Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 119
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اتَّقُوا اللّٰهَ : ڈرو اللہ سے وَكُوْنُوْا : اور ہوجاؤ مَعَ : ساتھ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ
اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے اور رہو ساتھ سچوں کے۔
(آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ، سابقہ آیات میں جو واقعہ تخلف عن الجہاد کا بعض مخلصین سے پیش آیا پھر ان کی توبہ قبول ہوئی یہ سب نتیجہ ان کے تقوٰی اور خوف خدا کا تھا، اس لئے اس آیت میں عام مسلمانوں کو تقوٰی کیلئے ہدایت فرمائی گئی، اور كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا کہ صفت تقوٰی حاصل ہونے کا طریقہ صالحین و صادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے اس میں شاید یہ اشارہ بھی ہو کہ جن حضرات سے یہ لغزش ہوئی اس میں منافقین کی صحبت مجالست اور ان کے مشورہ کو بھی دخل تھا، اللہ کے نافرمانوں کی صحبت سے بچنا چاہئے اور صادقین کی صحبت اختیار کرنا چاہئے، اس جگہ قرآن حکیم نے علماء صلحاء کے بجائے صادقین کا لفظ اختیار فرما کر عالم و صالح کی پہچان بھی بتلا دی ہے کہ صالح صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، نیت و ارادے کا بھی سچا ہو قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔
Top