Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو اور اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب بولے ہاں، ہم اقرار کرتے ہیں، کبھی کہنے لگو قیامت کے دن ہم کو تو اس کی خبر نہ تھی
خلاصہ تفسیر
(ان سے اس وقت کا واقعہ ذکر کیجئے) جب کہ آپ کے رب نے (عالم ارواح میں آدم ؑ کی پشت سے تو خود ان کی اولاد کو اور) اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور (ان کو سمجھ عطا کرکے) ان سے انہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے (اس عقل خداداد سے حقیقت امر کو سمجھ کر) جواب دیا کہ کیوں نہیں (واقعی آپ ہمارے رب ہیں، حق تعالیٰ نے وہاں جتنے ملائکہ اور مخلوقات حاضر تھے سب کو گواہ کرکے سب کی طرف سے فرمایا) ہم سب واقعہ کے) گواہ بنتے ہیں (اور یہ اقرار اور شہادت سب اس لئے ہوا کہ) تاکہ تم لوگ (یعنی جو تم میں ترک توحید اور اختیار شرک پر سزا پائیں) قیامت کے روز یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس (توحید) سے محض بیخبر تھے یا یوں کہنے لگو کہ (اصل) شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد ان کے نسل میں ہوئے (اور عادةً نسل عقائد و خیالات میں تابع اپنی اصل کے ہوتی ہے اس لئے ہم بےخطا ہیں، پس ہمارے فعل پر تو ہم کو سزا ہو نہیں سکتی، اگر ہوگی تو لازم آتا ہے کہ ان بڑوں کی خطا میں ہم ماخوذ ہوں) سو کیا ان غلط راہ (نکالنے) والوں کے فعل پر آپ ہم کو ہلاکت میں ڈالے دیتے ہیں (سو اب اس اقرار و اشہاد کے بعد تم یہ عذر نہیں پیش کرسکتے پھر اس کے بعد ان سب سے وعدہ کیا گیا کہ یہ عہد تم کو دنیا میں پیغمبروں کے ذریعہ سے یاد دلایا جائے گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا یہاں بھی اول میں اِذْ اَخَذَ کے ترجمہ سے معلوم ہوا کہ آپ کو اس واقعہ کے ذکر کا حکم ہوا) آخر میں بھی اس یاد دھانی کو جتلاتے ہیں کہ) ہم اسی طرح (اپنی) آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں (تاکہ ان کو اس عہد کا ہونا معلوم ہوجائے) اور تاکہ (معلوم ہونے کے بعد شرک وغیرہ سے) وہ باز آجائیں۔

معارف و مسائل
عہد الست کی تفصیل و تحقیق
ان آیتوں میں اس عظیم الشان عالمگیر عہد و پیمان کا ذکر ہے جو خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے درمیان اس وقت ہوا جب کہ مخلوق اس جہان کون و فساد میں آئی بھی نہ تھی، جس کو عہد ازل یا عہد الست کہا جاتا ہے۔
اللہ جل شانہ سارے عالموں کا خالق ومالک ہے، زمین و آسمان اور ان کے درمیان اور ان کے ماسوا جو کچھ ہے اس کی مخلوق اور ملک ہے، نہ اس پر کوئی قانون کسی کا چل سکتا ہے، نہ اس کے کسی فعل پر کسی کو کوئی سوال کرنے کا حق ہے۔ لیکن اس نے محض اپنے فضل و کرم سے عالم کا نظام ایسا بنایا ہے کہ ہر چیز کا ایک ضابطہ اور قانون ہے، قانون کے موافق چلنے والوں کے لئے ہر طرح کی دائمی راحت اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے ہر طرح کا عذاب مقرر ہے۔ پھر خلاف ورزی کرنے والے مجرم کو سزا دینے کے لئے اس کا ذاتی علم محیط کافی تھا جو عالم کے ذرہ پر حاوی ہے اور اس کے لئے کھلے اور چھپے ہوئے تمام اعمال و افعال بلکہ دلوں میں پوشیدہ ارادے تک بالکل ظاہر ہیں اس لئے کوئی ضرورت نہ تھی کہ نگران مقرر کئے جائیں، اعمال نامے لکھے جائیں، اعمال تولے جائیں اور گواہ کھڑے کئے جائیں۔
