Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
قُلْ
: فرما دیں
مَنْ
: کس
حَرَّمَ
: حرام کیا
زِيْنَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی زینت
الَّتِيْٓ
: جو کہ
اَخْرَجَ
: اس نے نکالی
لِعِبَادِهٖ
: اپنے بندوں کے لیے
وَالطَّيِّبٰتِ
: اور پاک
مِنَ
: سے
الرِّزْقِ
: رزق
قُلْ
: فرمادیں
هِىَ
: یہ
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے لیے جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
فِي الْحَيٰوةِ
: زندگی میں
الدُّنْيَا
: دنیا
خَالِصَةً
: خالص طور پر
يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کے دن
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
نُفَصِّلُ
: ہم کھول کر بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیتیں
لِقَوْمٍ
: گروہ کے لیے
يَّعْلَمُوْنَ
: وہ جانتے ہیں
تو کہہ کس نے حرام کیا اللہ کی زینت کو جو اس نے پیدا کی اپنے بندوں کے واسطے اور ستھری چیزیں کھانے کی تو کہہ یہ نعمتیں اصل میں ایمان والوں کے واسطے ہیں دنیا کی زندگی میں خالص انہی کے واسطے ہیں قیامت کے دن اسی طرح مفصل بیان کرتے ہیں ہم آیتیں ان کے لئے جو سمجھتے ہیں
خلاصہ تفسیر
(جو لوگ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزیں ملبوسات اور مطعومات و مشروبات کو بےدلیل بلکہ خلاف دلیل حرام سمجھ رہے ہیں ان سے) آپ ﷺ فرما دیجئے کہ (یہ بتلاؤ) اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے کپڑوں کو جو اس نے اپنے بندوں کے (استعمال کے) واسطے بنائے ہیں اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو (جن کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے) کسی شخص نے حرام کیا ہے (یعنی حلال و حرام قرار دینا تو خالق ومالک کائنات کا کام ہے، تم اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال یا حرام کہنے والے کون ہو ؟ آیات مذکورہ میں لباس اور کھانے پینے کی چیزوں کو انعام خدا وندی قرار دیا ہے، اس سے کفار کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ یہ انعام تو ہمیں خوب مل رہا ہے، اگر اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوتا اور ہمارے عقائد و اعمال اس کے خلاف ہوتے تو یہ انعام ہمیں کیوں ملتا، اس شبہ کے جواب کیلئے فرمایا کہ اے محمد ﷺ آپ ﷺ ان سے یہ کہہ دیجئے کہ (انعامات الٓہیہ کے متعلق استعمال کی اجازت دلیل مقبولیت نہیں، ہاں جس استعمال کے بعد کوئی وبال نہ ہو وہ استعمال کرتے ہیں اتنا ہی ان کا وبال اور عذاب آخرت بڑھتا رہتا ہے، اس لئے فرمایا کہ) یہ اشیاء (لباس اور کھانے پینے کی چیزیں) اس طور پر کہ قیامت کے روز (بھی کدورات سے اور عذاب سے) خالص رہیں دنیوی زندگی میں خاص اہل ایمان ہی کے لئے ہیں (بخلاف کفار کے کہ گو دنیا میں انہوں نے اللہ کی نعمتوں کو استعمال کرکے عیش و عشرت میں بسر کیا، مگر چونکہ ان نعمتوں کا شکر ایمان و اطاعات کے ذریعہ ادا نہیں کیا، اس لئے وہاں یہ نعمتیں وبال اور عذاب بن جاویں گی) ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھداروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں، آپ ﷺ (ان سے یہ بھی) فرمائیے