Maarif-ul-Quran - Al-Ghaashiya : 2
وُجُوْهٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌۙ
وُجُوْهٌ : کتنے منہ يَّوْمَئِذٍ : اس دن خَاشِعَةٌ : ذلیل و عاجز
کتنے منہ اس دن ذلیل ہونے والے ہیں
معارف و مسائل
وجوہ یومذ خاشعة عاملة ناصبة قیامت میں دو فریق مومن و کافر الگ الگ ہوجائینگے انکے چہرے الگ الگ پہچانے جائیں گے۔ ان کے چہرے الگ الگ پہچانے جائیں گے۔ اس آیت میں کافروں کے چہروں کا ایک حال یہ بتلایا ہے کہ وہ خاشعہ ہوں گے، خشوع کے معنے جھکنے اور ذلیل ہونے کے ہیں۔ نماز میں خشوع کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے مجھکے اور ذلت و پستی کے آثار اپن وجود پر طاری کرے۔ جن لوگوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و تذلل اختیار نہیں کیا اس کی سزا ان کو قیامت میں یہ ملے گی کہ وہاں ان کے چہروں پر ذلت اور رسوائی کے آثار نمایاں ہوں گے۔
دوسرا اور تیسرا حال ان کے چہروں کا یہ بیان فرمایا کہ عاملہ، ناصبہ ہوں گے، عاملہ کے لفظی سمعنے عمل اور محنت کرنے والے کے ہیں۔ محاورات میں عامل اور عاملہ اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو مسلسل عمل اور محنت سے تھکا ماندہ چور ہوگیا ہو اور ناصبہ نصب سے مشتق ہے اس کے معنے بھی تھکنے اور تعب و مشقت میں پڑجانے کے ہیں۔ کفار و مجرمین کے یہ دو حال کہ عمل اور محنت سے تھکے درماندہ ہوں گے ظاہر یہ ہے کہ یہ حال ان کی دنیا کا ہے کیونکہ آخرت میں تو کوئی عمل اور محنت نہیں، اسی لئے قرطبی وغیرہ مفسرین نے اس کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ پہلا حال یعنی چہروں پر ذلت و رسوائی یہ تو آخرت میں ہوگا اور عاملہ، ناصبہ کے دونوں حال ان لوگوں کے دنیا ہی میں ہوتے ہیں کیونکہ بہت سے کفار فجار مشرکانہ عبادت اور باطل طریقوں میں ماجہدہ و ریاضت دنیا میں کرتے رہتے ہیں۔ ہندوؤں کے جوگی، نصاریٰ کے راہب بہت سے ایسے بھی ہیں جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کی رضا جوئی کے لئے دنیا میں عبادت و ریاضت کرتے ہیں اور اس میں محنت شاقہ برداشت کرتے ہیں مگر وہ عبادت مشرکانہ اور باطل طریقہ پر ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی اجر وثواب نہیں رکھتی تو ان لوگوں کے چہرے دنیا میں بھی عاملہ ناصبہ رہے اور آخرت میں ان پر ذلت و رسوائی کی سیاہی چھائی ہوگی۔
حضرت حسن بصری ؒ نے روایت کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم جب ملک شام میں تشریف لے گئے تو ایک نصرانی راہب آپ کے پاس آیا جو بوڑھا تھا اور اپنے مذہب کی عبادت و ریاضت اور مجاہدہ و محنت میں لگا ہوا تھا۔ محنت سے اس کا چہرہ بگڑا ہوا، بدن خشک لباس خستہ و بدہیبت تھا، جب فاروق اعظم نے اس کو دیکھ اتو آپ رو پڑے لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو فاروق اعظم نے فرمایا کہ مجھے بوڑھے کے حال پر رحم آیا کہ اس بیچارے نے ایک مقصد کے لئے بڑی محنت و جانفشانی کی مگر وہ اس مقصد یعنی رضائے الٰہی کو نہیں پاسکا اور اس ضر حضرت عمر نے یہ آیت تلاوت فرمائی وجوہ یومئذ خاشعة، عاملہة ناصبتة (قرطبی)
Top