Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 130
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے پکڑ لیافرعون والوں کو قحطوں میں اور میووں کے نقصان میں تاکہ وہ نصیحت مانیں،
اس کے بعد آیت مذکورہ کے وعدہ کا ایفاء اور قوم فرعون کا طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار ہونا اور بالآخر غرق دریا ہو کر ختم ہوجانا کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا، جس میں سب سے پہلا عذاب قحط اور اشیاء کی کمیابی اور گرانی کا تھا جو قوم فرعون پر مسلط ہوا۔
تفسیری روایات میں ہے کہ یہ قحط ان پر سات سال مسلسل رہا، اور آیت میں جو اس قحط کے بیان میں دو لفظ آئے ہیں، ایک سِنِيْنَ ، دوسرے نَقْصٍ ثَّمَرٰتِ۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور قتادہ وغیرہ نے فرمایا کہ قحط اور خشک سالی کا عذاب تو گاؤں والوں کے لئے تھا اور پھلوں کی کمی شہر والوں کے لئے، کیونکہ عموما دیہات میں غلہ کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے اور شہروں میں پھلوں کے باغات ہوتے ہیں تو اشارہ اس طرف ہوا کہ نہ غلہ کے کھیت باقی رہے نہ پھلوں کے باغات۔
Top