Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 151
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ١ۖ٘ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اغْفِرْ لِيْ : مجھے بخشدے وَلِاَخِيْ : اور میرا بھائی وَاَدْخِلْنَا : اور ہمیں داخل کر فِيْ رَحْمَتِكَ : اپنی رحمت میں وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ : سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
بولا اے میرے رب معاف کر مجھ کو اور میرے بھائی کو اور داخل کر ہم کو اپنی رحمت میں اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
اس کے بعد اس خیال پر کہ حضرت ہارون ؑ نے اپنے فرائض قائم مقامی میں کوتاہی کی ہے ان کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے تو حضرت ہارون ؑ نے عرض کیا کہ میرا قصور نہیں قوم نے میرا کوئی اثر نہ لیا اور میری بات نہ سنی بلکہ قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر ڈالتے اس لئے آپ میرے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کریں جس سے میرے دشمن خوش ہوں اور آپ مجھے ان گمراہوں کے ساتھ نہ سمجھیں، تب حضرت موسیٰ ؑ کا غصہ فرو ہوا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِاَخِيْ وَاَدْخِلْنَا فِيْ رَحْمَتِكَ ڮ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ، یعنی اے میرے پروردگار مجھے بھی معاف فرما دیجئے اور میرے بھائی کو بھی اور ہم کو اپنی رحمت میں داخل فرما دیجئے اور آپ تو سب رحمت کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔
اس میں اپنے بھائی ہارون کے لئے تو اس بناء پر دعائے مغفرت کی کہ شاید ان سے کوئی کوتاہی قوم کو گمراہی سے روکنے میں ہوئی ہو اور اپنے لئے دعائے مغفرت یا تو اس بنا پر کی کہ جلدی کے ساتھ الواح تورات کو رکھ دینا جس کو قرآن کریم نے ڈال دینے سے تعبیر کرکے ایک غلطی پر متنبہ فرمایا ہے اس سے مغفرت طلب کرنا مقصود تھا۔ اور یا یہ کہ دعا کا ادب ہی یہ ہے کہ دوسرے کے لئے دعا کرے تو اپنے آپ کو بھی اس میں شامل کرے تاکہ اس کا استغناء محسوس نہ ہو یعنی یہ کہ یہ اپنے آپ کو دعا کا محتاج نہیں سمجھتا۔
Top