بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
کیا بات پوچھتے ہیں لوگ آپس میں پوچھتے ہیں
خلاصہ تفسیر
یہ (قیامت کا انکار کرنے والے) لوگ کس چیز کا حال دریافت کرتے ہیں اس بڑے واقعہ کا حال دریافت کرتے ہیں جس میں یہ لوگ (اہل حق کیساتھ) اختلاف کر رہے ہیں (مراد قیامت ہے اور دریافت کرنے سے مراد بطور انکار کے دریافت کرنا ہے اور مقصود اس سوال و جواب سے اذہان کا ادھر متوجہ کرنا اور تفسیر بعدالابہام سے اس کا اہتمام شان ظاہر کرنا ہے، آگے ان کے اختلاف کا بےوجہ اور باطل ہونا بیان کیا گیا ہے کہ جیسا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہ آوے گی) ہرگز ایسا نہیں (بلکہ قیامت آوے گی اور) ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے (یعنی جب دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان پر عذاب واقع ہوگا تب حقیقت اور حقیقت قیامت کی منکشف ہوجاوے گی اور ہم) پھر (کرر کہتے ہیں کہ جیسا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہ آوے گی) ہرگز ایسا نہیں (بلکہ آوے گی اور) ان کو ابھی معلوم ہوا جاتا ہے (اور چونکہ وہ لوگ اس کو مستبعد یا محال سمجھتے ہیں، آگے اس کے امکان اور وقوع کا بیان ہے کہ اس کو محال سمجھنے سے ہماری قدرت کا انکار لازم آتا ہے اور ہماری قدرت کا انکار نہایت عجیب ہے کیونکہ کیا ہم نے زمین کو فرش اور پہاڑوں کو (زمین) کی میخیں نہیں بنایا (یعنی مثل میخوں کے بنایا، جیسا کسی چیز میں میخیں لگا دینے سے وہ چیز اپنی جگہ سے نہیں ہلتی اسی طرح زمین کہ پہاڑوں سے مستقر کردیا اس کی تحقیق سورة نحل میں گز چکی ہے) اور (اس کے علاوہ ہم نے اور بھی دلائل قدرت ظاہر فرمائے چنانچہ) ہم ہی نے تم کو جوڑا جوڑا (یعنی مرد و عورت) بنایا اور ہم ہی نے تمہاری نیند کو حراحت کی چیز بنایا اور ہم ہی نے رات کو پردہ کی چیز بنایا اور ہم ہی نے دن کو معاش کا وقت بنایا اور ہم ہی نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے اور ہم ہی نے (آسمان میں) ایک روشن چراغ بنایا (مراد آفتاب ہے بقولہ تعالیٰ وجعل الشمس سراجاً) اور ہم ہی نے پانی بھرے بادلوں سے بہت پانی برسایا تاکہ ہم اس پانی کے ذریعہ سے غلہ اور سبزی اور گنجان باغ پیدا کریں (اور ان سب سے ہمارا کمال قدرت ظاہر ہے پھر قیامت پر ہمارے قادر ہونے کا کیوں انکار کیا جاتا ہے۔ یہ بیان تھا امکان کا آگے وقوع کا ذکر ہے کہ) بیشک فیصلہ کا دن ایک معین وقت ہے یعنی جس دن صور پھونکا جاوے گا پھر تم لوگ گروہ گروہ ہو کر آؤ گے (یعنی ہر امت جدا جدا ہوگی، پھر مومن جدا، کافر جدا، پھر ابرار جدا، شرار جدا، سب ایک دوسرے سے ممتاز ہو کر میدان قیامت میں حاضر ہوں گے) اور آسمان کھل جاوے گا پھر اس میں دروازے ہی دروازے ہوجاویں گے (یعنی اسقدر بہت سا کھل جاوے گا جیسے بہت سے دروازے ملا کر بہت بڑی جگہ کھلی ہوتی ہی پس لکام مبنی ہے تشبیہ پر، اب یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ دروازے تو آسمان میں اب بھی ہیں پھر اس دن دروازے ہونے کے کیا معنی اور یہ کھلنا نزول ملائکہ کے لئے ہوگا جیسے سورة فرقان میں تشق السماء سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کی شرح وہاں گزری ہے) اور پہاڑ (اپنی جگہ سے) ہٹا دیئے جائیں گے سو وہ ریت کی طرح ہوجاویں گے (کقولہ تعالیٰ کثیباً مھیلاً اور یہ واقعات نفخہ ثانیہ کے وقت ہوں گے البتہ تسییر جبال میں یہاں بھی اور جہاں جہاں واقع ہوا ہے دونوں احتمال ہیں یا