Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 49
اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِذْ : جب يَقُوْلُ : کہنے لگے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : مرض غَرَّ : مغرور کردیا ھٰٓؤُلَآءِ : انہیں دِيْنُهُمْ : ان کا دین وَمَنْ : اور جو يَّتَوَكَّلْ : بھروسہ کرے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
جب کہنے لگے منافق اور جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ لوگ مغرور ہیں اپنے دین پر، اور جو کوئی بھروسہ کرے اللہ پر تو اللہ زبردست ہے حکمت والا۔
شیطانی دجل و فریب اور اس سے بچنے کا طریقہ
اول یہ کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اس کو نقصان پہنچانے کے لئے طرح طرح کے حیلے کرتا اور بہروپ بدلتا ہے۔ بعض اوقات محض دل میں وسوسہ ڈال کر پریشان کرتا ہے اور بعض اوقات سامنے آکر دھوکا دیتا ہے۔
دوسرے یہ کہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے اس کی قدرت دی ہے کہ وہ مختلف شکلوں میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ ایک مشہور حنفی فقیہ کی کتاب آکام المرجان فی احکام الجان میں اس کو بوضاحت ثابت کیا گیا ہے۔ اسی لئے محققین صوفیائے کرام جو اصحاب کشف و شہود ہیں انہوں نے لوگوں کو اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ کسی شخص کو دیکھ کر یا اس کا کلام سن کر بغیر تحقیق حال کے اس کے پیچھے چلنا بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ کشف والہام میں بھی شیطانی تلبیسات ہوسکتی ہیں۔ مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے
اے بسا ابلیس آدم روئے ست پس بہر دستے نشاید داد دست
اور حافظ نے فرامایا
در راہ عشق وسوسہ اہر من بےست ہشدار و گوش رابہ پیام سروش دار
پیام سروش سے مراد وحی الہی ہے۔
کامیابی کے لئے صرف اخلاص نیت ہی کافی نہیں اس سے پہلے راستہ سیدھا ہونا ضروری ہے
تیسرے یہ کہ جو لوگ کفر و شرک یا دوسرے ناجائز اعمال میں مبتلا ہوتے ہیں اس کا بشیتر سبب یہی ہوتا ہے کہ شیطان ان کے اعمال بد کو خوبصورت مستحسن اور نفع بخش ظاہر کرکے ان کے دل و دماغ کو حق و صدق اور صحیح نتائج کی طرف سے پھیر دیتا ہے وہ اپنے باطل ہی کو حق اور برے کو بھلا سمجھنے لگتے ہیں اور اہل حق کی طرح اپنے باطل پر جان دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے قریشی لشکر اور اس کے سردار جب بیت اللہ سے رخصت ہو رہے تھے تو بیت اللہ کے سامنے ان الفاظ سے دعا کر کے چلے تھے کہ اللھم انصر اھدی الطائفتین یعنی اے اللہ ہم دونوں جماعتوں میں سے جو زیادہ ہدایت پر ہے اس کی مدد فرمایئے اور فتح دیجئے۔ یہ بیخبر لوگ شیطانی فریب میں آکر اپنے آپ ہی کو زیادہ ہدایت پر اور حق بجانب سمجھتے تھے۔ اور پورے اخلاص کے ساتھ اپنے باطل کی حمایت و نصرت میں جان مال قربان کرتے تھے۔
اس سے معلوم ہوگیا کہ نرا اخلاص کافی نہیں جب تک کہ عمل کا رخ درست نہ ہو۔
اس کے بعد کی دوسری آیت میں منافقین مدینہ اور مشرکین مکہ کا ایک مشترک مقولہ مسلمانوں کے بارے میں یہ نقل کیا جو گویا ان پر ترس کھا کر کہا گیا ہے کہ (آیت) غَرَّ ھٰٓؤ ُ لَاۗءِ دِيْنُهُمْ۔ یعنی میدان بدر میں یہ مٹھی بھر مسلمان اتنے بھاری اور قوی لشکر سے ٹکرانے آگئے ان بےچاروں کو ان کے دین نے فریب میں ڈال کر موت کے منہ میں دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا (آیت) وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔ یعنی جو شخص اللہ پر توکل اور بھروسہ کرلیتا ہے تو یاد رکھو کہ وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہے اس کی حکمت کے سامنے سب کی عقل و دانش رکھی رہ جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم لوگ صرف مادہ اور مادیات کو جاننے والے اور اسی پر بھروسہ کرنے والے ہو تمہیں اس مخفی طاقت کی خبر نہیں جو اس مادہ اور مادیات کے پیدا کرنے والے کے خزانوں میں ہے اور جو ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اعتماد رکھتے ہیں۔
آج بھی دیندار بھولے بھالے مسلمانوں کو دیکھ کر بہت سے عقل و دانش کے مدعی یوں ہی کہا کرتے ہیں کہ
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو
لیکن اگر ان میں اللہ پر ایمان اور اعتماد پورا ہو تو انھیں اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا۔
Top