Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 61
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَيْسَ : نہیں بِيْ : میرے اندر ضَلٰلَةٌ : کچھ بھی گمراہی وَّلٰكِنِّيْ : اور لیکن میں رَسُوْلٌ : بھیجا ہوا مِّنْ : سے رَّبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
بولا اے میری قوم میں ہرگز بہکا نہیں و لیکن میں بھیجا ہوا ہوں جہان کے پروردگار کا ،
اس دل آزاد و دلخراش گفتگو کے جواب میں حضرت نوح ؑ نے پیغمبرانہ لہجہ میں جو جواب دیا وہ مبلغین اور مصلحین کے لئے ایک اہم تعلیم اور ہدایت ہے کہ اشتعال کی بات پر مشتعل اور غضبناک ہونے کے بجائے۔ سادہ لفظوں میں ان کے شبہات کا ازالہ فرما رہے ہیں۔ (آیت) قَالَ يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ ضَلٰلَةٌ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَاَنْصَحُ لَكُمْ وَاَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
یعنی اے میری قوم مجھ میں کوئی گمراہی نہیں مگر بات یہ ہے کہ میں تمہاری طرح آبائی رسوم جہالت کا پابند نہیں بلکہ میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں جو کچھ کہتا ہوں ہدایت ربی سے کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام تم کو پہنچاتا ہوں جس میں تمہارا ہی بھلا ہے نہ اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ اور نہ میری کوئی غرض۔ اس میں رب العالمین کا لفظ عقیدہ شرک پر ضرب کاری ہے کہ اس میں غور کرنے کے بعد نہ کوئی دیوی اور دیوتا ٹھہر سکتا ہے نہ کوئی یزدان و اہرمن۔ اس کے بعد فرمایا کہ تم کو جو قیامت کے عذاب میں شبہات ہیں اس کی وجہ تمہارا بیخبر ی اور ناواقفیت ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا علم یقین دیا گیا ہے۔
اس کے بعد ان کے دوسرے شبہ کا جواب ہے جو سورة مومنون میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ (آیت) ما ھذا الا بشر ملئکۃ الخ۔ یعنی ان کی قوم نے نوح ؑ کی دعوت پر ایک شبہ یہ بھی کیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح ایک بشر اور انسان ہیں ہماری ہی طرح کھاتے پیتے سوتے جاگتے ہیں ان کو ہم کیسے اپنا مقتدا مان لیں اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارے لئے کوئی پیغام بھیجنا تھا تو وہ فرشتوں کو بھیجتے جن کا امتیاز اور بڑائی ہم سب پر واضح ہوتی۔ اب تو اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ ہماری قوم اور نسل کا ایک آدمی ہم پر اپنا تفوق اور بڑائی قائم کرنا چاہتا ہے۔
Top