لیکن اسی نے خالص اپنے فضل و کرم سے یہ بھی چاہا کہ کسی کو اس وقت تک سزا نہ دیں جب تک دستاویزی ثبوت اور ناقابل انکار شہادتوں سے اس کا جرم اس کے سامنے اس طرح کھل کر نہ آجائے کہ وہ خود بھی اپنے مجرم ہونے کا اعتراف کرلے اور اپنے آپ کو مستحق سزا سمجھ لے۔
اس کے لئے ہر انسان کے ساتھ اس کے ہر عمل اور قول کو لکھنے والے فرشتے مقرر فرما دیئے (آیت) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ، یعنی کوئی کلمہ انسان کی زبان سے نہیں نکلتا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نگرانی کرنے والا فرشتہ مقرر نہ ہو، پھر محشر میں میزان عدل قائم فرما کر انسان کے اعمال نیک و بد کو تولا جائے گا، اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگیا تو نجات پائے گا اور گناہوں اور جرائم کا پلہ بھاری ہوگیا تو گرفتار عذاب ہوگا۔
اس کے علاوہ جب احکم الحاکمین کا دربار عام محشر میں قائم ہوگا تو ہر ایک کے عمل پر شہادتیں بھی لی جائیں گی بعض مجرم گواہوں کی تکذیب کریں گے تو اس کے ہاتھ پاؤں اور اعضاء وجوارح سے اور اس زمین و مکان سے جس میں یہ افعال کئے گئے گواہی لی جائے گی وہ سب بحکم خداوندی گویا ہو کر صحیح صحیح واقعات بتلا دیں گے یہاں تک کہ مجرمین کو انکار و تکذیب کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا وہ اعتراف و اقرار کریں گے، (آیت) فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِهِمْ ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ۔
پھر رؤف و رحیم مالک نے اس نظام عدل و انصاف کے قائم کرنے ہی پر اکتفاء نہیں فرمایا، اور دنیا کی حکومتوں کی طرح نرا ایک ضابطہ اور قانون ان کو نہیں دے دیا بلکہ قانون کے ساتھ ایک نظام تربیت قائم کیا جیسے بلا تشبیہ کے کوئی شفیق باپ اپنے گھریلو معاملات کو درست رکھنے اور اہل و عیال کو تہذیب و ادب سکھانے کے لئے کوئی گھریلو قانون اور ضابطہ بناتا ہے کہ جو شخص اس کے خلاف کرے گا اس کو سزا ملے گی، مگر اس کی شفقت و عنایت اس کو اس پر بھی آمادہ کرتی ہے کہ ایسا انتظام کرے جس کے سبب ان میں سے کوئی سزا کا مستحق نہ ہو بلکہ سب کے سب اس ضابطہ کے مطابق چلیں، بچہ کے لئے اگر صبح کو اسکول جانے کی ہدایت اور اس کے خلاف کرنے پر سزا مقرر کردی ہے تو باپ سویرے اس کی بھی فکر کرتا ہے کہ بچہ اس کام کے لئے وقت سے پہلے تیار ہوجائے۔
رب العالمین کی رحمت اپنی مخلوق پر ماں اور باپ کی شفقت و رحمت سے کہیں زائد ہے اس لئے اس نے اپنی کتاب کو محض قانون اور تعزیرات نہیں بنایا بلکہ ایک ہدایت نامہ بنایا ہے اور ہر قانون کے ساتھ ایسے طریقے بھی سکھائے ہیں جن کے ذریعہ قانون پر عمل سہل ہوجائے۔ اسی نظام ربوبیت کے تقاضے سے اپنے انبیاء بھیجے ان کے ساتھ آسمانی یدایت نامے بھیجے، فرشتوں کی بہت بڑی تعداد نیکیوں کی طرف ہدایت کرنے اور مدد کرنے کے لئے مقرر فرمادی۔ اسی نظام ربوبیت کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ ہر قوم اور ہر فرد کو غفلت سے بیدار کرنے اور اپنے رب کریم کو یاد کرنے کے لئے مختلف قسم کے سامان پیدا کئے، زمین و آسمان کی تمام مخلوقات اور دن رات کے تغیرات اور خود انسان کے اپنے وجود کی کائنات میں اپنی یاد دلانے والی ایسی نشانیاں رکھ دیں کہ اگر ذرا بھی ہوش سے کام لے تو کسی وقت اپنے مالک کو نہ بھولے، (آیت) وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ، وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ، یعنی زمین میں اہل بصیرت کے لئے ہماری نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے وجود میں بھی، کیا پھر بھی تم نہیں دیکھتے۔
