Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تَتَّقُوا : تم ڈروگے اللّٰهَ : اللہ يَجْعَلْ : وہ بنادے گا لَّكُمْ : تمہارے لیے فُرْقَانًا : فرقان وَّيُكَفِّرْ : اور دور کردے گا عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہاری برائیاں وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور بخشدے گا تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُو الْفَضْلِ : فضل والا الْعَظِيْمِ : بڑا
اے ایمان والو اگر تم ڈرتے رہو گے اللہ سے تو کردے گا تم میں فیصلہ اور دور کردے گا تم سے تمہارے گناہ اور تم کو بخش دے گا، اور اللہ کا فضل بڑا ہے۔
خلاصہ تفسیر
(اور) اے ایمان والو (اطاعت کی اور برکات سنو وہ یہ کہ) اگر تم اللہ سے ڈر (کر اطاعت کرتے) رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا (اس میں ہدایت اور نور قلب جس سے حق و باطل میں علمی فیصلہ ہوتا ہے اور غلبہ علی الاعداء اور نجات آخرت جس سے حق و باطل میں عملی فیصلہ ہوتا ہے سب آگیا) اور تم سے تمہارے گناہ دور کردے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے (خدا جانے اپنے فضل سے اور کیا کیا دے دے جو قیاس و گمان میں بھی نہ آتا ہو) اور (اے محمد ﷺ مسلمانوں کے سامنے تذکیر نعمت کے لئے) اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت (بری بری) تدبیریں سوچ رہے تھے کہ (آیا) آپ کو قید کرلیں یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کردیں اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر (ان تدبیروں کے دفع کرنے کے لئے) کررہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے (جس کے سامنے ان کی ساری تدبیریں گاؤ خورد ہوگئیں اور آپ بال بال محفوظ رہے اور صحیح سالم مدینہ آپہنچے۔ چونکہ آپ کا اس طرح بچ رہنا مومنین کے حق میں بےانتہا ابواب سعادات کی مفتاح ہے اس لئے اس واقعہ کے ذکر کا حکم فرمایا) اور (ان کفار کی یہ حالت ہے کہ) جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن (کر دیکھ) لیا (یہ تو کوئی معجزہ نہیں کیونکہ) اگر ہم ارادہ کریں تو اس کی برابر ہم بھی کہہ لائیں (پس) یہ (قرآن) تو (کلام الہی و معجزہ وغیرہ) کچھ بھی نہیں صرف بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے منقول چلی آرہی ہیں (کہ پہلے اہل ملل بھی یہی دعوٰی توحید و بعثت وغیرہ کے کرتے آئے ہیں انہی کے مضامین آپ نقل کررہے ہیں) اور (اس سے بڑھ کر قابل ذکر وہ حالت ہے) جب کہ ان لوگوں نے (اپنے اس جہل مرکب میں غایت صلابت و جلادت ظاہر کرنے کو یہ بھی) کہا کہ اے اللہ اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر (اس کے نہ ماننے کی وجہ سے) آسمان سے پتھر برسایئے یا ہم پر کوئی (اور) دردناک عذاب واقع کر دیجئے (جو کہ خارق عادت ہونے میں مثل بارش سنگ کے ہو اور جب ایسے عذاب واقع نہ ہوئے تو اپنی حقانیت پر ناز کرتے ہیں) اور (یہ نہیں سمجھتے کہ باوجود ان کے بطلان کے خاص موانع کی وجہ سے یہ عقوبات مذکورہ نازل نہیں ہوتیں ان موانع کا بیان یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ ایسا نہ کریں گے کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو (ایسا) عذاب دیں اور (نیز) اللہ تعالیٰ ان کو (ایسا) عذاب نہ دیں گے جس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے رہتے ہیں (گو وہ آخرت میں بوجہ ایمان نہ ہونے کے نافع نہ ہو لیکن آخر عمل صالح ہے دنیا میں تو کفار کو نافع ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ کہ ان عقوبات خارقہ سے دو امر مانع ہیں، ایک حضور ﷺ کا تشریف رکھنا مکہ میں یا دنیا میں۔ اور دوسرا ان لوگوں کا اپنے طواف وغیرہ میں یہ کہنا غفرانک جو کہ بعد ہجرت و بعد وفات بھی باقی تھا اور ایک مانع حدیثوں میں ہے کہ حضور کی امت میں کسی کا ہونا گو امت دعوت ہی ہو یہ مانع باوجود کسی کے استغفار نہ کرنے کے بھی باقی ہے پس یہ امور فی نفسة مانع ہوئے گو احیانًا مانع کے ہوتے ہوئے بھی کوئی عذاب خارق کسی عارضی مصلحت سے واقع ہوجائے جیسا قذف و مسخ وغیرہ کا قرب قیامت میں ہونا حدیثوں میں وارد ہے۔

