Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 12
قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ١ؕ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ
قَالَ : اس نے فرمایا مَا مَنَعَكَ : کس نے تجھے منع کیا اَلَّا تَسْجُدَ : کہ تو سجدہ نہ کرے اِذْ اَمَرْتُكَ : جب میں نے تجھے حکم دیا قَالَ : وہ بولا اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر مِّنْهُ : اس سے خَلَقْتَنِيْ : تونے مجھے پیدا کیا مِنْ : سے نَّارٍ : آگ وَّخَلَقْتَهٗ : اور تونے اسے پیدا کیا مِنْ : سے طِيْنٍ : مٹی
کہا تجھ کو کیا مانع تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے حکم دیا بولا میں اس سے بہتر ہوں، مجھ کو تو نے بنایا آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے
معارف و مسائل
حضرت آدم ؑ اور شیطان کا یہ واقعہ جو یہاں مذکور ہے اس سے پہلے سورة بقرہ کے چوتھے رکوع میں بیان ہوچکا ہے، اس کے متعلقہ بہت سے تحقیق طلب امور کا بیان وہاں ہوا ہے، یہاں مزید چند امور تحقیق طلب کا جواب لکھا جاتا ہے۔
ابلیس کی دعاء قیامت تک زندگی کی قبول ہوئی یا نہیں، بصورت قبول دو آیتوں کے متعارض الفاظ کی تطبیق
ابلیس نے عین اس وقت جب کہ اس پر عتاب و عقاب ہو رہا تھا اللہ تعالیٰ سے ایک دعا مانگی اور وہ بھی عجیب دعا کہ حشر تک کی زندگی کی مہلت عطا فرما دیجئے، اس کے جواب میں جو ارشاد حق تعالیٰ نے فرمایا اس کے الفاظ اس جگہ مذکورہ آیت میں تو صرف یہ ہیں (آیت) انک من المنظرین، ”یعنی تجھ کو مہلت دی گئی“۔ ان الفاظ سے بقرینہ دعا وسوال یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ مہلت حشر تک کی دی گئی، جیسا کہ اس نے سوال کیا تھا، مگر اس کی تصریح اس آیت میں نہیں ہے، کہ جس مہلت دینے کا ذکر یہاں فرمایا ہے وہ ابلیس کے کہنے کے مطابق حشر تک ہے یا کسی اور معیاد تک، لیکن دوسری آیت میں اس جگہ (آیت) الی یوم الوقت المعلوم کے الفاظ بھی آئے ہیں، جن کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کی مانگی ہوئی مہلت قیامت تک نہیں دی گئی، بلکہ کسی خاص مدت تک دی گئی ہے جو علم الٓہی میں محفوظ ہے، تو حاصل یہ ہوا کہ ابلیس کی یہ دعا قبول تو ہوئی، مگر ناتمام کہ بجائے روز قیامت کے ایک خاص مدت تک کی مہلت دے دیگئی۔
تفسیر ابن جریر میں ایک روایت سدی رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے اس سے اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں
فلم ینظرہ الی یوم البعث ،
”اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو یوم بعث تک مہلت نہیں دی بلکہ ایک معین دن تک مہلت دی ہے اور وہ دن وہ ہے جس میں پہلا صور پھونکا جائے گا، جس سے آسمان و زمین والے سب بیہوش ہوجائیں گے اور مر جائیں گے“۔
اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ شیطان نے تو اپنی دعا میں اس وقت تک کی مہلت مانگی تھی، جبکہ دوسرا صور پھونکنے تک تمام مردوں کو زندہ کیا جائے گا، اسی کا نام یوم البعث ہے، اگر یہ دعا بعینہ قبول ہوتی تو جس وقت ایک ذات حیّ وقیوم کے سوا کوئی زندہ نہ رہے گا، اور (آیت) کل من علیہا فان۔ کا ظہور ہوگا، اس دعا کی بنا پر ابلیس اس وقت بھی زندہ رہتا، اس لئے کہ ایک دعا کو یوم بعث تک کی مہلت کے بجائے (آیت) یوم ینفخ فی الصور تک کی مہلت سے تبدیل کرکے قبول کیا گیا، جس کا اثر یہ ہوگا کہ جس وقت سارے عالم پر موت طاری ہوگی، اس وقت ابلیس کو بھی موت آئے گی، پھر جب سب دوبارہ زندہ ہوں گے تو وہ بھی زندہ ہوجائے گا۔
