Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
عادت کر درگزر کی اور حکم کر نیک کام کرنے کا اور کنارہ کر جاہلوں سے،
خلاصہ تفسیر
لوگوں سے یہ برتاؤ رکھئے کہ ان کے اعمال و اخلاق میں سے) سرسری (نظر میں جو) برتاؤ معقول و مناسب معلوم ہوں ان) کو قبول کرلیا کیجئے (ان کی تہ اور حقیقت کی تلاش نہ کیجئے بلکہ ظاہری نظر میں سرسری طور پر جو کام کسی سے اچھا ہو اس کو بھلائی پر محمول کیجئے، باطن کا حال اللہ کے سپرد کیجئے کیونکہ پورا اخلاص و نیز شرائط قبول کی جامعیت اخص الخواص کا حصہ ہے، حاصل یہ کہ معاشرت میں سہولت رکھئے تشدد نہ کیجھئے، یہ برتاؤ تو اچھے کاموں میں ہے) اور (جو کام ظاہر نظر میں بھی برا ہو اس میں یہ برتاؤ رکھئے کہ اس باب میں) نیک کام کی تعلیم کردیا کیجئے اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجایا کیجئے (اور ان کے بہت درپے نہ ہوجئے) اور اگر (اتفاقا ان کی جہالت پر) آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے (غصہ کا) آنے لگے (جس میں احتمال ہو کہ کوئی بات خلاف مصلحت کے صادر ہوجائے) تو (ایسی حالت میں فورا) اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلا شبہ وہ خوب جاننے والا ہے (آپ کے استعاذہ کو سنتا ہے، آپ کے مقصود کو جانتا ہے وہ آپ کو اس سے پناہ دے گا اور جس طرح استعاذہ و توجہ الی اللہ آپ کے لئے نافع ہے اسی طرح تمام خدا ترس لوگوں کے لئے بھی نافع ہے چنانچہ) یقینا (یہ بات ہے کہ) جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے (غصہ کا یا اور کسی امر کا) آجاتا ہے تو وہ (فورا خدا کی) یاد میں لگ جاتے ہیں (جیسے استعاذہ و دعا اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و عذاب وثواب کو یاد کرنا) سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں (اور حقیقت امر ان پر منکشف ہوجاتی ہے جس سے وہ خطرہ اثر نہیں کرتا) اور (برخلاف اس کے) جو شیاطین کے تابع ہیں وہ (شیاطین) ان کو گمراہی میں کھینچتے چلے جاتے ہیں پس وہ (تابعین گمراہی سے) باز نہیں آتے (نہ وہ استعاذہ کریں نہ محفوظ رہیں، سو وہ مشرکین تو شیطان کے تابع ہیں یہ کب بازآئیں گے اس لئے ان کے غم و غصہ میں پڑنا بےکار ہے)

معا رف ومسائل
اخلاق قرآنی کا ایک جامع ہدایت نامہ
آیات مذکورہ قرآنی اخلاق فاضلہ کا ایک جامع ہدایت نامہ ہے جس کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کی تربیت کرکے آپ کو تمام اولین و آخرین میں صاحب خلق عظیم کا خطاب دیا گیا ہے۔
پچھلی آیتوں میں دشمنان اسلام کی کجروی، ہٹ دھرمی اور بد اخلاقیوں کا ذکر کرنے کے بعد ان آیات میں اس کے بالمقابل رسول اللہ ﷺ کو اخلاق فاضلہ کی ہدایت دی گئی ہے جس کے تین جملے ہیں، پہلا جملہ خُذِ الْعَفْوَ ہے، عربی لغت کے اعتبار سے لفظ عفو کے کئی معنی ہوسکتے ہیں اور اس موقع پر ہر معنی کی گنجائش ہے، اسی لئے علماء تفسیر کی مختلف جماعتوں نے مختلف معنی لئے ہیں، جمہور مفسرین نے جس کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ عفو کہا جاتا ہے ہر ایسے کام کو جو آسانی کے ساتھ بغیر کسی کلفت اور مشقت کے ہوسکے، تو معنی اس جملہ کے یہ ہوئے کہ آپ قبول کرلیا کریں اس چیز کو جو لوگ آسانی سے کرسکیں یعنی واجبات شرعیہ میں آپ لوگوں سے اعلی معیار کا مطالبہ نہ کریں بلکہ وہ جس پیمانہ پر آسانی سے عمل پیرا ہوسکیں آپ اتنے ہی درجہ کو قبول کرلیا کریں، مثلا نماز کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ بندہ ساری دنیا سے منقطع اور یکسو ہو کر اپنے رب کے سامنے ہاتھ بانھدے ہوئے اس لئے کھڑا ہے کہ حمد و ثنا کے ساتھ اپنے معروضات کو بلاواسطہ بارگاہ الہی میں خود پیش کررہا ہے گویا وہ اس وقت براہ راست حق تعالیٰ شانہ سے مخاطب ہے، اس کے جو آثار