Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 59
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْا١ؕ اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ
وَلَا يَحْسَبَنَّ : اور ہرگز خیال نہ کریں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سَبَقُوْا : وہ بھاگ نکلے اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَا يُعْجِزُوْنَ : وہ عاجز نہ کرسکیں گے
اور یہ نہ سمجھیں کافر لوگ کہ وہ بھاگ نکلے، وہ ہرگز تھکا نہ سکیں گے ہم کو۔
خلاصہ تفسیر
اور کافر لوگ اپنے کو یہ خیال نہ کریں کہ وہ بچ گئے یقینًا وہ لوگ (اللہ تعالیٰ کو) عاجز نہیں کرسکتے کہ اس کے ہاتھ نہ آئیں یا تو دنیا ہی میں مبتلائے عقوبت کردے گا ورنہ آخرت میں تو یقینی ہے) اور ان کافروں سے (مقابلہ کرنے) کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو کہ اس (سامان) کے ذریعہ سے تم (اپنا) رعب جمائے رکھو ان پر جو کہ (کفر کی وجہ سے) اللہ کے دشمن ہیں اور (تمہاری فکر میں رہنے کی وجہ سے) تمہارے دشمن ہیں (جن سے شب و روز تم کو سابقہ پڑتا رہتا ہے) اور ان کے علاوہ دوسرے (کافروں) پر بھی (رعب جمائے رکھو) جن کو تم (بالیقین) نہیں جانتے (بلکہ) ان کو اللہ ہی جانتا ہے (جیسے کفار فارس اور روم وغیرہم جن سے اس وقت سابقہ نہیں پڑا مگر صحابہ کا ساز و سامان و فن سپہگری اپنے وقت میں ان کے مقابلہ میں بھی کام آیا اور ان پر بھی رعب جما، بعض مقابل ہو کر مغلوب ہوئے بعض نے جزیہ قبول کیا کہ یہ بھی اثر رعب کا ہے) اور اللہ کی راہ میں (جس میں جہاد بھی آگیا) جو کچھ بھی خرچ کرو گے (جس میں وہ خرچ بھی آگیا جو ساز ویراق درست کرنے میں کیا جائے) وہ (یعنی اس کا ثواب) تم کو (آخرت میں) پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارے لئے (اس میں) کچھ کمی نہ ہوگی اور اگر وہ (کفار) صلح کی طرف جھکیں تو آپ (کو) بھی (اجازت ہے کہ اگر اس میں مصلحت دیکھیں تو) اس طرف جھک جایئے اور (اگر باوجود مصلحت کے یہ احتمال ہو کہ یہ ان کی چال نہ ہو تو) تو اللہ پر بھروسہ رکھئے (ایسے احتمالوں سے اندیشہ نہ کیجئے) بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے (ان کے اقوال اور احوال کو سنتا جانتا ہے ان کا خود انتظام کردے گا) اور اگر (واقع میں وہ احتمال صحیح ہو اور) وہ لوگ (سچ مچ صلح سے) آپ کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تعالیٰ آپ (کی مدد اور حفاظت کرنے) کے لئے کافی ہیں (جیسا کہ اس کے قبل بھی آپ کی کفایت فرماتے تھے چنانچہ) وہ وہی ہے جس نے آپ کو اپنی (غیبی) امداد (یعنی ملائکہ) سے اور (ظاہری امداد یعنی) مسلمانوں سے قوت دی۔

معارف و مسائل
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں ان کفار کا ذکر ہے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں تھے اس لئے بچ گئے یا شریک ہونے کے بعد بھاگ نکلے اس طرح اپنی جان بچالی۔ ان لوگوں کے متعلق اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ یوں نہ سمجھیں کہ ہم بچ نکلے۔ کیونکہ غزوہ بدر کفار کے لئے ایک عذاب الہی تھا اور اس کی پکڑ سے بچنا کسی کے بس میں نہیں۔ اس لئے فرمایا (آیت) اِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُوْنَ ، یعنی یہ لوگ اپنی چالاکی سے اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے وہ جب پکڑنا چاہیں گے یہ ایک قدم نہ سرک سکیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا ہی میں پکڑ لئے جائیں ورنہ آخرت میں تو ان کی گرفتاری ظاہر ہے۔
اس آیت نے اس طرف اشارہ کردیا کہ کوئی مجرم گناہگار اگر کسی مصیبت اور تکلیف سے نجات پا جائے اور پھر بھی توبہ نہ کرے بلکہ اپنے جرم پر ڈٹا رہے تو یہ اس کی علامت نہ سمجھو کہ وہ کامیاب ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے چھوٹ گیا بلکہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہے اور یہ ڈھیل اس کے عذاب اور مصبیت کو اور بڑھا رہی ہے گو اس کو محسوس نہ ہو۔
Top