Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور قوم عاد کی طرف بھیجا ان کے بھائی ہود کو بولا اے میری قوم بندگی کرو اللہ کی کوئی نہیں تمہارا معبود اس کے سوا سو کیا تم ڈرتے نہیں
خلاصہ تفسیر
اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے (برادری یا وطن کے) بھائی (حضرت) ہود ؑ کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا انہوں نے (اپنی قوم سے) فرمایا اے میری قوم تم (صرف) اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (ہونے کے قابل) نہیں (اور بت پرستی چھوڑ دو جیسا آگے وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤ ُ نَا سے معلوم ہوتا ہے) سو کیا تم (ایسے بڑے جرم عظیم یعنی شرک کے مرتکب ہو کر عذاب الٰہی سے) نہیں ڈرتے ان کی قوم میں جو آبرودار لوگ کافر تھے انہوں نے (جواب میں) کہا کہ ہم تم کو کم عقلی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں (کہ توحید کی تعلیم کر رہے ہو اور عذاب سے ڈرا رہے ہو) اور ہم بیشک تم کو جھوٹے لوگوں میں سے سمجھتے ہیں (یعنی نعوذ باللہ نہ تو توحید صحیح مسئلہ ہے اور نہ عذاب کا آنا صحیح ہے) انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم مجھ میں ذرا بھی کم عقل نہیں لیکن (چونکہ) میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں (انہوں نے مجھ کو تعلیم توحید اور انذار عذاب کا حکم کیا ہے اس لئے اپنا منصبی کام کرتا ہوں کہ) تم کو اپنے پروردگار کے پیغام (اور احکام) پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا خیر خواہ امانت دار ہوں (کیونکہ توحید و ایمان میں تمہارا ہی نفع ہے) اور (تم جو میرے بشر ہونے سے میری نبوت کا انکار کرتے ہو جیسا سورة ابراہیم میں بعد ذکر قوم نوح و عاد وثمود کے ہے (آیت) قالوا ان انتم الا بشر مثلنا اور سورة فصلت میں بعد ذکر عاد وثمود کے ہے (آیت) قالوا لوشاء ربنا لا نزل ملئکة الخ تو) کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا (بشر) ہے کوئی نصیحت کی بات آگئی (وہ نصیحت کی بات وہی ہے جو مذکور ہوئی (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ) تاکہ وہ شخص تم کو (عذاب الٰہی سے) ڈراوے (یعنی یہ تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیا بشریت و نبوت میں منافاة ہے اوپر افلا تتقون میں ترہیب تھی آگے ترغیب ہے) اور (اے قوم) تم یہ حالت یاد کرو (اور یاد کرکے احسان مانو اور اطاعت کرو) کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو قوم نوح کے بعد (روئے زمین پر) آباد کیا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ (بھی) زیادہ دیا سو خدا تعالیٰ کی (ان) نعمتوں کو یاد کرو (اور یاد کرکے احسان مانو اور اطاعت کرو) تاکہ تم کو (ہر طرح کی) فلاح ہو وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا (خوب) آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کیا کریں اور جن (بتوں) کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ہم ان (کی عبادت) کو چھوڑ دیں (یعنی ہم ایسا نہ کریں گے) اور ہم کو (نہ ماننے پر) جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو (جیسا افلا تتقون سے معلوم ہوتا ہے) اس (عذاب) کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو انہوں نے فرمایا کہ (تمہاری سرکشی کی جب یہ حالت ہے تو) بس اب تم پر خدا کی طرف سے عذاب اور غضب آیا ہی چاہتا ہے (پس عذاب کے شبہ کا جواب تو اس وقت معلوم ہوجائے گا اور باقی توحید پر جو شبہ ہے کہ ان بتوں کو معبود کہتے ہو جن کا نام تو تم نے معبود رکھ لیا ہے، لیکن واقع میں ان کے معبود ہونے کی کوئی دلیل ہی نہیں تو) کیا تم مجھ سے ایسے (بےحقیقت) ناموں کے باب میں جھگڑتے ہو (یعنی وہ مسمیات