Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 63
وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ١ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَاَلَّفَ : اور الفت ڈال دی بَيْنَ : درمیان۔ میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل لَوْ : اگر اَنْفَقْتَ : تم خرچ کرتے مَا : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب کچھ مَّآ : نہ اَلَّفْتَ : الفت ڈال سکتے بَيْنَ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ اَلَّفَ : الفت ڈالدی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّهٗ : بیشک وہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور الفت ڈالی ان کے دلوں میں، اگر تو خرچ کردیتا جو کچھ زمین میں ہے سارا نہ الفت ڈال سکتا ان کے دلوں میں لیکن اللہ نے الفت ڈالی ان میں، بیشک وہ زور آور ہے حکمت والا،
خلاصہ تفسیر
اور (مسلمانوں کو ذریعہ امداد بنانے کے لئے) ان کے قلوب میں اتفاق پیدا کردیا (چناچہ ظاہر ہے کہ اگر باہم اتفاق نہ ہو تو کوئی کام خصوص دین کی نصرت مل کر نہیں کرسکتے اور ان میں بوجہ حب ریاست اور غلبہ بغض و عداوت اتفاق ایسا دشوار تھا کہ) اگر آپ (باوجودیکہ عقل و تدبیر بھی کامل رکھتے ہیں اور سامان بھی اس کے لئے آپ کے پاس کافی ہوتا یہاں تک کہ) دنیا بھر کا مال (اس کام کے لئے) خرچ کرتے تب بھی ان کے قلوب میں اتفاق پیدا نہ کرسکتے لیکن (یہ) اللہ ہی (کا کام تھا کہ اس) نے ان میں باہم اتفاق پیدا کردیا بیشک وہ زبردست ہیں (کہ جو چاہیں اپنی قدرت سے کردیں اور) حکمت والے ہیں (کہ جس طریق سے مناسب جانیں اس کام کو کردیں اور جب اللہ تعالیٰ کا اپنی غیبی امداد اور مومین سے آپ کی نصرت فرمانا معلوم ہوگیا تو) اے نبی (اس سے ثابت ہوگیا کہ) آپ کے لئے (حقیقت میں) اللہ کافی ہے اور جن مومین نے آپ کا اتباع کیا ہے (ظاہرا) وہ کافی ہیں اے پیغمبر ﷺ آپ مومین کو جہاد کی ترغیب دیجئے (اور اس کے متعلق یہ قانون سنا دیجئے کہ) اگر تم میں کے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو) اپنے سے دس گونہ عدد پر یعنی) دو سو پر غالب آجائیں گے اور (اسی طرح) اگر تم میں کے سو آدمی ہوں گے تو ہزار کفار پر غالب آجائیں گے اس وجہ سے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو (دین کو) کچھ نہیں سمجھتے (اور اس وجہ سے کفر پر مصر ہیں اور اس سبب سے ان کو غیبی امداد نہیں پہنچتی اس سبب سے وہ مغلوب ہوجاتے ہیں پس تم پر واجب ہے کہ اپنے سے دس گونہ کے مقابلہ سے بھی پسپا نہ ہو۔ اول یہ حکم نازل ہوا تھا جب صحابہ پر شاق ہوا تو عرض کیا ایک مدت کے بعد یہ دوسری آیت جس سے وہ پہلا حکم منسوخ ہوگیا نازل ہوئی یعنی) اب اللہ تعالیٰ نے تم پر تخفیف کردی اور معلوم کرلیا کہ تم میں ہمت کی کمی ہے سو (یہ حکم دیا جاتا ہے کہ) اگر تم میں کے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو (اپنے سے دو گونہ عدد پر یعنی) دو سو پر غالب آجائیں گے اور (اسی طرح) اگر تم میں کے ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آجائیں گے اور (ہم نے جو صابر کی قید لگائی تو اس لئے کہ) اللہ تعالیٰ صابرین (یعنی جو دل اور قدم سے ثابت رہیں ان) کے ساتھ ہیں (یعنی ان کی مدد کرتے ہیں)

معارف و مسائل
سورة انفال کی مذکورہ چار آیتوں میں سے پہلی آیت میں مسلمانوں کی فتح و کامیابی کے اصلی سبب اور اس کے حصول کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کو یہ خطاب کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے اپنی خاص مدد سے اور مسلمانوں کی جماعت سے آپ کی تائید اور نصرت فرمائی ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی جماعت سے کسی کی امداد و نصرت ظاہر ہے کہ صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ یہ جماعت باہم متفق اور متحد ہو۔ اور بقدر اتفاق و اتحاد ہی اس کی قوت اور وزن ہوتا ہے۔ باہمی اتحاد و یگانگت کے رشتے قوی ہیں تو پوری جماعت قوی ہے اور اگر یہ رشتے ڈھیلے ہیں تو پوری جماعت ڈھیلی اور کمزور ہے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے اس خاص انعام کا ذکر فرمایا جو آنحضرت ﷺ کی تائید و نصرت کے لئے عام مسلمانوں پر ہوا کہ ان کے دلوں میں مکمل وحدت و الفت پیدا کردی گئی۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ کی ہجرت مدینہ سے پہلے ان کے دو قبلیوں۔ اوس و خزرج کے آپس میں شدید جنگیں لڑی جاچکی تھیں اور جھگڑے چلتے رہتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کی برکت سے اللہ تعالے نے ان جانی دشمنوں کو باہم شیر و شکر بھائی بھائی بنادیا۔ مدینہ میں قائم ہونے والی نئی ریاست کے قیام وبقاء اور دشمنوں پر غالب آنے کا حقیقی اور معنوی سبب تو اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد تھی اور ظاہری سبب مسلمانوں کی آپس میں مکمل الفت و محبت اور اتفاق و اتحاد تھا۔
