Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ
: اے اولاد آدم
قَدْ اَنْزَلْنَا
: ہم نے اتارا
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لِبَاسًا
: لباس
يُّوَارِيْ
: ڈھانکے
سَوْاٰتِكُمْ
: تمہارے ستر
وَرِيْشًا
: اور زینت
وَلِبَاسُ
: اور لباس
التَّقْوٰى
: پرہیزگاری
ذٰلِكَ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
ذٰلِكَ
: یہ
مِنْ
: سے
اٰيٰتِ
: نشانیاں
اللّٰهِ
: اللہ
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَذَّكَّرُوْنَ
: وہ غور کریں
اے اولاد آدم کی ہم نے اتاری تم پر پوشاک جو ڈھانکے تمہاری شرمگاہیں اور اتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیزگاری کا وہ سب سے بہتر ہے یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی تاکہ وہ لوگ غور کریں
خلاصہ تفسیر
اے اولاد آدم (ایک ہمارا انعام یہ ہے کہ) ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہارے ستر (یعنی پردہ والے بدن) کو بھی چھپاتا ہے اور (تمہارے بدن کے لئے) موجب زینت بھی (ہوتا) ہے، اور (ظاہری لباس کے علاوہ ایک معنوی لباس بھی تمہارے لئے تجویز کیا ہے جو) تقویٰ (یعنی دینداری) کا لباس (ہے کہ) یہ اس (لباس ظاہری) سے بڑھ کر (ضروری) ہے (کیونکہ اس ظاہری لباس کا مطلوب شرعی ہونا اسی تقویٰ یعنی دینداری کی ایک فرع ہے، اصل مقصود ہر حالت میں لباس تقویٰ ہی ہے) یہ (لباس پیدا کرنا) اللہ تعالیٰ کے (فضل و کرم) کی نشانیوں میں سے ہوتا ہے، تاکہ یہ لوگ (اس نعمت کو) یاد رکھیں (اور یاد رکھ کر اپنے منعم اور محسن کا حق اطاعت ادا کریں اور وہ حق اطاعت وہی ہے جس کو لباس تقویٰ فرمایا ہے) اے اولاد آدم ! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے (کہ خلاف دین وتقویٰ تم سے کوئی کام کراوے) جیسا اس نے تمہارے دادا دادی (یعنی آدم و حوا علیہما السلام) کو جنت سے باہر کرا دیا (یعنی ان سے ایسا کام کرادیا کہ اس کے نتیجہ میں وہ جنت سے باہر آگئے، اور باہر بھی) ایسی حالت سے (کرایا) کہ ان کا لباس بھی ان (کے بدن) سے اتروا دیا، تاکہ دونوں کو ایک دوسرے کے پردہ کا بدن دکھائی دینے لگے (جو شریف انسان کیلئے بڑی شرم و رسوائی ہے، غرض شیطان تمہارا قدیم دشمن ہے، اس سے بہت ہوشیار رہو اور زیادہ احتیاط اس لئے اور بھی ضروری ہے کہ) وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو (عادةً) نہیں دیکھتے ہو (ظاہر ہے کہ ایسا دشمن بہت خطرناک ہے، اس سے بچنے کا پورا اہتمام چاہئے، اور یہ اہتمام ایمان کامل اور تقویٰ سے حاصل ہوتا ہے وہ اختیار کرلو تو بچاو کا سامان ہوجائے گا کیونکہ) ہم شیطانوں کو انہی کا رفیق ہونے دیتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے (اگر بالکل ایمان نہیں تو پوری طرح شیطان اس پر مسلط ہوجاتا ہے، اور اگر ایمان تو ہے مگر کامل نہیں تو اس سے کم درجہ کا تسلط ہوتا ہے، بخلاف مومن کامل کے کہ اس پر شیطان کا بالکل قابو نہیں چلتا، جیسا کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں ہے(آیت) انہ لیس لہ سلطان علی الذین آمنوا وعلی ربھم یتوکلون)
معارف و مسائل