بمنزلہ بعض اسماء کے ہیں) جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے (آپ ہی) ٹھہرا لیا ہے (لیکن) ان کے معبود ہونے کی خدا تعالیٰ نے کوئی دلیل (نقلی و عقلی) نہیں بھیجی (یعنی جدال میں مدعی کے ذمہ دلیل ہے اور مقابل کی دلیل کا جواب بھی، سو تم نہ دلیل قائم کرسکتے ہو نہ میری دلیل کا جواب دے سکتے ہو پھر جدال کا کیا معنی) سو تم (اب جدال ختم کرو اور عذاب الٰہی کے) منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں غرض (عذاب آیا اور) ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو (یعنی مؤمنین کو) اپنی رحمت (وکرم) سے (اس عذاب سے) بچا لیا اور ان لوگوں کی جڑ (تک) کاٹ دی (یعنی بالکل ہلاک کردیا) جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ (بوجہ غایت قساوت کے) ایمان لانے والے نہ تھے (یعنی اگر ہلاک بھی نہ ہوتے جب بھی ایمان نہ لاتے اس لئے ہم نے بمقتضائے اس وقت کی حکمت کے خاتمہ ہی کردیا)

معارف و مسائل
عاد اور ثمود کی مختصر تاریخ
عاد اصل میں ایک شخص کا نام ہے جو نوح ؑ کی پانچویں نسل اور ان کے بیٹے سام کی اولاد میں ہے۔ پھر اس شخص کی اولاد اور پوری قوم عاد کے نام سے مشہور ہوگئی۔ قرآن کریم میں عاد کی ساتھ کہیں لفظ عاد اولیٰ اور کہیں ارم ذات العماد بھی آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد کو ارم بھی کہا جاتا ہے۔ اور عاد اولیٰ کے مقابلہ میں کوئی عاد ثانیہ بھی ہے، اس کی تحقیق میں مفسرین اور مؤ رخین کے اقوال مختلف ہیں۔ زیادہ مشہور یہ ہے کہ عاد کے دادا کا نام اِرَم ہے اس کے ایک بیٹے یعنی عوص کی اولاد میں عاد ہے یہ عاد اولیٰ کہلاتا ہے اور دوسرے بیٹے جثو کا بیٹا ثمود ہے یہ عادثانی کہلاتا ہے۔ اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ عاد اور ثمود دونوں ارم کی دو شاخیں ہیں۔ ایک شاخ کو عاد اولیٰ اور دوسری کو ثمود یا عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے اور لفظ اِرَم عاد وثمود دونوں کے لئے مشترک ہے۔
اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ قوم عاد پر جس وقت عذاب آیا تو ان کا ایک وفد مکہ معظمہ گیا ہوا تھا وہ عذاب سے محفوظ رہا اس کو عاد اخری کہتے ہیں (بیان القرآن)
اور ھود ؑ ایک نبی کا نام ہے یہ بھی نوح ؑ کی پانچویں نسل اور سام کی اولاد میں ہیں قوم عاد اور حضرت ہود ؑ کا نسب نامہ چوتھی پشت میں سام پر جمع ہوجاتا ہے اس لئے ہود ؑ عاد کے نسبی بھائی ہیں اس لئے اخاہم ھوداً فرمایا گیا۔
قوم عاد کے تیرہ خاندان تھے۔ عمان سے لے کر حضرموت اور یمن تک ان کی بستاں تھیں۔ ان کی زمینیں بڑی سرسبز و شاداب تھیں۔ ہر قسم کے باغات تھے۔ رہنے کے لئے بڑے بڑے شاندار محلات بناتے تھے۔ بڑے قد آور قوی الجثہ آدمی تھے آیات مذکورہ میں وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً کا یہی مطلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ساری ہی نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دئیے تھے۔ مگر ان کی کج فہمی نے انھیں نعمتوں کو ان کے لئے وبال جان بنادیا۔ اپنی قوت و شوکت کے نشہ میں بدمست ہو کر (آیت) من اشد منا قوة کی ڈینگ مارنے لگے۔
اور رب العالمین جس کی نعمتوں کی بارش ان پر ہو رہی تھی اس کو چھوڑ کر بت پرستی میں مبتلا ہوگئے۔
حضرت ہود ؑ کا نسب نامہ اور بعض حالات
اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے ہود ؑ کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ جو خود انھیں کے خاندان سے تھے۔ اور ابولبرکات جونی جو انساب عرب کے بڑے ماہر مشہور ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ ہود ؑ کے بیٹے یعرب بن قحطان ہیں جو یمن میں جاکر آباد ہوئے اور یمنی اقوام انھیں کی نسل ہیں۔ اور عربی زبان کی ابتداء انھیں سے ہوئی اور یعرب کی مناسبت سے ہی زبان کا نام عربی اور اس کے بولنے والوں کو عرب کہا گیا۔ (بحر محیط)