اس کے ساتھ اس آیت میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ مختلف لوگوں کے دلوں کو جوڑ کر ان میں الفت و محبت پیدا کرنا کسی انسان کے بس کا کام نہیں صرف اس ذات کا کام ہے جس نے سب کو پیدا کیا ہے۔ اگر کوئی انسان ساری دنیا کی دولت بھی اس کام کے لئے خرچ کر ڈالے کہ باہم منافرت رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں الفت پیدا کردے تو وہ کبھی اس پر قابو نہیں پاسکتا۔
مسلمانوں کا آپس میں حقیقی اور پائیدار اتفاق اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری پر موقوف ہے
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگوں کے قلوب میں باہمی الفت و محبت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ اس کے انعام کو حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ حصول انعام کے لئے اس کی اطاعت و رضا جوئی شرط ہے۔
جماعتوں اور افراد کے درمیان وحدت و اتفاق ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود اور مفید ہونے سے کسی مذہب و ملت اور کسی فکر و نظر والے کو اختلاف نہیں ہوسکتا اور اسی لئے ہر شخص جو لوگوں کی اصلاح کی فکر کرتا ہے وہ ان کو آپس میں متفق کرنے پر زور دیتا ہے لیکن عام دنیا اس حقیقت سے بیخبر ہے کہ دلوں کا پورا اور پائیدار اتفاق ظاہری تدبیروں سے حاصل نہیں ہوتا یہ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت و رضاجوئی سے حاصل ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کی طرف کئی آیتوں میں اشارے فرمائے ہیں۔ ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۔
اس میں اختلاف و تفرقہ سے بچنے کی یہ تدبیر بتلائی گئی ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی یعنی قرآن یا شریعت اسلام کو مضبوط تھام لیں تو سب آپس میں خود بخود متفق ہوجائیں گے اور باہمی تفرقے ختم ہوجائیں گے۔ رائے کا اختلاف دوسری چیز ہے اور وہ جب تک اپنی حد کے اندر رہے تفرقہ اور جھگڑے کا سبب کبھی نہیں بنتا۔ جھگڑا فساد جبھی ہوتا ہے جب کہ حدود شریعت سے تجاوز کیا جائے۔ آج اتفاق اتفاق تو سب پکارتے ہیں مگر اتفاق کے معنی ہر شخص کے نزدیک یہ ہوتے ہیں کہ لوگ میری بات مان لیں تو اتفاق ہوجائے۔ اور دوسرے بھی اتفاق کے لئے اسی فکر میں ہوتے ہیں کہ وہ ہماری بات مان لیں تو اتفاق ہوجائے۔ حالانکہ جب رایوں کا اختلاف اہل عقل و دیانت میں ناگزیر اور ضروری ہے تو یہ ظاہر ہے کہ اگر ہر شخص دوسرے کے ساتھ متفق ہونے کو اس پر موقوف رکھے کہ دوسرا اس کی بات مان لے تو قیامت تک آپس میں اتفاق نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اتفاق کی صحیح اور فطری صورت وہ ہی ہے جو قرآن نے بتلائی کہ دونوں مل کر کسی تیسرے کی بات کو تسلیم کرلیں اور تیسرا وہی ہونا چاہئے جس کے فیصلے میں غلطی کا امکان نہ ہو۔ وہ ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے اس لئے آیت مذکورہ میں اس کی ہدایت فرمائی گئی کہ سب مل کر اللہ کی کتاب کو مضبوط تھام لو تو آپس کے جھگڑے ختم ہو کر اتفاق کامل پیدا ہوجائے گا۔
ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔ یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ ان کے آپس میں محبت و مودت پیدا فرما دیتے ہیں۔ اس آیت نے واضح کردیا کہ دلوں میں حقیقی محبت و مودت پیدا ہونے کا اصلی طریق ایمان اور عمل صالح کی پابندی ہے اس کے بغیر اگر کہیں کوئی اتفاق و اتحاد مصنوعی طور پر قائم کر بھی لیا جائے تو وہ محض بےبنیاد اور کمزور ہوگا ذرا سی ٹھیس میں ختم ہوجائے گا۔ جس کا مشاہدہ تمام اقوام دنیا کے حالات و تجربات سے ہوتا رہتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول کریم ﷺ پر حق تعالیٰ کے اس انعام کی وضاحت کی گئی ہے جو مدینہ کے تمام قبائل کے دلوں میں الفت پیدا کرکے رسول کریم ﷺ کی امداد و نصرت کے لئے ان کو ایک آہنی دیوار کی طرح بنا کر کیا گیا ہے۔
Top