Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 180
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآئِهٖ١ؕ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے الْاَسْمَآءُ : نام (جمع) الْحُسْنٰى : اچھے فَادْعُوْهُ : پس اس کو پکارو بِهَا : ان سے وَذَرُوا : اور چھوڑ دو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُلْحِدُوْنَ : کج روی کرتے ہیں فِيْٓ اَسْمَآئِهٖ : اس کے نام سَيُجْزَوْنَ : عنقریب وہ بدلہ پائیں گے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ کے لئے ہیں سب اچھے نام سو اس کو پکارو وہی نام کہہ کر اور چھوڑ دو ان کو جو کج راہ چلتے ہیں اس کے نام میں، وہ بدلہ پا رہیں گے اپنے کئے کا۔
خلاصہ تفسیر
اور اچھے اچھے (مخصوص) نام اللہ ہی کے لئے (خاص) ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور (دوسروں پر ان ناموں کا اطلاق مت کیا کرو بلکہ) ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے (مذکورہ) ناموں میں کج روی کرتے ہیں (اس طرح سے کہ غیر اللہ پر ان کا اطلاق کرتے ہیں جیسا وہ لوگ ان کو معبود اور الہ اعتقاد کے ساتھ کہتے تھے) ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔

معارف و مسائل
پچھلی آیات میں اہل جہنم کا ذکر تھا جنہوں نے اپنی عقل و حواس کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے دیکھنے، سننے اور سمجھنے سوچنے میں صرف نہیں کیا اور آخرت کی دائمی اور لازوال زندگی کے لئے کوئی سامان فراہم نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوگیا کہ وہ خداداد عقل و بصیرت کو ضائع کرکے ذکر اللہ کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح و فلاح سے غافل ہوگئے اور جانوروں سے زیادہ گمراہی اور بےوقوفی میں مبتلا ہوگئے۔
مذکورہ آیت میں ان کے مرض کا علاج اور درد کی دوا بتلائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا اور ذکر اللہ کی کثرت ہے، فرمایا (آیت) وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا، یعنی اللہ ہی کے لئے ہیں اچھے نام، تو تم پکارو اس کو انہی ناموں سے۔
اسماء حسنی کی تشریح
اچھے نام سے مراد وہ نام ہیں جو صفات کمال کے اعلی درجہ پر دلالت کرنے والے ہیں، اور ظاہر ہے کہ کسی کمال کا اعلی درجہ جس سے اوپر کوئی درجہ نہ ہوسکے وہ صرف خالق کائنات جل و عل شانہ ہی کو حاصل ہے اس کے سوا کسی مخلوق کو یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر کامل سے دوسرا شخص اکمل اور فاضل سے افضل ہوسکتا ہے (آیت) فَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ، کا یہی مطلب ہے کہ ہر ذی علم سے بڑھ کر کوئی دوسرا علیم ہوسکتا ہے۔
اسی لئے اس آیت میں ایسی عبارت اختیار کی گئی جس سے معلوم ہو کہ یہ اسماء حسنی صرف اللہ ہی کی خصوصیت ہے دوسروں کو حاصل نہیں، (آیت) فَادْعُوْهُ بِهَا، یعنی جب یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اسماء حسنی ہیں اور وہ اسماء اسی کی ذات کے ساتھ خاص ہیں تو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کو پکارو اور انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو۔
پکارنا یا بلانا دعا کا ترجمہ ہے، اور دعا کا لفظ قرآن میں دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے، ایک اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کی حمد و ثنا، تسبیح و تمجید کے ساتھ، دوسرے حاجات و مشلات کے وقت اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرنا اور مصائب وآفات سے نجات اور مشکلات کی آسانی کی درخواست کرنا، اس آیت میں فادْعُوْهُ بِهَا کا لفظ دونوں معنی کو شامل ہے تو معنی آیت کے یہ ہوئے کہ حمد و ثنا اور تسبیح کے لائق بھی صرف اسی کی ذات پاک ہے اور مشکلات و مصائب سے نجات اور حاجت روائی بھی صرف اسی کے قبضہ میں ہے، اس لئے حمد و ثنا کرو تو اسی کی کرو اور حاجت روائی، مشکل کشائی کے لئے پکارو تو اسی کو پکارو۔
اور پکارنے کا طریقہ بھی یہ بتلا دیا کہ انہی اسماء حسنی کے ساتھ پکارو جو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں۔
دعا کے بعض آداب