اسی طرح غافل انسان کو بیدار کرنے اور عمل صا لح پر لگانے کے لئے ایک انتظام رب العالممین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ افراد اور جماعتوں اور قوموں سے مختلف اوقات اور حالات میں اپنے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ عہد و پیمان لے کر ان کو قانون کی پابندی کے لئے تیار کیا گیا۔
قرآن مجید کی متعدد آیات میں بہت سے معاہدات و مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے جو مختلف جماعتوں سے مختلف اوقات و حالات میں لئے گئے، انبیاء (علیہم السلام) سے عہد لیا گیا کہ جو کچھ ان کو حق تعالیٰ کی طرف سے پیغام رسالت ملے وہ اپنی اپنی امتوں کو ضرور پہنچا دیں گے، اس میں ان کے لئے کسی کا خوف اور لوگوں کی ملامت و توہین کا اندیشہ حائل نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کی اس مقدس جماعت نے اپنے اس معاہدہ کا پورا حق ادا کردیا، پیغام رسالت کے پہنچانے میں اپنا سب کچھ قربان کردیا۔
اسی طرح ہر رسول و نبی کی امت سے اس کا معاہدہ لیا گیا کہ وہ اپنے اپنے انبیاء کا اتباع کریں گے، پھر خاص خاص اہم معاملات میں خصوصیت کے ساتھ اس کے پورا کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے کا عہد لیا گیا، جس کو کسی نے پورا کیا کسی نے نہیں کیا۔
انہی معاہدات میں سے ایک اہم معاہدہ وہ ہے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) سے ہمارے رسول کریم محمد مصطفیٰ ﷺ کے بارے میں لیا گیا کہ سب انبیاء نبی امی خاتم الانبیاء ﷺ کا اتباع کریں گے، اور جب موقع پائیں گے ان کی مدد کریں گے جس کا ذکر اس آیت میں ہے(آیت) وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاق النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ، یہ تمام عہود و مواثیق حق تعالیٰ کی رحمت کاملہ کے مظاہر ہیں اور مقصد ان کا یہ ہے کہ انسان جو کثیر النسیان ہے اکثر اپنے فرائض کو بھول جاتا ہے، اس کو بار بار ان معاہدات کے ذریعہ ہوشیار کیا گیا تاکہ وہ ان کی خلاف ورزی کرکے تباہی میں نہ پڑجائے۔
بیعت لینے کی حقیقت
انبیاء علہیم السلام اور ان کے نائب علماء و مشائخ میں بھی جو بیعت لینے کا دستور رہا ہے وہ بھی اسی سنت الہیہ کا اتباع ہے، خود رسول کریم ﷺ نے بہت سے معاملات میں صحابہ کرام سے بیعت لی، جن میں سے بیعت رضوان کا تذکرہ قرآن کریم میں ان لفاظ کے ساتھ موجود ہے (آیت) لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤ ْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ ، یعنی اللہ راضی ہوگیا ان لوگوں سے جنہوں نے ایک خاص درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
ہجرت سے پہلے انصار مدینہ کی بیعت عقبہ بھی اسی قسم کے معاہدات میں سے ہے۔