خشوع، خضوع ادب و احترام کے ہونا چاہئیں، ظاہر ہے کہ لاکھوں نمازیوں میں سے کسی کسی اللہ کے بندے کو نصیب ہوتے ہیں عام لوگ اس درجہ کو نہیں پاسکتے تو اس آیت نے آنحضرت ﷺ کو یہ تعلیم دی کہ آپ ان لوگوں سے اس اعلی معیار کا مطالبہ ہی نہ رکھیں، بلکہ جس درجہ کو وہ آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں وہ ہی قبول فرما لیں، اسی طرح دوسری عبادات زکوة، روزہ، حج اور عام معاملات و معاشرت کے واجبات شرعیہ میں جو لوگ پورا پورا حق ادا نہیں کرسکتے ان سے سرسری اطاعت و فرمانبرداری ہی کو قبول کرلیا جائے۔
صحیح بخاری میں بروایت عبداللہ بن زبیر خود آنحضرت ﷺ سے آیت کے یہی معنی نقل کئے گئے ہیں۔
اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے پر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اعمال و اخلاق میں سرسری اطاعت قبول کرنے کا حکم دیا ہے، میں نے عزم کرلیا ہے کہ جب تک میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں ایسا ہی عمل کروں گا (ابن کثیر)
ائمہ تفسیر کی ایک بڑی جماعت حضرت عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، صدیقہ عائشہ اور مجاہد رضوان اللہ علیھم اجمعین وغیرہ نے اس جملہ کے بھی یہی معنی قرار دیئے ہیں۔
دوسرے معنی عفو کے معافی اور درگزر کرنے کے بھی آتے ہیں، علماء تفسیر کی ایک جماعت نے اس جگہ یہی معنی مراد لے کر اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ آپ گناہگاروں خطاکاروں کے گناہ و قصور کو معاف کردیا کریں۔
امام تفسیر ابن جریر طبری نے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے جبریل امین سے آیت کا مطلب پوچھا، جبریل امین نے اللہ تعالیٰ سے دریافت کرنے کے بعد یہ مطلب بتلایا کہ اس آیت میں آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں اور جو آپ کو کچھ نہ دے آپ اس پر بخشش کریں اور جو آپ سے تعلق قطع کرے آپ اس سے بھی ملا کریں۔
اس جگہ ابن مردویہ نے بروایت سعد بن عبادہ نقل کیا ہے کہ غزوہ احد میں جب آنحضرت کے چچا حضرت حمزہ کو شہید کیا گیا اور بڑی بےدردی سے ان کے اعضاء کاٹ کر لاش کی بےحرمتی کی گئی تو آنحضرت ﷺ نے لاش کو اس ہیئت میں دیکھ کر فرمایا کہ جن لوگوں نے حمزہ کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے میں ان کے ستر آدمیوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرکے چھوڑوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو بتلایا گیا کہ آپ کا یہ مقام نہیں، آپ کے شایان شان یہ ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں۔
اس مضمون کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے عقبہ بن عامر کی روایت سے نقل کی ہے کہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے جو مکارم اخلاق کی تعلیم دی وہ وہی تھی کہ جو شخص تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو، جو تم سے قطع تعلق کردے تم اس سے ملا کرو، جو تمہیں محروم کردے تم اس کو بخشش دیا کرو۔
اور بیہقی نے بروایت علی مرتضی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ میں تم کو اولین و آخرین کے اخلاق سے بہتر اخلاق کی تعلیم دیتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جو شخص تم کو محروم کرے تم اس پر بخشش کرو، جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو، جو تم سے تعلق قطع کرے تم اس سے بھی ملا کرو۔