اس لئے اس آیت سے دو ہدایتیں امت کو ملیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ذات حقیقی حمد و ثنا یا مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لئے پکارنے کے لائق نہیں، دوسرے یہ کہ اس کے پکارنے کے لئے بھی ہر شخص آزاد نہیں کہ جو الفاظ چاہے اختیار کرلے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں وہ الفاظ بھی بتلا دیئے جو اس کے شایاں ہیں اور ہمیں پابند کردیا کہ انہی الفاظ کے ساتھ اس کو پکاریں، اپنی تجویز سے دوسرے الفاظ نہ بدلیں کیونکہ انسان کی قدرت نہیں کہ تمام پہلوؤں کی رعایت کرکے شایان شان الفاظ بنا سکے۔
بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے (99) نام ہیں جو شخص ان کو محفوظ کرلے وہ جنت میں داخل ہوگیا، یہ ننانوے نام امام ترمزی اور حاکم نے تفصیل کے ساتھ بتلائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے یہ ننانوے نام پڑھ کر جس مقصد کے لئے دعا کی جائے قبول ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے (آیت) ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی تم مجھے پکارو توں میں تمہاری دعا قبول کروں گا، حاجات و مشکلات کے لئے دعا سے بڑھ کر کوئی تدبیر ایسی نہیں جس میں کسی ضرر کا خطرہ نہ، ہو اور نفع یقینی ہو، اپنی حاجات کے لئے اللہ جل شانہ سے دعا کرنے میں کسی نقصان کا تو کوئی احتمال ہی نہین، اور ایک نفع نقد ہے کہ دعا ایک عبادت ہے، اس کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے، حدیث میں ہے الد عاء مخ العبادة یعنی دعا کرنا عبادت کا مغز ہے اور جس مقصد کے لئے اس نے دعا کی ہے اکثر تو وہ مقصد بعینہ پورا ہوجاتا ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو اس نے اپنا مقصد بنایا تھا وہ اس کے حق میں مفید نہ تھی، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دعا کو دوسری طرف پھیر دیتے ہیں جو اس کے لئے مفید ہو، اور حمد و ثنا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ایمان کی غذا ہے جس کے نیتجہ میں انسان کی رغبت و محبت اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہوجاتی ہے اور دنیا کی تکلیفیں اگر پیش بھی آویں تو حقیر اور آسان ہوجاتی ہیں۔
اسی لئے بخاری، مسلم، ترمذی نسائی کی صحیح احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو کوئی غم یا بےچینی یا مہم کام پیش آئے اس کو چاہئے کہ یہ کلمات پڑھے، سب مشکلات آسان ہوجائیں گی وہ کلمات یہ ہیںلآ الہ الا اللہ العظیم الحلیم، لآ الہ الا الہ اللہ رب العرش العظیم، لآ الہ الا الہ اللہ رب السموب والارض ورب العرش الکریم، اور مستدرک حاکم میں بروایت انس ؓ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ زہراء سے فرمایا کہ تمہارے لئے اس سے کیا چیز مانع ہے کہ تم میری وصیت کو سن لو (اور اس پر عمل کیا کرو) وہ وصیت یہ ہے کہ صبح شام یہ دعا کرلیا کرویاحی یاقیوم برحمتک استغیث اصلح لی شانی کلہ ولا تکلنی الی نفسی طرفة عین۔
یہ دعا بھی تمام حاجت و مشکلات کے لئے بےنظیر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ کے اس جملہ میں دو ہدایتیں امت کو دی گئیں، ایک یہ کہ حمد و ثنا اور مشکلات و حاجات کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کو پکارو مخلوقات کو نہیں، دوسرے یہ کہ اس کو انہی ناموں سے پکارو جو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، اس کے الفاظ نہ بدلو۔
آیت کے اگلے جملہ میں اسی کے متعلق ارشاد فرمایا (آیت) وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، یعنی چھوڑ یے ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں الحاد یعنی کجروی کرتے ہیں، ان کو ان کی کجروی کا بدلہ مل جائے گا، الحاد کے معنی لغت میں میلان اور درمیانی راہ سے ہٹ جانے کے آتے ہیں، اسی لئے قبر کی لحد کو لحد کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درمیانی راہ ہٹی ہوئی ہوتی ہے، قرآن کریم میں لفظ الحاد قرآن کریم کے صحیح معانی کو چھوڑ کر ادھرا دھر کی تاویل و تحریف کرنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اس آیت میں رسول کریم ﷺ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے تعلق بھی چھوڑدیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں الحاد یعنی تحریف اور کجروی سے کام لیتے ہیں۔
اسماء الہیہ میں کجروی کی ممانعت اور اس کی مختلف صورتیں
اسماء الہیہ میں تحریف یا کجروی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں وہ سب اس آیت کے مضمون میں داخل ہیں
اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے وہ نام استعمال کیا جائے جو قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت نہیں، علماء حق کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات میں کسی کو یہ اختیار نہیں کہ جو چاہے نام رکھ دے یا جس صفت کے ساتھ چاہے اس کی حمد و ثنا کرے بکہ صرف وہی الفاظ ہونا ضروری ہیں جو قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے لئے بطور نام یا صفت کے ذکر کئے گئے ہیں، مثلا اللہ تعالیٰ کو کریم کہہ سکتے ہیں، سخی نہیں کہہ سکتے، نور کہہ سکتے ہیں ابیض نہیں کہہ سکتے، شافی کہہ سکتے ہیں طبیب نہیں کہہ سکتے، کیونکہ یہ دوسرے الفاظ منقول نہیں، اگرچہ انہی الفاظ کے ہم معنی ہیں۔ دوسری صورت الحاد فی الاسماء کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو نام قرآن وسنت سے ثابت ہیں ان میں سے کسی نام کو نامناسب سمجھ کر چھوڑ دے، اس کا بےادبی ہونا ظاہر ہے۔
کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے مخصوص نام سے موسوم یا مخاطب کرنا جائز نہیں
تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص ناموں کو کسی دوسرے شخص کے لئے استعمال کرے، مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ اسماء حسنی میں سے بعض نام ایسے بھی ہیں جن کو خود قرآن و حدیث میں دوسرے لوگوں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے، اور بعض وہ ہیں جن کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، تو جن ناموں کا استعمال غیر اللہ کے لئے قرآن و حدیث سے ثابت ہے وہ نام تو اوروں کے لئے بھی استعمال ہوسکتے ہیں جیسے رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ، اور اسماء حسنی میں سے وہ نام جن کا غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں ان کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا الحاد مذکور میں داخل اور ناجائز و حرام ہے مثلا رحمن، سبحان، رزاق، خالق، غفار، قدوس وغیرہ۔
پھر ان مخصوص ناموں کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنا اگر کسی غلط عقیدہ کی بناء پر ہے کہ اس کو ہی خالق یا رازق سمجھ کر ان الفاظ سے خطاب کررہا ہے تب تو ایسا کہنا کفر ہے اور اگر عقیدہ غلط نہیں محض بےفکری یا بےسمجھی سے کسی شخص کو خالق، رازق یا رحمن، سبحان کہہ دیا تو یہ اگرچہ کفر نہیں مگر مشرکانہ الفاظ ہونے کی وجہ سے گناہ شدید ہے۔
افسوس ہے کہ آج کل عام مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں، کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑ دیئے، ان کی صورت و سیرت سے تو پہلے بھی مسلمان سمجھنا ان کا مشکل تھا، نام سے پتہ چل جاتا تھا، اب نئے نام انگریزی طرز کے رکھے جانے لگے، لڑکیوں کے نام خواتین اسلام کے طرز کے خلاف خدیجہ، عائشہ، فاطمہ کے بجائے نسیم، شمیم، شہناز، نجمہ، پروین ہونے لگے، اس سے زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ جن لوگوں کے اسلامی نام ہیں، عبدالرحمن، عبدالخالق عبدالرزاق، عبدالغفار، عبدالقدوس وغیرہ، ان میں تخفیف کا یہ غلط طریقہ اختیار کرلیا گیا کہ صرف آخری لفظ ان کے نام کی جگہ پکارا جاتا ہے، رحمن، خالق، رزاق، غفار کا خطاب انسانوں کو دیا جارہا ہے اور اس سے زیادہ غضب کی بات یہ ہے کہ قدرت اللہ کو اللہ صاحب اور قدرت خدا کو خدا صاحب کے نام سے پکارا جاتا ہے یہ سب ناجائز و حرام اور گناہ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا۔
یہ گناہ بےلذت اور بےفائدہ ایسا ہے جس کو ہمارے ہزاروں بھائی اپنے شب و روز کا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں اور کوئی فکر نہیں کرتے کہ اس ذرا سی حرکت کا انجام کتنا خطرناک ہے جس کی طرف آیت مذکورہ کے آخری جملہ میں تنبیہ فرمائی گئی ہے، (آیت) سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، یعنی ان کو اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا، اس بدلہ کی تعیین نہیں کی گئی، اس ابہام سے عذاب شدید کی طرف اشارہ ہے۔
جن گناہوں میں کوئی دنیوی فائدہ یا لذت و راحت ہے ان میں تو کوئی کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی خواہش یا ضرورت سے مجبور ہوگیا، مگر افسوس یہ ہے کہ آج مسلمان ایسے بہت سے فضول گناہوں میں بھی اپنی جہالت یا غفلت سے مبتلا نظر آتے ہیں جن میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہے نہ ادنی درجہ کی کوئی راحت ولذت ہے وجہ یہ ہے کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی طرف دھیان ہی نہ رہا۔ نعوذبا للہ منہ۔
Top