Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 23
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَتَّخِذُوْٓا : تم نہ بناؤ اٰبَآءَكُمْ : اپنے باپ دادا وَاِخْوَانَكُمْ : اور اپنے بھائی اَوْلِيَآءَ : رفیق اِنِ : اگر اسْتَحَبُّوا : وہ پسند کریں الْكُفْرَ : کفر عَلَي الْاِيْمَانِ : ایمان پر (ایمان کے خلاف) وَ : اور مَنْ : جو يَّتَوَلَّهُمْ : دوستی کریگا ان سے مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ هُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے ایمان والو مت پکڑو اپنے باپوں کو اور بھائیوں کو رفیق اگر وہ عزیز رکھیں کفر کو ایمان سے، اور جو تم میں ان کی رفاقت کرے سو وہی لوگ ہیں گنہگار۔
آیات مذکورہ میں ہجرت اور جہاد کے فضائل کا بیان آیا ہے، جن میں وطن اور اعزاء و اقارب اور احباب و اصحاب اور اموال و املاک سب کو چھوڑنا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کی طبیعت پر یہ کام سب سے زیادہ شاق اور دشوار ہیں، اس لئے اگلی آیت میں ان چیزوں کے ساتھ حد سے زیادہ تعلق اور محبت کی مذمت فرما کر مسلمانوں کے ذہنوں کو ہجرت و جہاد کے لئے آمادہ کیا گیا ہے، ارشاد فرمایا (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ،“ یعنی اے ایمان والو تم اپنے باپ دادا اور بھائیوں کو رفیق مت بناؤ اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے عزیز رکھیں اور تم میں سے جو شخص ان کے ساتھ باوجود ان کے کفر کے رفاقت رکھے گا سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں“۔
ماں باپ بھائی بہن اور تمام رشتہ داروں سے تعلق کو مضبوط رکھنے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہدایات سے سارا قرآن بھرا ہوا ہے، مگر اس آیت میں یہ بتلادیا کہ ہر تعلق کی ایک حد ہے، ان میں سے ہر تعلق خواہ ماں باپ اور اولاد کا ہو، یا حقیقی بھائی بہن کا، اللہ اور اس کے رسول کے تعلق کے مقابلہ میں نظر انداز کرنے کے قابل ہے، جس موقع پر یہ دونوں رشتے ٹکرا جائیں، تو پھر رشتہ وتعلق اللہ و رسول کا ہی قائم رکھنا ہے، اس کے مقابلہ میں سارے تعلقات سے قطع نظر کرنا ہے۔
آیات مذکورہ کے متعلق چند فوائد اور مسائل
مذکورہ پانچ آیتوں سے چند فوائد اور مسائل حاصل ہوئے
اول یہ کہ ایمان روح عمل ہے، اس کے بغیر کیسا ہی اچھا عمل ہو وہ صرف صورت بےجان اور ناقابل قبول ہے، نجات آخرت میں اس کی کوئی قیمت نہیں، ہاں اللہ تعالیٰ کے یہاں بےانصافی نہیں کافروں کے ایسے بےروح اعمال حسنہ بھی بالکل ضائع نہیں کئے جاتے، ان کا بدلہ ان کو دنیا ہی میں آرام و عیش اور دولت ور احت دے کر بیباق کردیا جاتا ہے، جس کا بیان قرآن کریم کی متعدد آیات میں آیا ہے۔
دوسرا فائدہ ان آیات سے یہ حاصل ہوا کہ معصیت و نافرمانی سے انسان کی عقل بھی خراب ہوجاتی ہے اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ انیسویں آیت کے آخر میں (آیت) وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا ہے جیسا کہ اس کے بالمقابل ایک آیت میں (آیت) اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا فرما کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ اطاعت وتقوی سے انسان کی عقل کو جلا ہوتی ہے، سلامت فکر نصیب ہوتی ہے، وہ اچھے برے کی تمیز میں غلطی نہیں کرتا۔
تیسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ نیک اعمال میں بھی باہمی تفاضل ہے اور اسی کی مناسبت سے عمل کرنے والوں کے درجات میں تفاضل قائم ہوتا ہے، سب عمل کرنے والے ایک درجہ میں نہیں رکھے جاسکتے اور مدار کثرت عمل پر نہیں بلکہ حسن عمل پر ہے، سورة ملک میں آیا ہے(آیت) لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری آزمائش کریں گے کہ کون زیادہ اچھا عمل کرنیوالا ہے۔
چوتھا فائدہ یہ حاصل ہوا کہ راحت و نعمت کے دائمی رہنے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نعمتیں کسی وقت ختم نہ ہوجائیں، دوسرے یہ کہ کسی وقت ان لوگوں کو ان نعمتوں سے جدا نہ کیا جائے، اس لئے اللہ کے مقبول بندوں کے لئے دونوں چیزوں کی ضمانت دے دیگئی نَعِيْمٌ مُّقِيْمٌ فرما کر نعمتوں کا دائمی ہونا بیان فرمایا اور خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا فرما کر ان لوگوں کو کبھی ان نعمتوں سے الگ نہ کرنے کا اطمینان دلا دیا۔
اصل رشتہ اسلام و ایمان کا رشتہ ہے نسبی و وطنی تعلقات سب اس پر قربان کرتے ہیں
پانچواں مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ رشتہ داری اور دوستی کے سارے تعلقات پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا تعلق مقدم ہے، جو تعلق اس سے ٹکرائے وہ توڑنے کے قابل ہے، صحابہ کرام کا وہ عمل جس کی وجہ سے وہ ساری امت سے افضل و اعلی قرار پائے یہی چیز تھی کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ پر اپنی جان و مال اور ہر رشتہ وتعلق کو قربان کرکے زبان حال سے کہا
تو نخل خوش ثمر کیستی کہ سرو و سمن ہمہ زخویش بریدند و با تو پیوستند
بلال حبشی، صہیب رومی، سلمان فارسی اور قریش مکہ انصار مدینہ تو سب آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور بدر و احد کے میدانوں میں باپ بیٹے، بھائی بھائی کی تلواریں آپس میں ٹکرا کر اس کی شہادت دی کہ ان کا مسلک یہ تھا کہ
ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد فدائے یک تن بیگانہ کاشنا باشد
اللھم ارزقنا اتباعھم واجعل حبک احب الاشیاء الینا و خشیتک اخوف الاشیاء عندنا۔
Top