Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
پکارو اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے اس کو خوش نہیں آتے حد سے بڑھنے والے
خلاصہ تفسیر
تم لوگ (ہر حالت میں اور ہر حاجت میں) اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو تذلل ظاہر کرکے بھی اور چپکے چپکے بھی (البتہ یہ بات) واقعی (ہے کہ) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں جو (دعاء میں) حد (ادب) سے نکل جاویں (مثلاً محالات عقلیہ یا محرمات شرعیہ کی دعا مانگنے لگیں) اور دنیا میں بعد اس کے کہ (تعلیم توحید اور بعثت انبیاء کے ذریعہ) اس کی اصلاح اور درستی کردی گئی ہے، فساد مت پھیلاو (یعنی امور حقہ توحید وغیرہ کے ماننے اور ان پر چلنے سے جن کی اوپر تعلیم ہے عالم میں امن قائم ہوتا ہے تم تعلیم مذکور کو چھوڑ کر نقض امن مت کرو) اور (جیسا تم کو اوپر خاص دعا کرنے کا حکم ہوا ہے اسی طرح بقیہ عبادات کا حکم کیا جاتا ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کی عبادت (جس طریق سے تم کو بتلا دیا ہے) کیا کرو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے (یعنی عبادت کرکے نہ تو ناز ہو اور نہ مایوسی ہو، آگے عبادت کی ترغیب ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے

معارف و مسائل
آیات مذکورہ سے پہلی آیات میں حق تعالیٰ کی قدرت کامل کے خاص خاص مظاہر اور اہم انعامات کا ذکر تھا، ان آیات میں اس کا بیان ہے کہ جب قدرت مطلقہ کا مالک اور تمام احسانات و انعامات کا کرنے والا صرف رب العالمین ہے تو مصیبت اور حاجت کے وقت اسی کو پکارنا اور اسی سے دعا کرنا چاہئے، اس کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف متوجہ ہونا جہالت اور محرومی ہے۔
اسی کے ساتھ ان آیات میں دعاء کے بعض آداب بھی بتلا دیئے گئے، جن کی رعایت کرنے سے قبولیت دعاء کی امید زیادہ ہوجاتی ہے۔
لفظ دعا عربی زبان میں کسی کو حاجت روائی کے لئے پکارنے کے معنی میں بھی آتا ہے، اور مطلق یاد کرنے کے معنی میں بھی، اور یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں، آیت میں ارشاد ہےاُدْعُوْا رَبَّكُمْ یعنی پکارو اپنے رب کو اپنی حاجات کے لئے، یا یاد کرو اور عبادت کرو اپنے رب کی۔
پہلی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اپنی حاجات صرف اللہ تعالیٰ سے مانگو اور دوسری صورت میں یہ کہ ذکر و عبادت صرف اسی کی کرو، یہ دونوں تفسیریں سلف صالحین ائمہ تفسیر سے منقول بھی ہیں۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ، تضرّع کے معنی عجز و انکسار اور اظہار تذلل کے ہیں، اور خفیہ کے معنی پوشیدہ چھپا ہوا، جیسا کہ اردو زبان میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں بولا جاتا ہے۔
ان دونوں لفظوں میں دعا و ذکر کے لئے دو اہم آداب کا بیان ہے، اول یہ کہ قبولیت دعا کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے عجز و انکسار اور تذلل کا اظہار کرکے دعا کرے، اس کے الفاظ بھی عجز و انکسار کے مناسب ہوں، لب و لہجہ بھی تواضع و انکسار کا ہو، ہیئت دعا مانگنے کی بھی ایسی ہی ہو، اس سے معلوم ہوا کہ آج کل عوام جس انداز سے دعا مانگتی ہیں اول تو اس کو دعا مانگنا ہی نہیں کہا جاسکتا، بلکہ پڑھنا کہنا چاہئے، کیونکہ اکثر یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم جو کلمات زبان سے بول رہے ہیں ان کا مطلب کیا ہے، جیسا کہ آج کل عام مساجد میں اماموں کا معمول ہوگیا ہے کہ کچھ عربی زبان کے کلمات دعائیہ انھیں یاد ہوتے ہیں ختم نماز پر انھیں پڑھ دیتے ہیں، اکثر تو خود ان اماموں کو بھی ان کلمات کا مطلب و مفہوم معلوم نہیں ہوتا اور اگر ان کو معلوم ہو تو کم از کم جاہل مقتدی تو اس سے بالکل بیخبر ہوتے ہیں، وہ بےسمجھے بوجھے امام کے پڑھے ہوئے کلمات کے پیچھے آمین آمین کہتے ہیں، اس سارے تماشہ کا حاصل چند کلمات کا پڑھنا ہوتا ہے، دعا مانگنے کی جو