مگر صحیح یہ ہے کہ عربی زبان تو عہد نوح ؑ سے جاری تھی کشتی نوح ؑ کے ایک رفیق جرہم تھے جو عربی زبان بولتے تھے (بحر محیط) اور یہی جرہم ہیں جن سے مکہ معظمہ کی آبادی شروع ہوئی، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یمن میں عربی زبان کی ابتدا یعرب بن قحطان سے ہوئی اور ابو البرکات کی تحقیق کا یہی مطلب ہو۔
حضرت ہود ؑ نے قوم عاد کو بت پرستی چھوڑ کر توحید اختیار کرنے اور ظلم و جور چھوڑ کر عدل و انصاف اختیار کرنے کی تلقین فرمائی، مگر یہ لوگ اپنی دولت و قوت کے نشہ میں سرشار تھے۔ بات نہ مانی جس کے نتیجہ میں ان پر پہلا عذاب تو یہ آیا کہ تین سال تک مسلسل بارش بند ہوگئی۔ ان کی زمینیں خشک ریگستانی صحرا بن گئی باغات جل گئے۔ مگر اس پر بھی یہ لوگ شرک و بت پرستی سے باز نہ آئے تو آٹھ دن اور سات راتوں تک ان پر شدید قسم کی آندھی کا عذاب مسلط ہوا جس نے ان کے رہے سہے باغات اور محلات کو زمین پر بچھا دیا ان کے آدمی اور جانور ہوا میں اڑتے اور پھر سر کے بل آکر گرتے تھے۔ اس طرح یہ قوم عاد پوری کی پوری ہلاک کردی گئی۔ آیات مذکورہ میں جو ارشاد ہے (آیت) وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا، یعنی ہم نے جھٹلانے والوں کی نسل قطع کردی اس کا مطلب بعض حضرات نے یہی قرار دیا ہے کہ اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ سب فنا کردیئے گئے۔ اور بعض حضرات نے اس لفظ کے یہ معنی قرار دیئے ہیں کہ آئندہ کے لئے بھی قوم عاد کی نسل اللہ تعالیٰ نے منقطع کردی۔
حضرت ہود ؑ کی بات نہ ماننے اور کفر و شرک میں مبتلا رہنے پر جب ان کی قوم پر عذاب آیا تو ہود ؑ اور ان کے رفقاء نے ایک حَظِیرہ (گھیر) میں پناہ لی۔ یہ عجیب بات تھی کہ اس طوفانی ہوا سے بڑے بڑے محلات تو مہندم ہو رہے تھے مگر اس گھیر میں ہوا نہایت معتدل ہو کر داخل ہوتی تھی۔ ہود ؑ کے سب رفقاء عین نزول عذاب کے وقت بھی اسی جگہ مطمئن بیٹھے رہے ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی۔ قوم کے ہلاک ہوجانے کے بعد مکہ معظمہ میں منتقل ہوگئے اور پھر یہیں وفات پائی (بحر محیط)
قوم عاد کا عذاب ہوا کے طوفان کی صورت میں آنا قرآن مجید میں صراحةً مذکور اور منصوص ہے اور سورة مؤ منون میں قصہ نوح ؑ ذکر کرنے کے بعد جو ارشاد ہوا ہے (آیت) ثم انشانا من بعدھم قرنا آخرین، یعنی پھر ہم نے ان کے بعد ایک اور جماعت پیدا کی، ظاہر یہ ہے کہ اس جماعت سے مراد قوم عاد ہے۔ پھر اس جماعت کے اعمال و اقوال بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) فاخذتھم الصیحة بالحق، یعنی پکڑ لیا ان کو ایک سخت آواز نے۔ اس ارشاد قرآنی کی بنا پر بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ قوم عاد پر سخت قسم کی ہیبت ناک آواز کا عذاب مسلط ہوا تھا مگر ان دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں ہوسکتا ہے کہ سخت آواز بھی ہوئی ہو اور ہوا کا طوفان بھی۔
یہ مختصر واقعہ ہے قوم عاد اور حضرت ہود ؑ کا اس کی تفصیل قرآنی الفاظ کے ساتھ یہ ہے۔
پہلی (آیت) میں وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ، یعنی ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود ؑ کو ہدایت کے لئے بھیجا تو انہوں نے فرمایا۔ اے میری قوم تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے کیا تم ڈرتے نہیں۔
قوم عاد سے پہلے قوم نوح ؑ کا عذاب عظیم ابھی تک لوگوں کے ذہنوں سے غائب نہ ہوا تھا اس لئے حضرت ہود ؑ کو عذاب کی شدت و عظمت بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی صرف اتنا فرمانا کافی سمجھا کہ کیا تم اللہ کے عذاب سے ڈرتے نہیں۔
Top