آیات مذکورہ سے پہلے ایک پورے رکوع میں حضرت آدم ؑ اور شیطان رحیم کا واقعہ بیان فرمایا گیا تھا، جس میں شیطانی اغواء کا پہلا اثر یہ ہوا تھا کہ آدم و حواء (علیہما السلام) کا جنتی لباس اتر گیا اور وہ ننگے رہ گئے، اور پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے۔
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں حق تعالیٰ نے تمام اولاد آدم کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ تمہارا لباس قدرت کی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدر کرو، یہاں خطاب صرف مسلمانوں کو نہیں، بلکہ پوری اولاد آدم کو ہے، اس میں اشارہ ہے کہ ستر پوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے، بغیر امتیاز کسی مذہب و ملت کے سب ہی اس کے پابند ہیں، پھر اس کی تفصیل میں تین قسم کے لباسوں کا ذکر فرمایا
اول(آیت) لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ اس میں یواری، موارات سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں چھپانے کے، اور سواٰة سوءة کی جمع ہے، ان اعضاء انسانی کو سوءة کہا جاتا ہے جن کے کھلنے کو انسان فطرةً برا اور قابل شرم سمجھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری صلاح و فلاح کے لئے ایک ایسا لباس اتارا ہے، جس سے تم اپنے قابل شرم اعضاء کو چھپا سکو۔
اس کے بعد فرمایا وریشاً ، ریش اس لباس کو کہا جاتا ہے جو آدمی زینت و جمال کے لئے استعمال کرتا ہے، مراد یہ ہے کہ صرف ستر چھپانے کے لئے تو مختصر سا لباس کافی ہوتا ہے، مگر ہم نے تمہیں اس سے زیادہ لباس اس لئے عطا کیا کہ تم اس کے ذریعہ زینت و جمال حاصل کرسکو، اور اپنی ہیئت کو شائستہ بنا سکو۔
اس جگہ قرآن کریم نے انزلنا یعنی اتارنے کا لفظ استعمال فرمایا ہے، مراد اس سے عطا کرنا ہے، یہ ضروری نہیں کہ آسمان سے بنا بنایا اترا ہو، جیسے دوسری جگہ انزلنا الحدید کا لفظ آیا ہے، یعنی ہم نے لوہا اتارا، جو سب کے سامنے زمین سے نکلتا ہے، البتہ دونوں جگہ لفظ انزلنا فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ جس طرح آسمان سے اترنے والی چیزوں میں کسی انسانی تدبیر اور صنعت کو دخل نہیں ہوتا، اسی طرح لباس کا اصل مادہ جو روئی یا اون وغیرہ ہے اس میں کسی انسانی تدبیر کو ذرّہ برابر دخل نہیں، وہ محض قدرت حق تعالیٰ کا عطیہ ہے، البتہ ان چیزوں سے اپنی راحت و آرام اور مزاج کے مناسب سردی گرمی سے بچنے کے لئے لباس بنا لینے میں انسانی صنعت گری کام آتی ہے، اور وہ صنعت بھی حق تعالیٰ ہی کی بتلائی اور سکھائی ہوئی ہے، اس لئے حقیقت شناس نگاہ میں یہ سب حق تعالیٰ ہی کا ایسا عطیہ ہے جیسے آسمان سے اتارا گیا ہو۔
لباس کے دو فائدے
اس میں لباس کے دو فائدے بتلائے گئے، ایک ستر پوشی، دوسرے سردی گرمی سے حفاظت اور آرائش بدن اور پہلے فائدہ کو مقدم کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ انسانی لباس کا اصل مقصد ستر پوشی ہے، اور یہی اس کا عام جانوروں سے امتیاز ہے، کہ جانوروں کا لباس جو قدرتی طور پر ان کے بدن کا جزء بنادیا گیا ہے اس کا کام صرف سردی گرمی سے حفاظت یا زینت ہے، ستر پوشی کا اس میں اتنا اہتمام نہیں، البتہ اعضائے مخصوصہ کی وضع ان کے بدن میں اس طرح رکھ دی کہ بالکل کھلے نہ رہیں، کہیں ان پر دم کا پردہ کہیں دوسری طرح کا۔
