Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 75
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اسْتَكْبَرُوْا : تکبر کیا (متکبر) مِنْ : سے قَوْمِهٖ : اس کی قوم لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں سے اسْتُضْعِفُوْا : ضعیف (کمزور) بنائے گئے لِمَنْ : ان سے جو اٰمَنَ : ایمان لائے مِنْهُمْ : ان سے اَتَعْلَمُوْنَ : کیا تم جانتے ہو اَنَّ : کہ صٰلِحًا : صالح مُّرْسَلٌ : بھیجا ہوا مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اپنا رب قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم بِمَآ : اس پر جو اُرْسِلَ بِهٖ : اس کے ساتھ بھیجا گیا مُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
کہنے لگے سردار جو متکبر تھے اس کی قوم میں غریب لوگوں کو کہ جو ان میں ایمان لا چکے تھے کیا تم کو یقین ہے کہ صالح کو بھیجا ہے اس کے رب نے، بولے ہم کو تو جو وہ لے کر آیا اس پر یقین ہے ،
تیسری اور چوتھی آیت میں وہ مکالمہ اور مباحثہ ذکر کیا گیا ہے جو قوم ثمود کے دو گروہوں کے درمیان ہوا۔ ایک وہ گروہ جو صالح ؑ پر ایمان لے آیا تھا، دوسرا منکرین و کفار کا گروہ۔ ارشاد فرمایا (آیت) قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ ، یعنی کہا قوم صالح ؑ میں سے ان لوگوں نے جنہوں نے تکبر کیا ان لوگوں سے جن کو حقیر و ضعیف سمجھا جاتا تھا یعنی جو ایمان لائے تھے۔
امام رازی نے تفسیر کبیر میں فرمایا کہ اس جگہ ان دونوں گروہوں کے دو وصف قرآن کریم نے بتلائے مگر کفار کا وصف بصیغہ معروف بتلایا استکبروا اور مومنین کا وصف بصیغہ مجہول بتلایا استضعفوا اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ کفار کا یہ حال کہ وہ تکبر کرتے تھے خود ان کا اپنا فعل تھا جو قابل مواخذہ و ملامت اور انجام کار موجب عذاب ہوا۔ اور مومنین کا جو وصف یہ لوگ بیان کرتے تھے کہ وہ ذلیل و حقیر اور ضعیف ہیں۔ یہ کفار کا کہنا ہے خود مومنین کا واقعی حال اور وصف نہیں جس پر کوئی ملامت ہوسکے بلکہ ملامت ان لوگوں پر ہے جو بلاوجہ ان کو حقیر و ضعیف کہتے اور سمجھتے ہیں۔ آگے وہ مکالمہ جو دونوں گروہوں میں ہوا یہ ہے کہ کفار نے مومنین سے کہا کہ کیا تم واقعی یہ جانتے ہو کہ صالح ؑ اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔
تفسیر کشاف میں ہے کہ قوم ثمود کے مومنین نے کیسا بلیغ جواب دیا ہے کہ تم جس بحث میں پڑے ہوئے ہو کہ یہ رسول ہیں یا نہیں یہ بات قابل بحث ہی نہیں بلکہ بدیہی اور یقینی ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لایا ہوا پیغام ہے۔ بات کچھ ہو سکتی ہے تو یہ کہ کون ان پر ایمان لاتا ہے کون نہیں، سو تم تو بحمد اللہ ان کی لائی ہوئی سب ہدایات پر ایمان رکھتے ہیں۔
مگر ان کے بلیغ جواب پر بھی قوم نے وہی سرکشی کی بات کی جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے منکر ہیں۔ دنیا کی محبت اور دولت و قوت کے نشہ سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے کہ وہ انسان کی آنکھوں کا پردہ بن جاتے ہیں اور وہ بدیہی چیزوں کا انکار کرنے لگتا ہے۔
Top