معارف و مسائل
پچلھی آیت میں اس کا ذکر تھا کہ انسان کے لئے مال اور اولاد ایک فتنہ یعنی آزمائش کی چیز ہے۔ کیونکہ ان چیزوں کی محبت میں مغلوب ہو کر انسان عمومًا اللہ تعالیٰ اور آخرت سے غافل ہوجاتا ہے حالانکہ اس عظیم نعمت کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی وجہ سے اس کی طرف اور زیادہ جھکتا۔
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت اسی مضمون کی تکمیل ہے اس میں فرمایا ہے کہ جو شخص عقل کو طبیعت پر غالب رکھ کر اس آزمائش میں ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و محبت کو سب چیزوں پر مقدم رکھے جس کو قرآن و شریعت کی اصطلاح میں تقوی کہا جاتا ہے تو اس کو اس کے صلہ میں تین چیزیں عطا ہوتی ہیں فرقان، کفارہ سیئات، مغفرت۔
فرقان اور فرق دونوں مصدر ایک ہی معنی کے ہیں۔ محاورات میں فرقان اس چیز کے لئے بولا جاتا ہے جو دو چیزوں میں واضح طور پر فرق اور فصل کردے۔ اسی لئے فیصلہ کو فرقان کہتے ہیں کیونکہ وہ حق اور ناحق میں فرق واضح کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کو بھی فرقان کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اہل حق کو فتح اور ان کے مخالف کو شکست ہو کر حق و باطل کا فرق واضح ہوجاتا ہے قرآن کریم میں اسی معنی کے لئے غزہ بدر کو یوم الفرقان کے نام سے موسوم کیا ہے۔
اس آیت میں تقوٰی اختیار کرنے والوں کو فرقان عطا ہونے کا اکثر مفسرین صحابہ کے نزدیک یہی مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد اور حفاظت ان کے ساتھ ہوتی ہے کوئی دشمن ان کو گزند نہیں پہنچا سکتا اور تمام مقاصد میں کامیابی ان کی رفیق ہوتی ہے
ہر کہ ترسید از حق و تقوے گزید ترسد از وے جن و انس و ہر کہ دید
تفسیر مہائمی میں ہے کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پچھلے واقعہ میں حضرت ابو لبابہ سے جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کی خاطر لغزش ہوگئی تھی وہ اس لئے بھی خطا تھی کہ اہل و عیال کی حفاظت کا بھی صحیح راستہ یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کو اپنا شعار بنایا جاتا تو سب مال و اولاد اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت میں آجاتے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ فرقان سے مراد اس آیت میں وہ عقل و بصیرت ہے جس کے ذریعہ حق و باطل، کھرے کھوٹے میں امتیاز کرنا سہل ہوجائے تو معنی یہ ہوئے کہ تقوی اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ایسی بصیرت اور فراست عطا فرما دیتے ہیں کہ ان کو اچھے برے میں فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
دوسری چیز جو تقوی کے صلہ میں عطا ہوتی ہے وہ کفارہ سیئات ہے یعنی جو خطائیں اور لغزشیں اس سے سرزد ہوتی ہیں دنیا میں ان کا کفارہ اور بدل کردیا جاتا ہے یعنی اس کے ایسے اعمال صالحہ کی توفیق ہوجاتی ہے جو اس کی سب لغزشوں پر غالب آجاتے ہیں۔ تیسری چیز جو تقوٰی کے صلہ میں ملتی ہے وہ آخرت کی مغفرت اور سب گناہوں، خطاؤں کی معافی ہے۔
آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاللّٰهُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ، یعنی اللہ تعالیٰ بڑے فضل و احسان والے ہیں۔ اس میں اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ عمل کی جزاء تو عمل کے پیمانہ پر ہوتی ہے۔ یہاں بھی تقوی کی جو جزاء خیر تین چیزوں میں مذکور ہے وہ تو جزاء اور بدلہ کے طور پر ہے مگر اللہ تعالیٰ بڑے فضل و احسان والے ہیں ان کی داد و دہش کسی پیمانہ کے ساتھ مقید نہیں اور ان کے احسان و انعام کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اس لئے تقوی اختیار کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام سے ان تین چیزوں کے علاوہ بھی بہت بڑی امیدیں رکھنا چاہئے۔
Top