کہ (تم نے جن حلال چیزوں کو بلا وجہ حرام سمجھ رکھا ہے وہ تو اللہ نے حرام نہیں کی) البتہ میرے رب نے صرف (ان چیزوں کو جن میں سے اکثر میں تم مبتلا ہو) حرام کیا ہے (مثلاً) تمام فحش باتوں کو ان میں جو علانیہ ہیں وہ بھی (جیسے ننگے ہو کر طواف کرنا) اور ان میں جو پوشیدہ ہیں وہ بھی (جیسے بدکاری) اور ہر گناہ کی بات کو (حرام کیا ہے) اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو (حرام کیا ہے) اور اس بات کو (حرام کیا ہے) کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک (عبادت) ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند (اور دلیل) نازل نہیں فرمائی (نہ کلیاً نہ جزئیاً) اور اس بات کو (حرام کیا ہے) کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ذمے ایسی بات لگا دو جس کی تمہارے پاس کوئی سند نہ ہو (جس طرح (آیت) قل امر ربی بالقسط میں تمام مامورات جن پر عمل کرنا مشروع ہے داخل ہوگئے، اسی طرح اِنَّمَا حَرَّمَ میں تمام منہیات جن کی ممانعت ہے شامل ہوگئے) اور (اگر ان محرمات کے ارتکاب کرنے والوں کو فوراً سزا نہ ہونے سے ان کی تحریم میں کسی کو شبہ ہوجاوے تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم الٰہی میں) ہر گروہ (کے ہر فرد کی سزا) کے لئے (بمقتضائے حکمت) ایک میعاد معیّن ہے سو جس وقت ان کی (وہ) میعاد معین (نزدیک) آ جاوے گی اس وقت ایک ساعت نہ (اس سے) پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے (بلکہ فوراً ہی سزا جاری ہوجاوے گی اس میعاد کے قبل سزا نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ ان محرکات پر سزا نہ ہوگی)
معارف و مسائل
پہلی آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو عبادات میں غلو اور خود ایجاد تنگیاں پیدا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرنے اور اپنے اوپر حرام قرار دینے کو عبادت و اطاعت سمجھتے ہیں جیسے مشرکین مکہ ایام حج میں بوقت طواف لباس پہننا ہی جائز نہ سمجھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کی حلال اور اچھی غذاؤں سے پرہیز کرنے کو عبادت جانتے تھے۔
ایسے لوگوں کو زجر اور سرزش کے انداز میں تنبیہ کی گئی کہ اللہ کی زینت یعنی عمدہ لباس جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمایا ہے، اور پاکیزہ عمدہ غذائیں جو اللہ نے عطا فرمائی ہیں ان کو کس نے حرام کیا۔
عمدہ لباس اور لذیز کھانے سے پرہیز اسلام کی تعلیم نہیں
مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو حلال و حرام ٹھہرانا صرف اس ذات پاک کا حق ہے جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے، کسی دوسرے کی اس میں مداخلت جائز نہیں، اس لئے وہ لوگ قابل عتاب و عذاب ہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی عمدہ پوشاک یا پاکیزہ اور لذیز خوراک کو حرام سمجھیں، وسعت ہوتے ہوئے پھٹے حالوں گندہ پراگندہ رہنا نہ کوئی اسلام کی تعلیم ہے، نہ کوئی اسلام میں پسندیدہ چیز ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں۔
