Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 73
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِیْرٌؕ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بَعْضُهُمْ : ان کے بعض اَوْلِيَآءُ : رفیق بَعْضٍ : بعض (دوسرے) اِلَّا تَفْعَلُوْهُ : اگر تم ایسا نہ کروگے تَكُنْ : ہوگا فِتْنَةٌ : فتنہ فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَفَسَادٌ : اور فساد كَبِيْرٌ : بڑا
اور جو لوگ کافر ہیں وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم یوں نہ کرو گے تو فتنہ پھیلے گا ملک میں اور بڑی خرابی ہوگی۔
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۔ یعنی کافر لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ لفظ ولی جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ایک عام مفہوم رکھتا ہے جس میں وراثت بھی داخل ہے اور معاملات کی ولایت و سرپرستی بھی۔ اس لئے اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث سمجھے جائیں گے اور تقسیم وراثت کا جو قانون ان کے اپنے مذہب میں رائج ہے ان کی وراثت کے معاملہ میں اسی قانون کو نافذ کیا جائے گا۔ نیز ان کے یتیم بچوں کا ولی لڑکیوں کے نکاح کا ولی بھی انھیں میں سے ہوگا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عائلی مسائل میں غیر مسلموں کا اپنا مذہبی قانون اسلامی حکومت میں محفوظ رکھا جائے گا۔
آخر آیت میں ارشاد ہے (آیت) اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْاَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيْرٌ۔ یعنی اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پوری زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔
اس جملہ کا تعلق ان تمام احکام کے ساتھ ہے جو اس سے پہلے ذکر کئے گئے ہیں مثلا یہ کہ مہاجرین و انصار کو آپس میں ایک دوسرے کے اولیاء ہونا چاہئے جس میں باہمی امداد و اعانت بھی داخل ہے اور وراثت بھی۔ دوسرے یہ کہ اس وقت کے مہاجر اور غیر مہاجر مسلمانوں کے آپس میں وراثت کا تعلق نہ رہنا چاہئے۔ مگر امداد و نصرت کا تعلق اپنی شرائط کے ساتھ باقی رہنا چاہئے۔ تیسرے یہ کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں ان کے قانون ولایت اور وراثت میں کوئی دخل اندازی مسلمانوں کو نہیں چاہئے۔
اگر ان احکام پر عمل نہ کیا گیا تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ یہ تنبیہ غالبا اس لئے کی گئی کہ جو احکام اس جگہ بیان ہوئے ہیں وہ عدل و انصاف اور امن عامہ کے لئے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان آیات نے یہ واضح کردیا کہ باہمی امداد و اعانت اور وراثت کا تعلق جیسے رشتہ داری پر مبنی ہے ایسے ہی اس میں مذہبی اور دینی رشتہ بھی قابل لحاظ ہے بلکہ نسبی رشتہ پر دینی رشتہ کو ترجیح حاصل ہے اسی وجہ سے کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ آپس میں نسبی رشتہ سے باپ اور بیٹے یا بھائی بھائی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی مذہبی تعصب اور عصبیت جاہلیت کی روک تھام کرنے کے لئے یہ بھی ہدایت دے دی گئی ہے کہ مذہبی رشتہ اگرچہ اتنا قوی اور مضبوط ہے مگر معاہدہ کی پابندی اس سے بھی زیادہ مقدم اور قابل ترجیح ہے۔ مذہبی تعصب کے جوش میں معاہدہ کی خلاف ورزی جائز نہیں۔ اسی طرح یہ بھی ہدایت دے دی گئی کہ کفار آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور وارث ہیں ان کی شخصی ولایت و وراثت میں مداخلت نہ کی جائے۔ دیکھنے کو تو یہ چند فرعی اور جزئی احکام ہیں مگر در حقیقت امن عالم کے لئے عدل و انصاف کے بہترین اور جامع بنیادی اصول ہیں۔ اسی لئے اس جگہ ان احکام کو بیان فرمانے کے بعد ایسے الفاظ سے تنبیہ فرمائی گئی جو عام طور پر دوسرے احکام کے لئے نہیں کی گئی کہ اگر تم نے ان احکام پر عمل نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور فساد پھیل جائے گا۔ ان الفاظ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ احکام فتنہ و فساد کو روکنے میں خاص دخل اور اثر رکھتے ہیں۔
Top