اور حضرت آدم و حواء اور اغواء شیطانی کا واقعہ بیان کرنے کے بعد لباس کے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کے لئے ننگا ہونا اور قابل شرم اعضاء کا دوسروں کے سامنے کھلنا انتہائی ذلت و رسوائی اور بےحیائی کی علامت اور طرح طرح کے شرو فساد کا مقدمہ ہے۔
انسان پر شیطان کا پہلا حملہ اس کو ننگا کرنے کی صورت میں ہوا آج بھی نئی شیطانی تہذیب انسان کو برہنہ یا نیم برہنہ کرنے میں لگی ہوئی ہے
اور یہی وجہ ہے کہ شیطان کا سب سے پہلا حملہ انسان کے خلاف اسی راہ سے ہوا کہ اس کا لباس اتر گیا، اور آج بھی شیطان اپنے شاگردوں کے ذریعے جب انسان کو گمراہ کرنا چاہتا ہے تو تہذیب و شائستگی کا نام لے کر سب سے پہلے اس کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے عام سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا کردیتا ہے اور شیطان نے جس کا نام ترقی رکھ دیا ہے وہ عورت کو شرم و حیاء سے محروم کرکے منظر عام پر نیم برہنہ حالت میں لے آنے کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوتی۔
ایمان کے بعد سب سے پہلا فرض ستر پوشی ہے
شیطان نے انسان کے اس کمزور پہلو کو بھانپ کر پہلا حملہ انسان کی ستر پوشی پر کیا، تو شریعت اسلام جو انسان کی ہر صلاح و فلاح کی کفیل ہے، اس نے ستر پوشی کا اہتمام اتنا کیا کہ ایمان کے بعد سب سے پہلا فرض ستر پوشی کو قرار دیا، نماز، روزہ وغیرہ سب اس کے بعد ہے۔
حضرت فاروق اعظم ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نیا لباس پہنے تو اس کو چاہئے کہ لباس پہننے کے وقت یہ دعا پڑھے
الحمد للّٰہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی واتجمل بہ فی حیاتی۔
”یعنی شکر اس ذات کا جس نے مجھے لباس دیا جس کے ذریعہ میں اپنے ستر کا پردہ کروں اور زینت حاصل کروں“۔
نیا لباس بنانے کے وقت پرانے لباس کو صدقہ کردینے کا ثواب عظیم
اور فرمایا کہ جو شخص نیا لباس پہننے کے بعد پرانے کو غرباء و مساکین پر صدقہ کر دے تو وہ اپنی موت وحیات کے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور پناہ میں آگیا۔ (ابن کثیر عن مسند احمد)
اس حدیث میں بھی انسان کو لباس پہننے کے وقت انہی دونوں مصلحتوں کو یاد دلایا گیا ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی لباس پیدا فرمایا ہے۔
ستر پوشی ابتداء آفرنیش سے انسان کا فطری عمل ہے ارتقاء کا جدید فلسفہ باطل ہے
آدم ؑ کے واقعہ اور قرآن کریم کے اس ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ستر پوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے جو اول دن سے اس کے ساتھ ہے، اور آج کل کے بعض فلاسفروں کا یہ قول سراسر غلط اور بےاصول ہے کہ انسان اول ننگا پھرا کرتا تھا، پھر ارتقائی منزلیں طے کرنے کے بعد اس نے لباس ایجاد کیا۔
لباس کی ایک تیسری قسم
