Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 84
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے بارش برسائی عَلَيْهِمْ : ان پر مَّطَرًا : ایک بارش فَانْظُرْ : پس دیکھو كَيْفَ : کیسا ہوا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُجْرِمِيْنَ : مجرمین
اور برسایا ہم نے ان کے اوپر مینہ یعنی پتھروں کا، پھر دیکھ کیا ہوا انجام گنہگاروں کا۔
چوتھی آیت میں اس قوم پر نازل ہونے والے عذاب کو مختصر لفظوں میں صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ان پر عجیب قسم کی بارش بھیجی گئی۔ اور سورة ہود میں اس عذاب کی مفصل کیفیت یہ بیان فرمائی ہے۔ (آیت) فلما جاء امرنا تا ببعید، یعنی جب ہمارا عذاب آپہنچا تو کر ڈالی ہم نے وہ بستی اوپر تلے اور برسائے ان پر پتھر کنکر کے تہ بہ تہ، نشان کئے ہوئے تیرے رب کے پاس اور نہیں ہے وہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور۔
اس سے معلوم ہوا کہ اوپر سے پتھروں کی بارش بھی ہوئی اور نیچے سے زمین کے پورے طبقہ کو جبرئیل امین نے اٹھا کر اوندھا پلٹ دیا۔ اور جن پتھروں کی بارش برسی وہ تہ بہ تہ تھے یعنی ایسی مسلسل بارش ہوئی کہ تہ بہ تہ جمع ہوگئے اور یہ پتھر نشان کئے ہوئے تھے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ہر ایک پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس کی ہلاکت کے لئے پھینکا گیا تھا۔ اور سورة حجر کی آیات میں اس عذاب سے پہلے یہ بھی مذکور ہے (آیت) فاخذتھم الصیحة مشرقین، یعنی آپکڑا ان کو چنگھاڑ نے سورج نکلتے وقت۔
اس سے معلوم ہوا کہ پہلے آسمان سے کوئی سخت آواز چنگھاڑ کی صورت میں آئی پھر اس کے بعد دوسرے عذاب آئے۔ ظاہر الفاظ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ چنگھاڑ کے بعد پہلے زمین کا تختہ الٹ دیا گیا پھر اس پر ان کی مزید تذلیل و تحقیر کے لئے پتھراؤ کیا گیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے پتھراؤ کیا گیا ہو بعد میں زمین کا تختہ الٹا دیا گیا ہو۔ کیونکہ قرآنی اسلوب بیان میں یہ ضروری نہیں کہ جس چیز کا ذکر پہلے ہوا ہو وہ وقوع کے اعتبار سے بھی پہلے ہو۔
قوم لوط ؑ کے ہولناک عذابوں میں سے زمین کا تختہ الٹ دینے کی سزا ان کے فحش و بےحیائی عمل کے ساتھ خاص مناسبت بھی رکھتی ہے کہ انہوں نے قلب موضوع کا ارتکاب کیا ہے۔
سورة ہود کی آیات کے آخر میں قرآن کریم نے اہل عرب کی مزید تنبیہ کے لئے یہ بھی فرمایا کہ (آیت) وما ہی من الظلمین ببعید۔ یعنی یہ الٹی ہوئی بستیاں ان ظالموں سے کچھ دور نہیں۔ سفر شام کے راستہ پر ہر وقت ان کے سامنے آتی ہیں۔ مگر حیرت ہے کہ یہ اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔
اور یہ منظر صرف نزول قرآن کے زمانہ میں نہیں آج بھی موجود ہے بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان آج بھی یہ قطعہ زمین بحر لوط یا بحر میت کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی زمین سطح سمندر سے بہت زیادہ گہرائی میں ہے اور اس کے ایک خاص حصہ پر ایک دریا کی صورت میں ایک عجیب قسم کا پانی موجود ہے جس میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے اس کو بحر میت بولتے ہیں۔ یہی مقام سدوم کا بتلایا جاتا ہے۔ نعوذ باللّہ من عذابہ و غضبہ۔
Top