حقیقت ہے یہاں پائی ہی نہیں جاتی، یہ دوسری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ان بےجان کلمات ہی کو قبول فرما کر قبولیت دعا کے آثار فرما دیں، مگر اپنی طرف سے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دعا پڑھی نہیں جاتی بلکہ مانگی جاتی ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مانگنے کے ڈھنگ سے مانگا جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے کلمات کے معنی بھی معلوم ہوں اور سمجھ کر ہی کہہ ریا ہو تو اگر اس کے ساتھ عنوان اور لب و لہجہ اور ہیئت ظاہری تواضع و انکسار کی نہ ہو تو یہ دعا نرا ایک مطالبہ رہ جاتا ہے، جس کا کسی بندے کو کوئی حق نہیں۔
غرض پہلے لفظ میں روح دعا بتلا دی گئی کہ وہ عاجزی و انکساری اور اپنی ذلت و پستی کا اظہار کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت مانگنا ہے، دوسرے لفظ میں ایک دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ دعا کا خفیہ اور آہستہ مانگنا افضل اور قرین قبول ہے، کیونکہ بآواز بلند دعا مانگنے میں اول تو تواضع و انکسار باقی رہنا مشکل ہے، ثانیاً اس میں ریاء و شہرت کا بھی خطرہ ہے، ثالثاً اس کی صورت عمل ایسی ہے کہ گویا یہ شخص یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ سمیع علیم ہیں، ہمارے ظاہر و باطن کو یکساں جانتے ہیں، ہر بات خفیہ ہو یا جہر اس کو سنتے ہیں، اسی لئے غزوہ خیبر کے موقع پر صحابہ کرام کی آواز دعا میں بلند ہوگئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو جو اتنی بلند آواز سے کہتے ہو، بلکہ اہل سمیع و قریب تمہارا مخاطب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ، (اس لئے آواز بلند کرنا فضول ہے) خود اللہ جل شانہ نے ایک مرد صالح کی دعا کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا ہے (آیت) اذ نادی ربہ نداء خفیا، یعنی ”جب انہوں نے رب کو پکارا آہستہ آواز سے“ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو دعا کی یہ کیفیت پسند ہے کہ پست اور آہستہ آواز سے دعا مانگی جائے۔
حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علانیہ اور جہراً دعا کرنے میں اور آہستہ پست آواز سے کرنے میں ستر درجہ فضیلت کا فرق ہے، سلف صالحین کی عادت یہ تھی کہ ذکر و دعا میں بڑا مجاہدہ کرتے اور اکثر اوقات مشغول رہتے تھے مگر کوئی ان کی آواز نہ سنتا تھا، بلکہ ان کی دعائیں صرف ان کے اور ان کے رب کے درمیان رہتی تھیں، ان میں بہت سے حضرات پورا قرآن حفظ کرتے اور تلاوت کرتے رہتے تھے، مگر کسی دوسرے کو خبر نہ ہوتی تھی، اور بہت سے حضرات بڑا علم دین حاصل کرتے، مگر لوگوں پر جتلاتے نہ پھرتے تھے، بہت سے حضرات راتوں کو اپنے گھروں میں طویل طویل نمازیں ادا کرتے مگر آنے والوں کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی، اور فرمایا کہ ہم نے ایسے حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ تمام عبادات جن کو وہ پوشیدہ کرکے ادا کرسکتے تھے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اس کو ظاہر کرکے ادا کرتے ہوں، ان کی آوازیں دعاؤں میں نہایت پست ہوتی تھیں (ابن کثیر، مظہری)
ابن جریج نے فرمایا کہ دعاء میں آواز بلند کرنا اور شور کرنا مکروہ ہے، امام ابو جصاص حنفی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دعا کا آہستہ مانگنا بہ نسبت اظہار کے افضل ہے، حضرت حسن بصری اور ابن عباس ؓ سے ایسا ہی منقول ہے، اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں سورة فاتحہ کے ختم پر جو آمین کہی جاتی ہے اس کو بھی آہستہ کہنا افضل ہے، کیونکہ آمین بھی ایک دعا ہے۔
