Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 113
وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ
وَجَآءَ : اور آئے السَّحَرَةُ : جادوگر (جمع) فِرْعَوْنَ : فرعون قَالُوْٓا : وہ بولے اِنَّ : یقیناً لَنَا : ہمارے لیے لَاَجْرًا : کوئی اجر (انعام) اِنْ : اگر كُنَّا : ہوئے نَحْنُ : ہم الْغٰلِبِيْنَ : غالب (جمع)
اور آئے جادوگر فرعون کے پاس، بولے ہمارے لئے کچھ مزدوری ہے اگر ہم غالب ہوئے،
وَجَاۗءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِيْنَ ، قَالَ نَعَمْ وَاِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ، یعنی لوگوں کے مشورہ کے مطابق ملک بھر سے جادوگروں کے جمع کرنے کا انتظام کیا گیا، اور یہ جادوگر فرعون کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے فرعون سے پوچھا کہ اگر ہم موسیٰ پر غالب آگئے تو ہمیں اس کی کچھ اجرت اور انعام بھی ملے گا ؟ فرعون نے کہا کہ اجرت بھی ملے گی اور اس پر مزید یہ انعام ہوگا کہ تم سب) ہمارے مقربین میں داخل ہوجاؤ گے۔ یہ جادوگر جو حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلہ کے لئے ملک بھر سے جمع کئے گئے تھے) ان کی تعداد میں تاریخی روایات مختلف ہیں۔ نو سو (900) سے لے کر تین لاکھ تک کی روایات ہیں۔ ان کے ساتھ لا ٹھیوں اور رسیوں کا ایک انبار تھا جو تین سو (300) اونٹوں پر لاد کر لایا گیا تھا (قرطبی)
فرعونی جادوگروں نے آتے ہی پہلی بات سودابازی کی شروع کی کہ ہم مقابلہ کریں اور غالب آجائیں تو ہمیں کیا ملے گا۔ وجہ یہ تھی کہ اہل باطل کے سامنے صرف دنیا کے فوائد ہوتے ہیں اس لئے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے معاوضہ اور اجرت کا سوال سامنے آتا ہے۔ بخلاف انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائبین کے کہ وہ ہر قدم پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، یعنی ہم جو پیغام حق تمہارے فائدہ کے لئے تمہیں پہنچاتے ہیں اس پر تم سے کسی معاوضہ کے طالب نہیں، بلکہ ہمارا معاوضہ صرف رب العالمن نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ فرعون نے ان کو بتلایا کہ تم لوگ اجرت چاہتے ہو، ہم اجرت بھی دیں گے اور اس سے بڑھ کر یہ بھی کہ تمہیں شاہی دربار کا مقرب بنالیں گے۔ فرعون سے یہ گفتگو کرنے کے بعد ساحروں نے حضرت موسیٰ ؑ سے مقابلہ کی جگہ اور وقت کا تعین کرایا۔
چناچہ ایک کھلا میدان اور عید کے دن آفتاب بلند ہونے کے بعد کا وقت اس کام کے لئے تجویز) ہوا جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات میں ہے، قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّيْنَةِ وَاَنْ يُّحْشَرَ النَّاسُ ضُـحًي۔ بعض روایات میں ہے کہ اس موقعہ پر حضرت موسیٰ ؑ نے ساحروں کے سردار سے گفتگو فرمائی کہ اگر میں تم پر غالب آگیا تو کیا تم مجھ پر ایمان لے آؤ گے ؟ اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایسے جادو ہیں کہ ان پر کوئی غالب آہی نہیں سکتا۔ اس لئے ہمارے مغلوب ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا) اور اگر بالفرض تم غالب آگئے تو ہم علی الا علان فرعون کی نظروں کے سامنے تم پر ایمان لے آئیں گے۔ (مظہری و قرطبی)
Top