ستر پوشی اور راحت وزینت کے لئے دو قسم کے لباسوں کا ذکر فرمانے کے بعد قرآن کریم نے ایک تیسرے لباس کا ذکر اس طرح فرمایا (آیت) ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ بعض قراءتوں میں فتح یعنی زبر کے ساتھ لباس التقوی پڑھا گیا ہے، تو انزلنا کے تحت میں داخل ہو کر معنی یہ ہوئے کہ ہم نے ایک تیسرا لباس تقویٰ کا اتارا ہے، اور مشہور قراءت کی رو سے معنی یہ ہیں کہ یہ دو لباس تو سب جانتے ہیں، ایک تیسرا لباس تقویٰ کا ہے، اور وہ سب لباسوں سے زیادہ بہتر ہے، لباس تقویٰ سے مراد حضرت ابن عباس اور عروہ بن زبیر ؓ کی تفسیر کے مطابق عمل صالح اور خوف خدا ہے۔ (روح)
مطلب یہ ہے کہ جس طرح ظاہری لباس انسان کے قابل شرم اعضاء کے لئے پردہ اور سردی گرمی سے بچنے اور زینت حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اسی طرح ایک معنوی لباس، صالح اور خوف خدا تعالیٰ کا ہے، جو انسان کے اخلاقی عیوب اور کمزوریوں کا پردہ ہے، اور دائمی تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات کا ذریعہ ہے اسی لئے وہ سب سے بہتر لباس ہے۔
اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایک بدکار آدمی جس میں خوف خدا نہ ہو اور وہ عمل صالح کا پابند نہ ہو وہ کتنے ہی پردوں میں چھپے مگر انجام کار رسوا اور ذلیل ہو کر رہتا ہے، جیسا کہ ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے بروایت عثمان غنی ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے جو شخص کوئی بھی عمل لوگوں کی نظروں سے چھپا کر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس عمل کی چادر اڑھا کر اعلان کردیتے ہیں، نیک عمل ہو تو نیکی کا اور برا عمل ہو تو برائی کا“۔ چادر اڑھانے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن پر اوڑھی ہوئی چادر سب کے سامنے ہوتی ہے، انسان کا عمل کتنا ہی پوشیدہ ہو اس کے ثمرات و آثار اس کے چہرے اور بدن پر اللہ تعالیٰ ظاہر کردیتے ہیں، اور اس ارشاد کی سند میں آنحضرت ﷺ نے یہ آیت پڑھی، (آیت) وَرِيْشًا ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ۭذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ
ظاہری لباس کا بھی اصل مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے
لباس التقویٰ کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ ظاہری لباس کے ذریعہ ستر پوشی اور زینت و تجمل سب کا اصل مقصد تقویٰ اور خوف خدا تعالیٰ ہے، جس کا ظہور اس کے لباس میں بھی اس طرح ہونا چاہئے کہ اس میں پوری ستر پوشی ہو، کہ قابل شرم اعضاء کا پورا پردہ ہو، وہ ننگے بھی نہ رہیں، اور لباس بدن پر ایسا چست بھی نہ ہو جس میں یہ اعضاء مثل ننگے کے نظر آئیں، نیز اس لباس میں فخر و غرور کا انداز بھی نہ ہو بلکہ تواضع کے آثار ہوں، اسراف بیجا بھی نہ ہو، ضرورت کے موافق کپڑا استعمال کیا جائے، عورتوں کے لئے مردانہ اور مردوں کے لئے زنانہ لباس بھی نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے۔ لباس میں کسی دوسری قوم کی نقالہ بھی نہ ہو جو اپنی قوم و ملت سے غداری اور اعراض کی علامت ہے۔
اس کے ساتھ ہی اخلاق و اعمال کی دوستی بھی ہو جو لباس کا اصل مقصد ہے، آخر آیت میں ارشاد فرمای آذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ یعنی انسان کو لباس کی یہ تینوں قسمیں عطا فرمانا اللہ جل شانہ کی آیات قدرت میں سے ہے، تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔
Top