Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 50
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے اَصْحٰبَ : والے الْجَنَّةِ : جنت اَنْ : کہ اَفِيْضُوْا : بہاؤ (پہنچاؤ) عَلَيْنَا : ہم پر مِنَ : سے الْمَآءِ : پانی اَوْ : یا مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ حَرَّمَهُمَا : اسے حرام کردیا عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور پکاریں گے دوزخ والے جنت والوں کو کہ بہاؤ ہم پر تھوڑا سا پانی، یا کچھ اس میں سے جو روزی تم کو دی اللہ نے، کہیں گے اللہ نے ان دونوں کو روک دیا ہے کافروں سے
خلاصہ تفسیر
اور (جس طرح اوپر جنت والوں نے دوزخ والوں سے گفتگو کی اسی طرح) دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ (ہم مارے بھوک اور پیاس اور گرمی کے بےدم ہوئے جاتے ہیں، خدا کے واسطے) ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو (شاید کچھ تسکین ہوجائے) یا اور ہی کچھ دیدد، جو اللہ تعالیٰ نے تم کو دے رکھا ہے (اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ امید کرکے مانگیں گے، کیونکہ غایت اضطراب میں بعید از توقع باتیں بھی منہ سے نکلا کرتی ہیں) جنت والے (جواب میں) کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں چیزوں کی (یعنی جنت کے کھانے اور پینے کی) کافروں کے لئے بندش کر رکھی ہے، جنہوں نے دنیا میں اپنے دین کو (جس کا قبول کرنا ان کے ذمہ واجب تھا) لہو و لعب بنا رکھا تھا اور جن کو دنیوی زندگانی نے دھوکہ (اور غفلت) میں ڈال رکھا تھا (اس لئے دین کی کچھ پرواہی نہ کی، اور یہ دار الجزاء ہے، جب دین نہیں اس کا ثمرہ کہاں، آگے حق تعالیٰ اہل جنت کے اس جواب کی تصدیق و تائید میں فرماتے ہیں) سو (جب ان کی دنیا میں یہ حالت تھی تو) ہم بھی آج (قیام) کے روز ان کا نام نہ لیں گے (اور کھانا پینا خاک نہ دیں گے) جیسا انہوں نے اس (عظیم الشان) دن کا نام نہ لیا، اور جیسا یہ ہماری آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے، اور ہم نے ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے (یعنی قرآن) جس کو ہم نے اپنے علم کامل سے بہت ہی واضح واضح کرکے بیان کردیا ہے (اور یہ بیان سب کے سنانے کو کیا ہے لیکن) ذریعہ ہدایت اور رحمت ان (ہی) لوگوں کے لئے (ہوا) ہے جو (اس کو سن کر) ایمان لے آتے ہیں (اور جو باوجود اتمام حجت کے ایمان نہیں لاتے، ان کی حالت سے ایسا مترشح ہوا ہے کہ) ان لوگوں کو اور کسی بات کا انتظار نہیں صرف اس (قرآن) کے بتلائے ہوئے اخیر نتیجہ (یعنی وعدہ سزا) کا انتظار ہے (یعنی قبل از عذاب وعید سے نہیں ڈرتے تو خود عذاب کا وقوع چاہتے ہوں گے سو) جس روز اس کا (بتلایا ہوا) اخیر نتیجہ پیش آئے گا (جس کی تفصیل دوزخ وغیرہ کی اوپر مذکور ہوئی) اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے (مضطر ہو کر یوں کہنے) لگیں گے واقعی ہمارے رب کے پیغمبر (دنیا میں) سچی سچی باتیں لائے تھے (مگر ہم سے حماقت ہوئی) سو اب کیا کوئی ہمارا سفارشی ہے کہ وہ ہماری سفارش کر دے یا کیا ہم پھر (دنیا میں) واپس بھیجے جاسکے ہیں، تاکہ ہم لوگ (پھر دنیا میں جاکر) ان اعمال (بد) کے جن کو ہم کیا کرتے تھے برخلاف دوسرے اعمال (نیک) کریں (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب کوئی صورت نجات کی نہیں) بیشک ان لوگوں نے اپنے کو (کفر کے) خسارے میں ڈال دیا اور یہ جو جو باتیں تراشتے تھے (اس وقت) سب گم ہوگیا (اب بجز سزا کے اور کچھ نہ ہوگا)
Top