Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 50
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُوا١ۙ الْمَلٰٓئِكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ١ۚ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
وَلَوْ : اور اگر تَرٰٓي : تو دیکھے اِذْ : جب يَتَوَفَّى : جان نکالتے ہیں الَّذِيْنَ كَفَرُوا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يَضْرِبُوْنَ : مارتے ہیں وُجُوْهَهُمْ : ان کے چہرے وَاَدْبَارَهُمْ : اور ان کی پیٹھ (جمع) وَذُوْقُوْا : اور چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : بھڑکتا ہوا (دوزخ)
اور اگر تم دیکھے جس وقت جان قبض کرتے ہیں کافروں کی فرشتے مارتے ہیں ان کے منہ پر اور ان کے پیچھے، اور کہتے ہیں چکھو عذاب جلنے کا،
خلاصہ تفسیر
اور اگر آپ (اس وقت کا واقعہ) دیکھیں (تو عجیب واقعہ نظر آئے) جب کہ فرشتے ان (موجودہ) کافروں کی جان قبض کرتے جاتے ہیں (اور) ان کے منہ پر اور ان کی پشتوں پر مارتے جاتے ہیں اور یہ کہتے جاتے ہیں کہ (ابھی کیا ہے آگے چل کر) آگ کی سزا جھیلنا (اور) یہ عذاب ان اعمال (کفریہ) کی وجہ سے ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں اور یہ امر ثابت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والے نہیں (سو اللہ تعالیٰ نے بےجرم سزا نہیں دی پس) ان کی حالت (اس بارے میں کہ کفر پر سزا یاب ہوئے) ایسی ہے جیسی فرعون والوں کی اور ان سے پہلے (کافر) لوگوں کی حالت تھی کہ انہوں نے آیات الہیہ کا انکار کیا سو اللہ تعالیٰ نے ان کے (ان) گناہوں پر ان کو (عذاب میں) پکڑ لیا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی عذاب کو ہٹا سکے اور) یہ بات (کہ بلا جرم ہم سزا نہیں دیتے) اس سبب سے ہے (کہ ہمارا ایک قاعدہ کلیہ مقرر ہے اور بلا جرم سزا نہ دینا اسی قاعدہ کی ایک فرع ہے اور وہ قاعدہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کسی ایسی نعمت کو جو کسی قوم کو عطا فرمائی ہو نہیں بدلتے جب تک کہ وہی لوگ اپنے ذاتی اعمال کو نہیں بدل ڈالتے اور یہ امر ثابت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے جاننے والے ہیں (پس وہ تغیر قولی کو سنتے ہیں تغیر فعلی کو جانتے ہیں سو ان کفار موجودین نے اپنی یہ حالت بدلی کہ ان میں باوجود کفر کے اول ایمان لانے کی استعداد قریب تھی انکار و مخالفت کر کر کے اس کو بعید کر ڈالا پس ہم نے اپنی نعمت امہال کو جو پہلے سے ان کو حاصل تھی مبدل بدار و گیر کردیا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے بطریق مذکور نعمت قرب استعداد کو بدل ڈالا)۔

معارف و مسائل
مذکورہ آیات میں سے پہلی دو آیتوں میں موت کے وقت کافروں کے عذاب اور فرشتوں کی تنبیہات کا ذکر ہے۔ اس میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ اگر آپ ان کافروں کا حال اس وقت دیکھتے جبکہ اللہ کے فرشتے ان کی روح قیض کرنے کے وقت ان کے چہروں اور پشتوں پر مار رہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ آگ میں جلنے کا عذاب چکھو۔ آپ ایک بڑا عبرتناک منظر دیکھتے۔
ائمہ تفسیر میں سے بعض حضرات نے اس کو ان کفار قریش کے متعلق قرار دیا ہے جو میدان بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ پر آئے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی امداد کے لئے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا تھا اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ میدان بدر میں جو قریشی سردار مارے گئے ان کے مارنے میں فرشتوں کا ہاتھ تھا جو ان کے سامنے سے چہروں پر اور پیچھے سے ان کی پشتوں پر مار کر ان کو ہلاک کر رہے تھے اور ساتھ ہی آخرت میں جہنم کے عذاب کی خبر سنا رہے تھے۔
اور جن حضرات نے الفاظ آیت کے عموم کی بنا پر اس کا مضمون عام رکھا ہے ان کے مطابق معنی آیت کے یہ ہیں کہ جب کوئی کافر مرتا ہے فرشتہ موت ان کی روح قبض کرنے کے وقت ان کے چہرہ اور پشت پر مارتا ہے بعض روایات میں ہے کہ آگ کے کوڑے اور لوہے کے گرز ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جن سے وہ مرنے والے کافر کو مارتے ہیں۔ مگر چونکہ اس عذاب کا تعلق اس عالم عناصر سے نہیں بلکہ عالم قبر سے ہے جس کو برزخ کہا جاتا ہے اس لئے یہ عذاب عام طور پر آنکھوں سے نہیں دیکھا جاتا۔
اسی لئے رسول کریم ﷺ سے یہ خطاب کیا گیا اگر آپ دیکھتے تو بڑا عبرتناک منظر دیکھتے اس سے معلوم ہوا کہ موت کے بعد عالم برزخ میں کفار کو عذاب ہوتا ہے مگر اس کا تعلق عالم غیب سے ہے اس لئے عام طور پر دیکھا نہیں جاتا۔ عذاب قبر کا ذکر قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی آیا ہے اور روایات حدیث تو اس معاملہ میں بیشمار ہیں۔
Top