بہت سے صحابہ کرام ؓ اجمعین سے ایمان اور عمل صالح کی پابندی پر بیعت لی۔ صوفیائے کرام میں جو بیعت مروّج ہے وہ بھی ایمان اور عمل صالح کی پابندی اور گناہوں سے بچنے کے اہتمام کا عہد ہے اور اسی سنت اللہ اور سنت الانبیاء کا اتباع ہے، اسی وجہ سے اس میں خاص برکات ہیں کہ انسان کو گناہوں سے بچنے اور احکام شرعیہ بجا لانے کی ہمت اور توفیق بڑھ جاتی ہے۔ بیعت کی حقیقت معلوم ہونے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جس طرح کی بیعت عام طور پر ناواقف جاہلوں میں رواج پاگئی ہے کہ کسی بزرگ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دینے ہی کو نجات کے لئے کافی سمجھ بیٹھتے ہیں، یہ سراسر جہالت ہے، بیعت ایک معاہدہ کا نام ہے، اس کا فائدہ جبھی ہے جب اس معاہدہ کو عملا پورا کیا جائے ورنہ وبال کا خطرہ ہے۔
سورة اعراف کی گذشتہ آیت میں ان معاہدات کا ذکر تھا جو بنی اسرائیل سے احکام تورات کی پابندی کے سلسلے میں لئے گئے تھے، مذکور الصدر آیات میں اس عالمگیر معاہدہ کا بیان ہے جو تمام اولاد آدم سے اس عالم دنیا میں آنے سے بھی پہلے ازل میں لیا گیا جو عام زبانوں پر عہد الست کے نام سے معروف و مشہور ہے۔ (آیت) وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ، ان آیتوں میں اولاد آدم کے لئے لفظ ذریت استعمال فرمایا ہے، امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ یہ لفظ دراصل لفظ ذرء سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں پیدا کرنے کے، قرآن کریم میں کئی جگہ یہ لفظ اس معنی کے لئے استعمال ہوا ہے (آیت) وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا، وغیرہ، اس لئے ذریت کا لفظی ترجمہ مخلوق کا ہوا، اس لفظ سے اشارہ کردیا گیا کہ یہ عہد ان تمام لوگوں کے لئے عام و شامل تھا جو آدم ؑ کے واسطہ سے اس دنیا میں پیدا کئے جائیں گے۔
روایات حدیث میں اس عہد ازل کی مزید کچھ تفصیلات آئی ہیں
امام مالک، ابوداؤد، ترمزی اور امام احمد نے بروایت مسلم بن یسار نقل کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت فاروق اعظم سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تھا، آپ سے جو جواب میں نے سنا ہے وہ یہ ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے پہلے آدم ؑ کو پیدا فرمایا، پھر اپنا دست قدرت ان کی پشت پر پھیرا تو ان کی پشت سے جو نیک انسان پیدا ہونے والے تھے وہ نکل آئے تو فرمایا کہ ان کو میں نے جنت کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ جنت ہی کے کام کریں گے، پھر دوسری مرتبہ ان کی پشت پر دست قدرت پھیرا تو جتنے گناہ گار بد کردار انسان ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تھے ان کو نکال کھڑا کیا اور فرمایا کہ ان کو میں نے دوزخ کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ دوزخ میں جانے ہی کے کام کریں گے۔ صحابہ میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ جب پہلے ہی جنتی اور دوزخی متعین کردیئے تو پھر عمل کس مقصد کے لئے کرایا جاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو جنت کے لئے پیدا فرماتے ہیں تو وہ اہل جنت ہی کے کام کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اس کا خاتمہ کسی ایسے ہی کام پر ہوتا ہے جو اہل جنت کا کام ہے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی کو دوزخ کے لئے بناتے ہیں تو وہ دوزخ ہی کے کام میں لگ جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا خاتمہ بھی کسی ایسے ہی کام پر ہوتا ہے جو اہل جہنم کا کام ہے۔“ مطلب یہ ہے کہ جب انسان کو معلوم نہیں کہ وہ کس طبقہ میں داخل ہے تو اس کو اپنی توانائی اور قدرت و اختیار ایسے کاموں میں خرچ کرنا چاہئے جو اہل جنت کے کام ہیں اور یہی امید رکھنا چاہئے کہ وہ انہی میں سے ہوگا۔