اس تحقیق سے وہ شبہ بھی رفع ہوگیا جو (آیت) کل من علیہا فان سے اس دعا کے متعلق پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر دونوں میں تعارض ہوگیا۔
لیکن حاصل اس تحقیق کا یہ ہے کہ یوم البعث اور یوم الوقت المعلوم دو الگ الگ دن ہیں ابلیس نے یوم البعث تک کی مہلت مانگی تھی وہ پوری قبول نہ ہوئی، اس کو بدل کر یوم الوقت المعلوم تک کہ مہلت دی گئی، سیدی حضرت حکیم الامة تھانوی رحمة اللہ علیہ نے بیان القرآن میں ترجیح اس کو دی ہے کہ در حقیقت یہ دونوں الگ الگ دن ہیں، بلکہ نفحہ اولیٰ کے وقت سے دخول جنت و تار تک ایک طویل دن ہوگا، اس کے مختلف حصوں میں مختلف واقعات ہوں گے، انہی واقعات مختلفہ کی بناء پر اس دن کی ہر واقعہ کی طرف نسبت کرسکتے ہیں، مثلاً اس کو یوم نفخ صور و یوم فناء بھی کہہ سکتے ہیں، اور یوم بعث اور یوم جزاء بھی، اس سے سب اشکالات رفع ہوگئے، فللّٰہ الحمد
کیا کافر کی دعا بھی قبول ہو سکتی ہے
یہ سوال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ آیات قرآن وما دعوا الکفرین الا فی ضلل، سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کافر کی دعا قبول نہیں ہوتی، مگر اس واقعہ ابلیس اور آیت مذکورہ سے قبولیت دعا کا اشکال ظاہر ہے، جواب یہ ہے کہ دنیا میں تو کافر کی دعا بھی قبول نہ ہوگی، اور آیت مذکورہ (آیت) وما دعوا الکفرین آخرت کے متعلق ہے دنیا میں اس کا کوئی تعلق نہیں۔
واقعہ آدم ؑ و ابلیس کے مختلف الفاظ
قرآن مجید میں یہ قصہ کئی جگہ آیا ہے اس سوال و جواب کے الفاظ مختلف ہیں، حالانکہ واقعہ ایک ہی ہے، وجہ یہ ہے کہ اصل واقعہ میں تو سب جگہ ایک ہی مضمون ہے، اور نقل الفاظ ہر جگہ بعینہ ضروری نہیں، روایت بالمعنی بھی ہوسکتی ہے، اتحاد مضمون و مفہوم کے بعد اختلاف الفاظ قابل نظر نہیں۔
ابلیس کو یہ جرات کیسے ہوئی کہ بارگاہ عزت و جلال میں ایسی بیباکانہ گفتگو کی
رب العزت جل شانہ کی بارگاہ قدس میں فرشتوں اور رسولوں کو بھی ہیبت و جلال کی بناء پر مجال دم زدنی نہیں تھی، ابلیس کو ایسی جرأت کیسے ہوگئی، علما نے فرمایا کہ یہ قہر الٓہی کا انتہائی سخت مظہر ہے کہ ابلیس کے مردود ہوجانے کے باعث ایک ایسا حجاب حائل ہوگیا جس نے اس پر حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کو مستور کردیا اور بےحیائی اس پر مسلط کردی (بیان القرآن ملخصاً و موضحاً)
شیطان کا حملہ انسان پر چار طرف میں محدود نہیں عام ہے
قرآن عزیز کی مذکورہ آیت میں یہ مذکور ہے کہ ابلیس نے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لئے چار جانب کو بیان کیا ہے، آگے پیچھے، دائیں بائیں، لیکن یہاں در حقیقت کوئی تجدید مقصود نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ ہر سمت سے اور ہر پہلو سے، اس لئے اوپر کی جانب یا پاؤں تلے سے گمراہ کرنے کا احتمال اس کے منافی نہیں، اسی طرح حدیث میں جو یہ مذکور ہے کہ شیطان انسان کے بدن میں داخل ہو کر خون کی رگوں کے ذریعہ پورے بدن انسان پر تصرف کرتا ہے، یہ بھی اس کے منافی نہیں۔
آیات مذکورہ میں شیطان کو آسمان سے نکل جانے کا حکم دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، پہلے (آیت) فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ۔ میں دوسرا قول (آیت) قال اخرج منھا مذءوما میں غالباً پہلا کلام ایک تجویز ہے اور دوسرے میں اس کی تنفیذ (بیان القرآن ملحضاً)
Top