا تو (جادو سے دیکھنے والے) لوگوں کی نظربندی کردی (جس سے وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ کی شکل میں لہراتی نظر آنے لگیں) اور ان پر ہیبت غالب کردی اور ایک طرح کا بڑا جادو دکھلایا اور (اس وقت) ہم نے موسیٰ ؑ کو (وحی کے ذریعہ سے) حکم دیا کہ آپ اپنا عصا ڈال دیجئے (جیسا ڈالا کرتے ہیں) سو عصا کا ڈالنا تھا کہ اس نے (اژدھا بن کر) ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا پس (اس وقت) حق (کا حق ہونا) ظاہر ہوگیا اور انہوں نے (یعنی ساحروں نے) جو کچھ بنایا ونایا تھا سب آتا جاتا رہا۔ پس وہ لوگ (یعنی فرعون اور اس کی قوم) اس موقع پر ہار گئے اور خوب ذلیل ہوئے (اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے) اور وہ جو ساحر تھے وہ سجد میں گرگئے، (اور پکار پکار کر) کہنے لگے کہ ہم ایمان لے آئے رب لعالمین پر جو موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا بھی رب ہے۔

معارف و مسائل
ان آیات میں حضرت موسیٰ ؑ کا بقیہ قصہ مذکور ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کا کھلا معجزہ دیکھا کہ لاٹھی کا سانپ بن گیا اور پھر جب اس کو ہاتھ میں پکڑا تو پھر لاٹھی بن گئی اور ہاتھ کو گریبان میں ڈال کر نکا لا تو چمکنے لگا، اس آیت قدرت کا عقلی تقاضایہ تھا کہ موسیٰ ؑ پر ایمان لے آتا مگر جیسا اہل باطل کا عام طرز ہے کہ حق پر پردہ ڈالنے اور مکرنے کے لئے صحیح چیز کو غلط عنوان دیا کرتے ہیں، فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے بھی لوگوں سے یہی کہا کہ یہ بڑے ماہر جادوگر ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے ملک پر قبضہ کر کے تمہیں نکال دیں تو اب تم بتلاؤ کیا کرنا چاہئے ؟ قوم فرعون نے یہ سن کر جواب دیا اَرْجِهْ وَاَخَاهُ وَاَرْسِلْ فِي الْمَدَاۗىِٕنِ حٰشِرِيْنَ يَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ ، اس میں لفظ ارجہ ارجاء سے مشتق ہے جس کے معنی ڈھیل دینے اور امید دلانے کے آتے ہیں اور مدائین، مد ینة کی جمع ہے جو ہر بڑے شہر کے لئے بولا جاتا ہے، حشرین، حاشر کی جمع ہے جس کے معنی ہیں اٹھانے اور جمع کرنے والا، مراد اس سے سپاہی ہیں جو اطرف ملک سے جادوگروں کو جمع کرکے لائیں۔
مطلب آیت کا یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اگر یہ جادوگر ہے اور جادو کے ذریعہ ہمارا فتح کرنا چاہتا ہے تو اس کا مقابلہ ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں، ہمارے ملک میں بڑے بڑے ماہر جادوگر ہیں اس کو اپنے جادو سے شکست دے دیں گے، کچھ سپاہی ملک کے اطراف میں بھیج دیجئے جو ہر شہر کے جادوگروں کو بلائیں۔ وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں جادو سحر کا رواج عام تھا اور عام لوگوں پر جادوگروں کا اقتدار تھا اور شاید حضرت موسیٰ ؑ کو عصا اور ید بیضاء کا معجزہ اسی لئے عطا فرمایا کہ جادوگروں سے مقابلہ ہو اور معجزہ کے مقابلہ میں جادو کی رسوائی سب لوگ آنکھوں سے دیکھ لیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم عادت بھی یہی ہے کہ ہر زمانہ کے پیغمبر کو اس زمانہ کے منا سب معجزات عطا فرماتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں حکمت یونانی اور طب یونانی اپنے عروج پر تھی تو ان کو معجزہ یہ دیا گیا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا بنادیں اور جزامی کوڑھیوں کو تندرست کردیں۔ رسول کریم ﷺ کے عہد میں عرب کا سب سے بڑا کمال فصاحت و بلاغت تھا تو آنحضرت ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن بنایا گیا جس کے مقابلہ سے سارا عرب وعجم عاجز ہوگیا۔
Top