سلف صالحین اور ائمہ اسلام میں بہت سے اکابر جن کو اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی تھی اکثر عمدہ اور پیش قیمت لباس استعمال فرماتے تھے، خواجہ دوعالم آنحضرت ﷺ نے بھی جب وسعت ہوئی عمدہ سے عمدہ لباس بھی زیب تن فرمایا ہے، ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ ﷺ کے بدن مبارک پر ایسی چادر تھی جس کی قیمت ایک ہزار درہم تھی، امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے کہ چار سو گنّی کی قیمت کی چادر استعمال فرمائی، اسی طرح حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ ہمیشہ نفیس اور عمدہ لباس استعمال فرماتے تھے، ان کے لئے تو کسی صاحب نے سال بھر کے لئے تین سو ساٹھ جوڑوں کا سالانہ انتظام اپنے ذمہ لیا ہوا تھا، اور جو جوڑا امام رحمة اللہ علیہ کے بدن پر ایک مرتبہ پہنچتا تھا دوبارہ استعمال نہ ہوتا تھا، کیونکہ صرف ایک روز استعمال کرکے کسی غریب طالب علم کو دیدتے تھے۔
وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اپنی نعمت اور وسعت عطا فرماویں تو اللہ تعالیٰ اس کو پسند فرماتے ہیں کہ اس کی نعمت کا اثر اس کے لباس وغیرہ میں دیکھا جائے، اس لئے کہ اظہار نعمت بھی ایک قسم کا شکر ہے، اس کے بالمقابل وسعت ہوتے ہوئے پھٹے پرانے یا میلے کچیلے کپڑے استعمال کرنا ناشکری ہے۔
ہاں ضروری بات یہ ہے کہ دو چیزوں سے بچے، ایک ریاء و نمود، دوسرے فخر و غرور، یعنی محض لوگوں کو دکھلانے اور اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے لباس فاخر استعمال نہ کرے، اور ظاہر ہے کہ سلف صالحین ان دونوں چیزوں سے بری تھے۔
اور رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین میں حضرت فاروق اعظم ؓ اور بعض دوسرے صحابہ سے جو عام حالات میں معمولی قسم کا لباس یا پیوند زدہ کپڑے استعمال کرنا منقول ہے اس کی دو وجہ تھیں، ایک تو یہ کہ اکثر جو کچھ مال آتا وہ فقراء، مساکین اور دینی کاموں میں خرچ کر ڈالتے تھے، اپنے لئے باقی ہی نہی رہتا تھا، جس سے عمدہ لباس آسکے، دوسرے یہ کہ آپ مقتدائے خلائق تھے، اس سادہ اور سستی پوشاک کے رکھنے سے دوسرے امراء کو اس کی تلقین کرنا تھا، تاکہ عام غرباء فقراء پر ان کی مالی حیثیت کا رعب نہ پڑے۔
اسی طرح صوفیائے کرام جو مبتدیوں کو لباس زینت اور عمدہ لذیز کھانوں سے روکتے ہیں، اس کا منشاء بھی یہ نہیں کہ ان چیزوں کو دائمی طور پر ترک کرنا کوئی کار ثواب ہے، بلکہ نفس کی خواہشات پر قابو پانے کے لئے ابتداء سلوک میں ایسے مجاہدے بطور علاج ودواء کے کردیئے جاتے ہیں، اور جب وہ اس درجہ پر پہنچ جائے کہ خواہشات نفسانی پر قابو پالے کہ اس کا نفس اس کو حرام و ناجائز کی طرف نہ کھینچ سکے، تو اس وقت تمام صوفیائے کرام عام سلف صالحین کی طرح عمدہ لباس اور لذیز کھانوں کو استعمال کرتے ہیں، اور اس وقت یہ طیبات رزق ان کے لئے معرفت خداوندی اور درجات قرب میں رکاوٹ کے بجائے اضافہ اور تقرّب کا ذریعہ بنتے ہیں۔
خوراک و پوشاک میں سنت رسول اللہ ﷺ
خوراک و پوشاک کے بارے میں خلاصہ سنت رسول اللہ ﷺ اور صحابہ وتابعین کا یہ ہے کہ ان چیزوں میں تکلف نہ کرے، جیسی پوشاک و خوراک بآسانی میسر ہو اس کو شکر کے ساتھ استعمال کرے، موٹا کپڑا، خشک غذا ملے تو یہ تکلف نہ کرے کہ کسی نہ کسی طرح اچھا ہی حاصل کرے خواہ قرض لینا پڑے، یا اس کی فکر میں اپنے آپ کو کسی دوسری مشکل میں مبتلا کرنے کی نوبت آئے۔