اور امام احمد کی روایت میں یہی مضمون بروایت حضرت ابوالدرداء ؓ منقول ہے، اس میں اتنا اور زیادہ ہے کہ پہلی مرتبہ جو لوگ آدم ؑ کی پشت سے نکلے وہ سفید رنگ کے تھے جن کو اہل جنت فرمایا، اور دوسری مرتبہ سیاہ رنگ کے تھے جن کو اہل جہنم قرار دیا۔ اور ترمذی میں یہی مضمون بروایت ابوہریرہ ؓ منقول ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ اس طرح قیامت تک پیدا ہونے والی اولاد آدم جو ظہور میں آئی ان میں سے ہر ایک کی پیشانی پر ایک خاص قسم کی چمک تھی۔
اب غور طلب یہ ہے کہ ان احادیث میں تو ذریت کو آدم ؑ کی پشت سے لینے اور نکالنے کا ذکر ہے اور قرآن کریم کے الفاظ میں بنی آدم یعنی اولاد آدم کی پشت سے نکالنا مذکور ہے۔ تطبیق اس کی یہ ہے کہ آدم ؑ کی پشت سے ان لوگوں کو نکالا گیا جو بلا واسطہ آدم ؑ سے پیدا ہونے والے تھے، پھر ان کی نسل کی پشت سے دوسروں کو اور اسی طرح جس ترتیب سے اس دنیا میں اولاد آدم پیدا ہونے والی تھی اسی ترتیب سے ان کو پشتوں سے نکالا گیا۔
حدیث میں سب کو حضرت آدم ؑ کی پشت سے نکالنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ آدم ؑ سے ان کی اولاد کو پھر اس اولاد سے ان کی اولاد کو ترتیب وار پیدا کیا گیا۔ قرآن مجید میں اس سب ذریت آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لینے میں اس کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ یہ ذریت آدم جو اس وقت پشتوں سے نکالی گئی تھی صرف ارواح نہیں تھیں بلکہ روح اور جسم کا ایسا مرکب تھا جو جسم کے لطیف ترین ذرات سے بنایا گیا تھا، کیونکہ ربوبیت اور تربیت کی ضرورت زیادہ تر وہیں ہوتی ہے جہاں جسم و روح کا مرکب ہو اور جس کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرنا ہو، ارواح کی یہ شان نہیں وہ تو اول سے آخر تک ایک ہی حال پر ہوتی ہیں، اس کے علاوہ احادیث مذکورہ میں جو ان کے رنگ سفید و سیاہ مذکور ہیں یا ان کی پیشانی کی چمک مذکور ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف روح بلا جسم نہیں تھی ورنہ روح کا تو کوئی رنگ نہیں ہوتا، جسم ہی کے ساتھ یہ اوصاف متعلق ہوتے ہیں۔
اور اس پر کوئی تعجب نہ کیا جائے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسان ایک جگہ میں کس طرح سما گئے، کیونکہ حضرت ابوالدرداء کی حدیث مذکور میں اس کی بھی تصریح ہے کہ اس وقت جو ذریت پشت آدم ؑ سے نکالی گئی تھی وہ اپنے اس ڈیل ڈول کے ساتھ نہیں تھی جس میں وہ دنیا میں آئیں گے بلکہ چھوٹی چیونٹی کے جثہ میں تھی، اور سائنس کی اس ترقی کے زمانہ میں تو کسی سمجھ دار انسان کو کوئی اشکال اس میں ہونا ہی نہیں چاہئے کہ اتنے بڑے ڈیل ڈول کا انسان ایک چیونٹی کے جثہ میں کیسے ظاہر ہوا، آج تو ایٹم کے اندر تمام نظام شمسی کے موجود ہونے کا تجربہ کیا جا رہا ہے، فلم کے ذریعہ بڑی سے بڑی چیز کو ایک نقطہ کی مقدار دکھلایا جاسکتا ہے، اس لئے یہ کیا مشکل ہے کہ حق تعالیٰ نے اس عہد و میثاق کے وقت تمام بنی آدم کو بہت چھوٹے جثہ میں وجود عطا فرمایا ہو۔