ہمارے زمانہ کے ائمہ مساجد کو اللہ تعالیٰ ہدایت فرما دیں کہ قرآن و سنت کی اس تلقین اور بزرگان سلف کی ہدایت کو یکسر چھوڑ بیٹھے، ہر نماز کے بعد دعا کی ایک مصنوعی سی کاروائی ہوتی ہے، بلند آواز سے کچھ کلمات پڑھے جاتے ہیں جو آداب دعا کے خلاف ہونے کے علاوہ ان نمازیوں کی نماز میں بھی خلل انداز ہوتے ہیں جو مسبوق ہونے کی وجہ سے امام کے فارغ ہونے کے بعد اپنی باقی ماندہ نماز پوری کر رہے ہیں، غلبہ رسوم نے اس کی برائی اور مفاسد کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے، کسی خاص موقع پر خاص دعا پوری جماعت سے کرانا مقصود ہو ایسے موقع پر ایک آدمی کسی قدر آواز سے دعا کے الفاظ کہے اور دوسرے آمین کہیں اس کا مضائقہ نہیں، شرط یہ ہے کہ دوسروں کی نماز و عبادت میں خلل کا موجب نہ بنیں، اور ایسا کرنے کی عادت نہ ڈالیں کہ عوام یہ سمجھنے لگیں کہ دعا کرنے کا طریقہ یہی ہے جیسا کہ آج کل عام طور سے ہو رہا ہے۔
یہ بیان اپنی حاجات کے لئے دعا مانگنے کا تھا، اگر دعا کے معنی اس جگہ ذکر و عبادت کے لئے جاویں تو اس میں بھی علماء سلف کی تحقیق یہی ہے کہ ذکر سر ذکر جہر سے افضل ہے، اور صوفیائے کرام میں مشائخ چشتیہ جو مبتدی کو ذکر جہر کی تلقین فرماتے ہیں وہ اس شخص کے حال کی مناسبت سے بطور علاج کے ہے، تاکہ جہر کے ذریعہ کسل اور غفلت دور ہوجائے، اور قلب میں ذکر اللہ کے ساتھ ایک لگاؤ پیدا ہوجائے، ورنہ فی نفسہ ذکر میں جہر کرنا ان کے یہاں بھی مطلوب نہیں گو جائز ہے اور جواز اس کا بھی حدیث سے ثابت ہے بشرطیکہ اس میں ریا و نمود نہ ہو۔
امام احمد بن حنبل، ابن حیان، بیہقی وغیرہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
خیر الذکر الخفی وخیر الرزق ما یکفی
”یعنی بہترین ذکر خفی ہے، اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لئے کافی ہو جائے“
ہاں خاص خاص حالات اور اوقات میں جہر ہی مطلوب اور افضل ہے ان اوقات و حالت کی تفصیل رسول اللہ ﷺ نے اپنے قول و عمل سے واضح فرما دی ہے، مثلاً اذان و اقامت کا بلند آواز سے کہنا، جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت قرآن کرنا، تکبیرات نماز، تکبیرات تشریق، حج میں تلبیہ بلند آواز سے کہنا وغیرہ، اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے فیصلہ اس باب میں یہ فرمایا ہے کہ کن خاص حالات اور مقامات میں رسول کریم ﷺ نے قولاً یا عملاً جہر کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں تو جہر ہی کرنا چاہئے، اس کے علاوہ دوسرے حالات و مقامات میں ذکر خفی اولیٰ وانفع ہے۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایا اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ معتدین، اعتداء سے مشتق ہے اعتداء کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے، حد سے آگے بڑھنا خواہ دعا میں ہو یا کسی دوسرے عمل میں سب کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دین اسلام نام ہی حدود وقیود کی پابندی اور فرمانبرداری کا ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور تمام معاملات میں حدود شرعیہ سے تجاوز کیا جائے تو وہ بجائے عبادت کے گناہ بن جاتے ہیں۔
دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دعا میں لفظی تکلفات قافیہ وغیرہ کے اختیار کئے جائیں جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے، دوسرے یہ کہ دعا میں غیر ضروری قیدیں شرطیں لگائی جائیں، جیسے حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ نے دیکھا کہ ان کے صاحبزادے اس طرح دعا مانگ رہے ہیں کہ یا اللہ میں آپ سے جنت میں سفید رنگ کا داہنی جانب والا محل طلب کرتا ہوں، تو موصوف نے ان کو روکا، اور فرمایا کہ دعا میں ایسی قیدیں شرطیں لگانا حد سے تجاوز ہے، جس کو قرآن و حدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے (مظہری)
تیسری صورت حد سے تجاوز کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لئے بددعا کرے یا کوئی ایسی چیز مانگے جو عام لوگوں کے لئے مضر ہو، اسی طرح ایک صورت حد سے تجاوز کی یہ بھی ہے جو اس جگہ مذکور ہے کہ دعا میں بلا ضرورت آواز بلند کی جائے (تفسیر مظہری، احکام القرآن)
Top