اسی طرح عمدہ نفیس لباس یا لذیز کھانا میسر آئے تو یہ تکلف نہ کرے کہ اس کو جان بوجھ کر خراب کرلے یا اس کے استعمال سے پرہیز کرے، جس طرح بڑھیا لباس اور غذا کی جستجو تکلف ہے اسی طرح بڑھیا کو خراب کرنا یا اس کو چھوڑ کر گھٹیا استعمال کرنا بھی تکلف و مذموم ہے۔
آیت کے اگلے جملہ میں اس کی ایک خاص حکمت یہ بتلائی گئی کہ دنیا کی تمام نعمتیں نفیس اور عمدہ لباس، پاکیزہ اور لذیز غذائیں دراصل اطاعت شعار مؤمنین ہی کے لئے پیدا کی گئی ہیں، دوسرے لوگ ان کے طفیل میں کھا پی رہے ہیں، کیونکہ یہ دنیا دار العمل ہے، دار الجزاء نہیں یہاں کھڑے کھوٹے اور اچھے برے کا امتیاز دنیا کی نعمتوں میں نہیں کیا جاسکتا، بلکہ رحمن دنیا کی نعمتوں کا یہ دسترخوان عام یہاں سب کے لئے یکساں کھلا ہوا ہے، بلکہ دنیا میں عادة اللہ یہ ہے کہ اگر مومن و فرمانبردار بندوں سے اطاعت شعاری میں کچھ کمی ہوجاتی ہے تو دوسرے لوگ ان پر غالب آکر دنیوی نعمتوں کے جزائن پر قابض ہوجاتے ہیں اور یہ فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
مگر یہ قانون صرف اسی دار العمل دنیا کے اندر ہے، اور آخرت میں ساری نعمتیں اور راحتیں صرف اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اطاعت شعار بندوں کے لئے مخصوص ہوں گی، یہی معنی ہیں آیت کے اس جملہ کے (آیت) قُلْ هِىَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ، یعنی آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سب نعمتیں حیات دنیا میں بھی دراصل مؤمنین ہی کا حق ہیں، اور قیامت کے دن تو خالص انہی کے ساتھ مخصوص ہوں گی۔
اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ دنیا کی ساری نعمتیں اور راحتیں اس خاص کیفیت کے ساتھ کہ وہ آخرت میں وبال جان نہ بنیں صرف فرمانبردار مؤمنین کا حصہ ہے، بخلاف کفار و فجار کے کہ گو دنیا میں نعمتیں ان کو بھی ملتی ہیں بلکہ زیادہ ملتی ہیں، مگر ان کی یہ نعمتیں آخرت میں وبال جان اور عذاب دائمی بننے والی ہیں، اس لئے نتیجہ کے اعتبار سے ان کے لئے یہ کوئی عزت و راحت کی چیز نہ ہوئی۔
اور بعض حضرات مفسرین نے اس کے یہ معنی قرار دئیے کہ دنیا میں ساری نعمتوں اور راحتوں کے ساتھ محنت و مشقت اور پھر زوال کا خطرہ اور پھر طرح طرح کے رنج و غم لگے ہوئے ہیں، خالص نعمت اور خالص راحت کا یہاں وجود ہی نہیں، البتہ قیامت میں جس کو یہ نعمتیں ملیں گی وہ خالص ہو کر ملیں گی، نہ ان کے ساتھ کوئی محنت و مشقت ہوگی، اور نہ ان کے زوال یا نقصان کا کوئی خطرہ، اور نہ ان کے بعد کوئی رنج و مصیبت، تینوں مفہوم آیت کے اس جملہ میں کھپ سکتے ہیں، اور اسی لئے مفسرین صحابہ وتابعین نے ان کو اختیار کیا ہے۔
آخر آیت میں فرمای آكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ، ”یعنی ہم اپنی قدرت کامل کی نشانیاں سمجھدار لوگوں کے لئے اسی طرح تفصیل و وضاحت سے بیان کیا کرتے ہیں“۔ جس سے ہر عالم و جاہل سمجھ لے، اس آیت میں لوگوں کے غلو اور ان جاہلانہ خیالات کی تردید تھی کہ اچھا لباس اور اچھا کھانا ترک کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔
Top