Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 46
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ
وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور لَا تَنَازَعُوْا : آپس میں جھگڑا نہ کرو فَتَفْشَلُوْا : پس بزدل ہوجاؤگے وَتَذْهَبَ : اور جاتی رہے گی رِيْحُكُمْ : تمہاری ہوا وَاصْبِرُوْا : اور صبر کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور حکم مانو اللہ کا اور اس کے رسول کا اور آپس میں نہ جھگڑو پس نامرد ہوجاؤ گے اور جاتی رہے گی تمہاری ہوا اور صبر کرو، بیشک اللہ ساتھ ہے صبر والوں کے۔
چھیالیسویں آیت میں ایک تیسری چیز کی تلقین اور کی گئی وہ ہے (آیت) وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی امداد و نصرت اس کی اطاعت ہی کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے معصیت اور نافرمانی تو اللہ کی ناراضی اور ہر فضل سے محرومی کے اسباب ہوتے ہیں۔ اس طرح میدان جنگ کے لئے قرآنی ہدایت نامہ کی تین دفعات ہوگئیں ثبات، ذکر اللہ، اطاعت۔ اس کے بعد فرمایا (آیت) وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا، اس میں مضر پہلوؤں پر تنبیہ کرکے ان سے بچنے کی ہدایت ہے۔ اور وہ مضر پہلو جو جنگ کی کامیابی میں مانع ہوتا ہے باہمی نزاع و اختلاف ہے۔ اس لئے فرمایا وَلَا تَنَازَعُوْا یعنی آپس میں نزاع اور کشاکش نہ کرو۔ ورنہ تم میں بزدلی پھیل جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
اس میں باہمی نزاع کے دو نتیجے بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ تم ذاتی طور پر کمزور اور بزدل ہوجاؤ گے۔ دوسرے یہ کہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی دشمن کی نظروں میں حقیر ہوجاؤ گے باہمی کشاکش اور نزاع سے دوسروں کی نظر میں حقیر ہوجانا تو بدیہی امر ہے لیکن خود اپنی قوت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے کہ اس میں کمزوری اور بزدلی آجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اتحاد و اعتماد کی صورت میں ہر ایک انسان کے ساتھ پوری جماعت کی طاقت لگی ہوئی ہوتی ہے اس لئے ایک آدمی اپنے اندر بقدر اپنی جماعت کے قوت محسوس کرتا ہے اور جب باہمی اتحاد و اعتماد نہ رہا تو اس کی اکیلی قوت رہ گئی وہ ظاہر ہے جنگ و قتال کے میدان میں کوئی چیز نہیں۔
اس کے بعد ارشاد فرمایا واصْبِرُوْا۔ یعنی صبر کو لازم پکڑو۔ سیاق کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نزاع اور جھگڑوں سے بچنے کا کامیاب نسخہ بتلایا گیا ہے اور بیان اس کا یہ ہے کہ کوئی جماعت کتنی ہی متحد الخیال اور متحد المقصد ہو مگر افراد انسانی کی طبعی خصوصیات ضرور مختلف ہوا کرتی ہیں نیز کسی مقصد کے لئے سعی و کوشش میں اہل عقل و تجربہ کی رایوں کا اختلاف بھی ناگزیر ہے۔ اس لئے دوسروں کے ساتھ چلنے اور ان کو ساتھ رکھنے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آدمی خلاف طبع امور پر صبر کرنے اور نظر انداز کرنے کا عادی ہو اور اپنی رائے پر اتنا جماؤ اور اصرار نہ ہو کہ اس کو قبول نہ کیا جائے تو لڑ بیٹھے۔ اسی صفت کا دوسرا نام صبر ہے۔ آج کل یہ تو ہر شخص جانتا اور کہتا ہے کہ آپس کا نزاع بہت بری چیز ہے مگر اس سے بچنے کا جو گُر ہے کہ آدمی خلاف طبع امور پر صبر کرنے کا خوگر بنے اپنی بات منوانے اور چلانے کی فکر میں نہ پڑے۔ یہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے اسی لئے اتحاد و اتفاق کے سارے وعظ و پند بےسود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ آدمی کو دوسرے سے اپنی بات منوا لینے پر تو قدرت نہیں ہوتی مگر خود دوسرے کی بات مان لینا اور اگر اس کی عقل و دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو نہ مانے تو کم از کم نزاع سے بچنے کے لئے سکوت کرلینا تو بہرحال اختیار میں ہے اس لئے قرآن کریم نے نزاع سے بچنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی ہر فرد جماعت کو کردی تاکہ نزاع سے بچنا عملی دنیا میں آسان ہوجائے۔
یہاں یہی بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ لَا تَنَازَعُوْا فرمایا ہے یعنی باہمی کشاکش کو روکا ہے رائے کے اختلاف یا اس کے اظہار سے منع نہیں کیا۔ اختلاف رائے جو دیانت اور اخلاص کے ساتھ ہو وہ کبھی نزاع کی صورت اختیار نہیں کیا کرتا۔ نزاع وجدال وہیں ہوتا ہے جہان اختلاف رائے کے ساتھ اپنی بات منوانے اور دوسرے کی بات نہ ماننے کا جذبہ کام کر رہا ہو۔ اور یہی وہ جذبہ ہے جس کو قرآن کریم نے واصْبِرُوْا کے لفظ سے ختم کیا ہے اور آخر میں صبر کرنے کا ایک عظیم الشان فائدہ بتلا کر صبر کی تلخی کو دور فرما دیا۔ ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۔ یعنی صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر حال میں ان کا رفیق ہوتا ہے اور یہ اتنی بڑی دولت ہے کہ دونوں جہان کی ساری دولتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے بعض غزوات میں انھیں ہدایات کو مستحضر کرانے کے لئے عین میدان جنگ میں یہ خطبہ دیا " اے لوگو دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو اور جب ناگزیر طور مقابلہ ہو ہی جائے تو پھر صبر و ثبات کو لازم پکڑو اور یہ سمجھ لو کہ جنت تلواروں کے سایہ میں ہے "۔ (مسلم)
Top