Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
بدتر سب جانداروں میں اللہ کے ہاں وہ ہیں جو منکر ہوئے پھر وہ نہیں ایمان لاتے۔
اس کے بعد کی آیت میں انھیں کافروں کے بارے میں ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اس میں لفظ دواب دابہ کی جمع ہے جس کے لغوی معنی زمین پر چلنے والے کے ہیں اس لئے انسان اور جتنے جانور زمین پر چلتے ہیں سب کو یہ لفظ شامل ہے مگر عام محاورات میں یہ لفظ خاص چوپائے جانوروں کے لئے بولا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا حال بےشعوری میں جانوروں سے بھی زیادہ گرا ہوا تھا اس لئے اس لفظ سے تعبیر کیا گیا۔ معنی آیت کے واضح ہیں کہ تمام جانوروں اور انسانوں میں سب سے بدترین جانور یہ لوگ ہیں۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ۔ یعنی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی خداداد استعداد و قابلیت کو ضائع کردیا، چوپائے جانوروں کی طرح کھانے پینے سونے جاگنے کو مقصد زندگی بنالیا، اس لئے ان کی رسائی ایمان تک نہیں ہوسکتی۔
حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ یہ آیت یہود کے چھ آدمیوں کے بارے میں آئی ہے جن کے متعلق حق تعالیٰ نے پیشگی خبر دے دی کہ یہ لوگ آخر تک ایمان نہیں لائیں گے۔
نیز اس لفظ میں ان لوگوں کو عذاب سے مستثنی کرنا منظور ہے جو اگرچہ اس وقت کفار کے ساتھ لگے ہوئے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جد و جہد میں مشغول ہیں مگر آئندہ کسی وقت اسلام قبول کرکے اپنی سابق غلط کاریوں سے توبہ کرلیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ان میں سے بہت بڑی جماعت مسلمان ہو کر نہ صرف خود صالح و متقی بن گئی بلکہ دنیا کے لئے مصلح اور تقوی کی داعی بن کر کھڑی ہوئی۔
Top