تو نفخہ ثانیہ کے بعد کہ اس سے عالم کی سب چیزیں اپنی ہئیت پر عود کر آویں گی، جب حساب کا وقت آوے گا پہاڑوں کو زمین کے برابر کردیا جاوے گا تاکہ زمین پر کوئی آڑ پہاڑ نہ رہے سب ایک ہی میدان میں نظر آویں، اور یا یہ نفخہ اولیٰ کا وقتہ و گا جس سے خود فنا کرنا مقصود بالذات ہوگا، پھر اس تقدیر پر یوم کو ان سب واقعات کا ظرف فرمانا اس بناء پر ہوگا کہ نفخہ اولیٰ سے نفخہ ثانیہ تک کا مجموعہ ایک یوم قرار دے لیا گیا، واللہ اعلم آگے اس یوم الفصل میں جو فیصلہ ہوگا اس کا بیان ہے یعنی) بیشک دوزخ ایک گھات کی جگہ ہے (یعنی عذاب کے فرشتے انتظار اور تاک میں ہیں کہ کافر آویں تو ان کو پکڑتے ہی عذاب دینے لگیں اور وہ) سرکشوں کا ٹھکانا (ہے) جس میں وہ بےانتہا زمانوں (پڑے) رہیں گے (اور) اس میں نہ تو وہ کسی ٹھنڈک (یعنی راحت) کا مزہ چکھیں گے (اس سے زمہریر یعنی سخت سردی کی نفی نہیں ہوئی،) اور نہ پینے کی چیز کا (جس سے پیاس بجھے) بجز گرم پانی اور پیپ کے یہ (ان کو) پورا بدلہ ملے گا (ور وہ اعمال جن کا یہ بدلہ ہے یہ ہیں کہ) وہ لوگ حساب (قیامت) کا اندیشہ نہ رکھتے تھے اور ہماری (ان) آیتوں کو (جن میں حساب و دیگر امور حقہ کی خبر تھی) خوب جھٹلاتے تھے اور ہم نے (ان کے اعمال میں سے) ہر چیز کو (ان کے نامہ اعمال میں) لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے سو (ان اعمال پر ان کو مطلع کر کے کہا جاوے گا کہ اب ان اعمال کا) مزہ چکھو کو ہم تم کو سزا ہی بڑھاتے چلے جائیں گے (یہ تو کافروں کا فیصلہ ہوا آگے اہل ایمان کا فیصلہ مذکور ہے کہ) خدا سے ڈرنے والوں کے لئے بیشک کامیابی ہی یعنی (کھانے اور سیر کو) باغ (جن میں طرح طرح کے میوے ہوں گے) اور انگور (یہ تخصیص بعد التعمیم اہتمام شان کے لئے ہے) اور (دل بہلانے کو) نوخاستہ ہم عورتیں ہیں اور (پینے کو) لبالب بھرے ہوئے جام شراب (اور) وہاں نہ کوئی بیہودہ بات سنیں گے اور نہ جھوٹ (کیونکہ یہ باتیں وہاں محض معدوم ہیں) یہ (ان کو ان کی نیکیوں کا) بدلہ ملے گا جو کہ کافی انعام ہوگا آپ کے رب کی طرف سے جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان چیزوں کا جو دونوں کے درمیان میں ہیں (اور جو) رحمان ہے (اور) کسی کو اس کی طرف سے (مستقل) اختیارنہ ہوگا کہ (اس کے سامنے) عرض معروض کر کے س۔ جس روز تمام ذی ارواح اور فرشتے (خدا کے روبرو) صف بستہ (خشوع و خضوع کے ساتھ) کھڑے ہوں گے (اس روز) کوئی بول نہ سکے گا بجز اس کے جسکو رحمان (بولنے کی) اجازت دیدے اور وہ شخص بات بھی ٹھیک کہے (ٹھیک بات سے مراد وہ بات جس کی اجازت دی گئی ہے یعنی بولنا بھی محدود و مقید ہوگا، یہ نہیں کہ جو چاہے بولنے لگے اور مستقل اختیار سے اوپر یہی مراد ہے، آگے اوپر کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے کہ) یہ (دن جس کا اوپر ذکر ہوا) یقینی دن ہے سو جسکا جی چاہے (اس کے حالات سن کر) اپنے رب کے پاس (اپنا) ٹھکانا بنا رکھے (یعنی نیک عمل کرے کہ وہاں نیک ٹھکانا ملے، آگے اتمام حجت ہے کہ لوگو) ہم نے تم کو ایک نزدیک آنے والے عذاب سے ڈرا دیا ہے (جو کہ ایسے دن میں واقع ہونے والا ہے) جس دن ہر شخص ان اعمال کو (اپنے سامنے حاضر) دیکھ لے گا جو اس نے اپنے ہاتھوں کئے ہوں گے اور کافر (حسرت سے) کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوجاتا (تاکہ عذاب سے بچتا اور یہ اس وقت کہے گا جب چوپائے جانور مٹی کردیئے جاویں گے، رواہ فی الدرعن ابی ہریرة۔)
معارف وسائل
عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ لفظ عم دو حرفوں سے مرکب عن اور ماحرف ما استفہام کے لئے آتا ہے۔ اس ترکیب میں حرف ما میں سے الف ساقط کردیا گیا ہے معنے یہ ہوئے کہ یہ لوگ کس چیز میں باہمی سوال و جواب کر رہے ہیں۔ پھر خود ہی اس کا جواب دیا گیا عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ ۝ ۙالَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْـتَلِفُوْن، لفظ انباء کے معنے خبر کے ہیں مگر ہر خبر کو نبار نہیں بلکہ جب کوئی عظیم الشان خبر ہو اس کو نباء کہا جاتا ہے مراد اس انبا یعنی خبر عظیم الشان سے قیامت ہے اور معنے آیت کے یہ ہیں کہ یہ لوگ اہل مکہ اس عظیم الشان خبر یعنی قیاتم کے بارے میں بحث اور سوال جواب کر رہے ہیں جس میں ان کے آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔
حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو کفار مکہ اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر اس کے متعلق رائے زنی اور چہ میگوئیاں کیا کرتے تھے۔ قرآن میں قیامت کا ذکر اہمیت کیساتھ آیا ہے اور ان کے نزدیک گویا یہ محال چیز تھی اس لئے اس میں گفتگو بکثرت چلتی تھی، کوئی تصدیق کرتا کوئی انکار، اس لئے اس سورت کے شروع میں انکا یہ حال ذکر کر کے آگے قیامت کا واقع ہونا مذکور ہے اور ان کے نزدیک جو اس کے واقع ہونے میں اشکال اور استبعاد تھا اس کا جواب دیا گیا اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ سوال جواب کوئی واقعی تحقیق کے لئے نہیں تھا بلکہ محض استہزاٗ تمسخر کے لئے تھا واللہ اعلم، قرآن کریم نے ان کے جواب میں ایک ہی جملہ کو تاکید کے لئے دو مرتبہ فرمایا ۭكَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ ۝ ۙثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْن، کلا کے معنی ہیں ہرگز نہیں، مراد یہ ہے کہ یہ سوال و جواب اور بحث و تحقیق سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں، وہ تو اجب سامنے آوے گی اس وقت حقیقت معلوم ہوگی۔ یہ ایک ایسی یقینی چیز ہے جس میں بحث وسوال اور انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر فرمایا کہ اس کی حقیقت خود ان لوگوں پر عنقریب واضح ہوجائے گی یعنی مرنے کے بعد ان کو دوسرے عالم کی چیزوں کا انکشاف ہوگا اور وہاں کے ہولناک مناظر کو آنکھوں سے دیکھ لیں گے اس وقت حقیقت کھل جائے گی۔ اس کے بعد حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت و صنعت کے چند مناظر کا ذکر فرمایا ہے جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے یہ کوئی بعید نہیں کہ وہ اس سارے عالم کو ایک مرتبہ فنا کر کے دوبارہ پھر ویسا ہی پیدا کر دے، اس میں زمین اور اس کے پہاڑوں کی تخلیق پھر انسان کی تخلیق مرد و عورت کے جوڑے کی صورت میں بیان فرمائی پھر انسان کی راحت اور صحت اور کاروبار کے لئے سازگاز حالات پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، اس میں ایک یہ ارشاد ہے ۙوَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتا سبات سبت سے مشتق ہے جس کے معنی مونڈنے اور قطع کرنے کے ہیں، نیند کو حق تعالیٰ نے ایسی چیز بنایا ہے کہ وہ انسان کے تمام ہموم و غموم اور افکار کو قطع کر کے اس کے قلب کو دماغ کو ایسی راحت دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی راحت اس کا بدل نہیں ہو سکتی، اس لئے سبات کا ترجمہ بعض حضرات نے راحت سے بھی کیا ہے۔
Top