لفظ عفو کے پہلے اور دوسرے معنی میں اگرچہ فرق ہے لیکن حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کہ لوگوں کے اعمال و اخلاق میں سرسری اطاعت و فرمانبرداری کو قبول فرمالیا کریں، زیادہ تجس اور تفتیش میں نہ پڑیں، اور ان سے اعلی معیار کی اطاعت کا مطالبہ نہ کریں اور ان کی خطاؤں اور قصور سے درگزر فرمائیں، ظلم کا انتقام نہ لیں، چناچہ رسول کریم ﷺ کے اعمال و اخلاق ہمیشہ اسی سانچے میں ڈھلے رہے، جس کا پورا مظاہرہ اس وقت ہوا جب مکہ فتح ہو کر آپ کے جانی دشمن آپ کے قبضہ میں آئے تو آپ نے سب کو آزاد کرکے فرما دیا کہ تمہارے مظالم کا بدلہ لینا تو کیا ہم تمہیں پچھلے معاملات پر ملامت بھی نہیں کرتے۔
دوسرا جملہ اس ہدایت نامہ کا وَاْمُرْ بالْعُرْفِ ہے، عرف بمعنی معروف ہر اچھے اور مستحسن کام کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے ساتھ برائی اور ظلم سے پیش آئیں آپ ان سے انتقام نہ لیں بلکہ معاف کردیں مگر ساتھ ہی ان کو نیک کام کی ہدایت بھی کرتے رہیں، گویا بدی کا بدلہ نیکی سے ظلم کا بدلہ صرف انصاف ہی سے نہیں بلکہ احسان سے دیں۔
تیسرا جملہ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جاہلوں سے آپ کنارہ کش ہوجائیں، مطلب یہ ہے کہ ظلم کا انتقام چھوڑ کر آپ ان کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا معاملہ کریں اور نرمی کے ساتھ ان کو حق بات بتلائیں مگر بہت سے جاہل ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس شریفانہ معاملہ سے متاثر نہیں ہوتے، اس کے باوجود جہالت اور سختی سے پیش آتے ہیں تو ایسے لوگوں کے ساتھ آپ کا معاملہ یہ ہونا چاہئے کہ ان کے دلخراش اور جاہلانہ کلام سے متاثر ہو کر انہیں جیسی سخت گفتگو نہ کریں بلکہ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔
امام تفسیر ابن کیثر نے فرمایا کہ کنارہ کش ہونے کا بھی مطلب یہ ہے کہ ان کی برائی کا جواب برائی سے نہ دیں، یہ معنی نہیں کہ ان کو ہدایت کرنا چھوڑ دیں کہ یہ وظیفہ رسالت و نبوت کے شایان شان نہیں۔
صحیح بخاری میں اس جگہ ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم کی خلافت کے زمانہ میں عیینہ ابن حصن مدینہ میں آیا اور اپنے بھتیجہ حر ابن قیس کا مہمان ہوا، حضرت حر بن قیس ان اہل علم حضرات میں سے تھے جو حضرت فاروق اعظم کی مجلس مشاورت میں شریک ہوا کرتے تھے، عیینہ نے اپنے بھتیجہ حر بن قیس سے کہا کہ تم امیر المومنین کے مقرب ہو میرے لئے ان سے ملاقات کا کوئی وقت لے لو، حر بن قیس نے فاروق اعظم سے درخواست کی کہ میرا چچا عیینہ آپ سے ملنا چاہتا ہے، آپ نے اجازت دے دی۔
مگر عیینہ نے فاروق اعظم کی مجلس میں پہنچ کر نہایت غیر مہذب اور غلط گفتگو کی کہ نہ آپ ہمیں ہمارا پورا حق دیتے ہیں نہ ہمارے ساتھ انصاف کرتے ہیں، فاروق اعظم کو اس پر غصہ آیا تو حر بن قیس نے عرض کیا کہ امیر المومنین، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ، اور یہ شخص بھی جاہلین میں سے ہے، یہ آیت سنتے ہی فاروق اعظم کا سارا غصہ ختم ہوگیا اور اس کو کچھ نہیں کہا، حضرت فاروق اعظم کی یہ عادت معروف و مشہور تھی کہ کان وقافا عند کتاب اللہ عز وجل یعنی کتاب اللہ کے احکام کے آگے گردن ڈالتے تھے۔
یہ آیت مکارم اخلاق کی جامع آیت ہے، بعض علماء نے اس کا خلاصہ یہ بیان فرمایا ہے کہ لوگ دو قسم کے ہیں ایک محسن یعنی اچھے کام کرنے والے، دوسرے بدکار ظالم، اس آیت نے دونوں طبقوں کے ساتھ اخلاق کریمانہ برتنے کی یہ ہدایت دی ہے کہ نیک کام کرنے والوں سے ان کی ظاہری نیکی کو قبول کرلو، زیادہ تفتیش و تجسس میں نہ پڑو، اور نیکی کے اعلی معیار کا ان سے مطالبہ نہ کرو بلکہ جتنا وہ آسانی سے کرسکیں اس کو کافی سمجھو، اور بدکاروں کے معاملہ میں یہ ہدایت کی کہ ان کو نیک کام سکھلاؤ اور نیکی کا راستہ بتلاؤ، اگر وہ اس کو قبول نہ کریں اور اپنی گمراہی اور غطلی پر جمے رہیں اور جاہلانہ گفتگو سے پیش آئیں تو ان سے علیحدہ ہوجائیں اور ان کی جاہلانہ گفتگو کا جواب نہ دیں، اس طرز سے یہ امید ہے کہ ان کو کسی وقت ہوش آئے اور اپنی غطلی سے باز آجائیں۔
Top