عہد ازل کے متعلق چند سوال و جواب
اس عہد ازل کے متعلق چند چیزیں اور قابل غور ہیں
اول یہ کہ عہد و اقرار کس جگہ اور کس وقت لیا گیا ؟
دوسرے یہ کہ جب اقرار اس حال میں لیا گیا کہ آدم ؑ کے سوا کوئی دوسرا انسان پیدا بھی نہ ہوا تھا تو ان کو یہ عقل و علم کیسے حاصل ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور اس کے رب ہونے کا اقرار کریں، کیونکہ ربوبیت کا اقرار وہ کرسکتا ہے جس نے شان تربیت کا مشاہدہ کیا ہو اور یہ مشاہدہ اس دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہی ہوسکتا ہے ؟
پہلا سوال کہ یہ عہد و اقرار کس جگہ اور کس وقت لیا گیا، اس کے متعلق مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے جو روایت بسند قوی امام احمد، نسائی اور حاکم نے نقل کی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ عہد و اقرار اس وقت لیا گیا جب آدم ؑ کو جنت سے زمین پر اتارا گیا، اور مقام اس اقرار کا وادی نعمان ہے جو میدان عرفات کے نام سے معروف و مشہور ہے (تفسیر مظہری)
رہا دوسرا سوال کہ یہ نئی مخلوق جس کو ابھی وجود عنصری بھی پوری طرح عطا نہیں ہوا وہ کیا سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارا کوئی پیدا کرنے والا اور پروردگار ہے، ایسی حالت میں ان سے سوال کرنا بھی ایک قسم کی ناقابل برداشت تکلیف ہے، اور وہ جواب بھی کیا دے سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خالق کا ئنات جس کی قدرت کاملہ نے تمام انسانوں کو ایک ذرہ کی صورت میں پیدا فرمایا اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ اس نے ان کو عقل و فہم اور شعور و ادراک بھی اس وقت بقدر ضرورت دے دیا ہو، اور یہی حقیقت ہے کہ اللہ جل شانہ نے اس مختصر وجود میں انسان کے تمام قوٰی کو جمع فرما دیا تھا جن میں سب سے بڑی قوت عقل و شعور کی ہے۔
انسان کے اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ شانہ کی عظمت وقدرت کی وہ بیشمار نشانیاں ہیں جن پر ذرا بھی غور کرنے والا اللہ تعالیٰ کی معرفت سے غافل نہیں رہ سکتا، قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ، وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ، یعنی زمین میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جاننے والوں کے لئے اور خود تمہارے وجود میں بھی، کیا پھر بھی تم نہیں دیکھتے۔
یہاں ایک تیسرا سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ازلی عہد و پیمان کتنا ہی یقینی اور صحیح کیوں نہ ہو مگر کم از کم یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں آنے کے بعد یہ عہد کسی کو یاد نہیں رہا تو پھر عہد کا فائدہ کیا ہوا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اسی نوع بنی آدم میں بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے یہ اقرار کیا ہے کہ ہمیں یہ عہد پوری طرح یاد ہے، حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا کہ یہ عہد و میثاق مجھے ایسا یاد ہے گویا اس وقت سن رہا ہوں، اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جس وقت یہ اقرار لیا گیا میرے آس پاس میں کون کون لوگ موجود تھے، ہاں یہ ظاہر ہے کہ ایسے افراد شاذ و نادر کے درجہ میں ہیں، اس لئے عام لوگوں کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو بالخاصہ اثر رکھتے ہیں، چاہے وہ کام کسی کو یاد رہے یا نہ رہے بلکہ اس کی خبر بھی نہ ہو مگر وہ اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں، یہ عہد و اقرار بھی ایسی ہی حیثیت رکھتا ہے کہ دراصل اس اقرار نے ہر انسان کے دل میں معرفت حق کا ایک بیج ڈال دیا جو پرورش پارہا ہے چاہے اس کو خبر ہو یا نہ ہو، اور اسی بیج کے پھل پھول ہیں کہ ہر انسان کی فطرت میں حق تعالیٰ کی محبت و عظمت پائی جاتی ہے خواہ اس کا ظہور بت پرستی اور مخلوق پرستی کے کسی غلط پیرایہ میں ہو، وہ چند بدنصیب لوگ جن کی فطرت ہی مسخ ہو کر ان کا عقلی ذائقہ خراب ہوگیا اور میٹھے کڑوے کی پہچان جاتی رہی ان کے علاوہ باقی ساری دنیا کے اربوں انسان اللہ تعالیٰ کی دھن اور خیال اور عظمت سے خالی نہیں، پھر چاہے مادی خواہشات میں مبتلا ہو کر یا کسی گمراہ سوسائٹی میں پڑ کر وہ اس کو بھلا دیں، رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کل مولود یولد علی الفطرة، وفی بعض الروایات علی ھذہ الملة (اخرجہ البخاری ومسلم) یعنی ہر پیدا ہونے والا دین فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو دوسرے خیالات میں مبتلا کردیتے ہیں، اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بندوں کو حنیف یعنی ایک خدا کا ماننے والا پیدا کیا ہے پھر شیاطین ان کے پیچھے لگ گئے اور ان کو اس صحیح راستہ سے دور لے گئے۔
اسی طرح بالخاصہ اثر رکھنے والے بہت سے اعمال و اقوال ہیں جو اس دنیا میں بھی انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم سے جاری ہیں جن کا اثر یہ ہے کہ ان کو کوئی سمجھے یا نہ سمجھے اور یاد رکھے یا نہ رکھے وہ بہرحال اپنا کام کرتے اور اپنا اثر دکھلاتے ہیں۔
مثلا بچہ پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت و تکبیر کہنے کی جو سنت، ہر مسلمان جانتا ہے اور الحمداللہ پورے عالم اسلام میں جاری ہے، اگرچہ بچہ نہ کلمات کے معنی سمجھتا ہے نہ اس کو بڑا ہونے کے بعد یاد رہتا ہے کہ میرے کان میں کیا الفاظ کہے گئے تھے، اس کی حکمت یہی تو ہے کہ اس کے ذریعہ اس اقرار ازلی کو قوت پہنچا کر کانوں کی راہ سے دل میں ایمان کی تخم ریزی کی جاتی ہے، اور اسی کا یہ اثر مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ بڑا ہونے کے بعد اگرچہ یہ اسلام اور اسلامیات سے کتنا ہی دور ہوجائے مگر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور مسلمانوں کی فہرست سے الگ ہونے کو انہتائی برا سمجھتا ہے، اسی طرح جو لوگ قرآن کی زبان نہیں جانتے ان کو بھی تلاوت قرآن کا حکم شاید اسی حکمت پر مبنی ہے کہ اس سے بھی کم از کم یہ مخفی فائدہ ضرور پہنچ جاتا ہے کہ انسان کے قلب میں نور ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔
اسی لئے آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ یعنی یہ اقرار ہم نے اس لئے لیا ہے کہ تم قیامت کے دن یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس سے غافل تھے، اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اس ازلی سوال و جواب سے تمہارے دلوں میں ایمان کی بنیاد ایسی قائم ہوگئی کہ ذرا بھی غور و فکر سے کام لو تو اللہ جل شانہ کی ربوبیت کے اعتراف کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا۔
Top