Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 27
ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر يَتُوْبُ : توبہ قبول کرے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جس کی چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور یہی سزا ہے منکروں کی پھر توبہ نصیب کرے گا اللہ اس کے بعد جسکو چاہے، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(آیت) ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، یعنی پھر خدا تعالیٰ جس کو چاہیں توبہ نصیب کردیں، اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والے بڑی رحمت کرنیوالے ہیں“۔
اس میں اشارہ ہے کہ اس جہاد میں جن لوگوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب اور مفتوح ہونے کی سزا مل چکی ہے، اور ابھی تک وہ اپنے کفر پر قائم ہیں، ان میں سے بھی کچھ لوگوں کو توفیق ایمان نصیب ہوگی، چناچہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کی تفصیل یہ ہے
حنین کی فتح اور ہوازن و ثقیف کے سرداروں کا مسلمان ہو کر حاضر ہونا قیدیوں کی واپسی
حنین میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے کچھ سردار مارے گئے، کچھ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ جو ان کے اہل و عیال اور اموال تھے وہ مسلمانوں کے قیدی اور مال غینمت بن کر مسلمانوں کے ہاتھ آئے جس میں چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی، جس کے تقریباً چار من ہوتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو سفیان بن حرب کو اموال غنیمت کا نگران مقرر فرمایا۔
پھر شکست خوردہ ہوازن اور ثقیف نے مختلف مقامات پر مسلمانوں کے خلاف اجتماع کیا مگر ہر مقام پر ان کو شکست ہوتی گئی، وہ سخت مرعوب ہو کر طائف کے نہایت مستحکم قلعہ میں قلعہ بند ہوگئے، رسول کریم ﷺ نے پندرہ بیس روز اس قلعہ کا محاصرہ کیا، یہ قلعہ بند دشمن اندر ہی سے تیر برساتے رہے، سامنے آنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ان لوگوں کے لئے بد دعا فرمائیے، مگر آپ نے ان کے لئے ہدایت کی دعا فرمائی اور با لآخر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرما کر واپسی کا قصد فرمایا، اور مقام جعرانہ پر پہنچ کر ارادہ فرمایا کہ پہلے مکہ معظمہ جا کر عمرہ ادا کریں پھر مدینہ طیبہ کو واپسی ہو، مکہ والوں کی بڑی تعداد جو تماشائی بن کر مسلمانوں کی فتح و شکست کا امتحان کرنے آئی تھی، اس جگہ پہنچ کر ان میں سے بہت لوگوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔
اسی مقام پر پہنچ کر مال غنیمت کی تقسیم کا انتظام کیا گیا تھا، ابھی اموال غنیمت تقسیم ہو ہی رہے تھے کہ دفعۃً ہوازن کے چودہ سرداروں کا ایک وفد زہیر بن صرد کی قیادت میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جن میں آنحضرت ﷺ کے رضاعی چچا ابو یرقان بھی تھے، انہوں نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں، اور یہ درخواست کی کہ ہمارے اہل و عیال اور اموال ہمیں واپس دیدئیے جائیں، اس درخواست میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ہم بلسلہ رضاعت آپ کے خویش و عزیز ہیں، اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں، آپ ہم پر احسان فرمائیں، رئیس وفد ایک شاعر آدمی تھا، اس نے کہا کہ یا رسول اللہ اگر ہم بادشاہ روم یا شاہ عراق سے اپنی ایسی مصیبت کے پیش نظر کوئی درخواست کرتے تو ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ بھی ہماری درخواست کو رد نہ کرتے اور آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اخلاق فاضلہ میں سب سے زیادہ ممتاز فرمایا ہے آپ سے ہم بڑی امید لے کر آئے ہیں۔
رحمہ للعالمین ﷺ کے لئے یہ موقع دوہری مشکل کا تھا کہ ایک طرف ان لوگوں پر رحم و کرم کا تقاضا یہ کہ ان کے سب قیدی اور اموال ان کو واپس کردیئے جائیں، دوسری طرف یہ کہ اموال غنیمت میں تمام مجاہدین کا حق ہوتا ہے، ان سب کو ان کے حق سے محروم کردینا ازروئے انصاف درست نہیں، اس لئے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ نے ان کے جواب میں فرمایا
میرے ساتھ کس قدر مسلمانوں کا لشکر ہے جو ان اموال کے حق دار ہیں، میں سچی اور صاف بات کو پسند کرتا ہوں، اس لئے آپ لوگوں کو اختیار دیتا ہوں کہ یا تو اپنے قیدی واپس لے لو یا اموال غنیمت ان دونوں میں جس کو تم انتخاب کرو وہ تمہیں دیدئیے جائیں گے، سب نے قیدیوں کی واپسی کو اختیار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ کو جمع فرما کر ایک خطبہ دیا، جس میں حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ
یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آگئے ہیں، میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیے جائیں تم میں سے جو لوگ خوش دلی کے ساتھ اپنا حصہ واپس دینے کے لئے تیار ہوں وہ احسان کریں اور جو اس کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم ان کو آئندہ اموال فئے میں سے اس کا بدلہ دیدیں گے۔
حقوق کے معاملہ میں رائے عامہ معلوم کرنے کے لئے عوامی جلسوں کی آوازیں کافی نہیں، ہر ایک سے علیحدہ رائے معلوم کرنی چاہئے
مختلف اطراف سے یہ آواز اٹھی کہ ہم خوش دلی کے ساتھ سب قیدی واپس کرنے کے لئے تیار ہیں، مگر عدل و انصاف اور حقوق کے معاملہ میں احتیاط کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی مختلف آوازوں کو کافی نہ سمجھا، اور فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ کون لوگ اپنا حق چھوڑنے کے لئے خوش دلی سے تیار ہوئے اور کون ایسے ہیں جو شرما شرمی خاموش رہے، معاملہ لوگوں کے حقوق کا ہے اس لئے ایسا کیا جائے کہ ہر جماعت اور خاندان کے سردار اپنی اپنی جماعت کے لوگوں سے الگ الگ صحیح بات معلوم کرکے مجھے بتائیں۔
اس کے مطابق سرداروں نے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ اجا زت حاصل کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو بتلایا کہ سب لوگ خوش دلی سے اپنا حق چھوڑنے کے لئے تیار ہیں، تب رسول اللہ ﷺ نے یہ سب قیدی ان کو واپس کردیئے۔
یہی وہ لوگ تھے جن کے تائب ہونے کی طرف مذکورہ تیسری آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے (آیت) ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ، غزوہ حنین میں پیش آنے والے واقعات کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس کا کچھ حصہ تو خود قرآن کریم میں مذکور ہے اور باقی مستند روایات حدیث سے لیا گیا ہے (مظہری و ابن کثیر)

احکام و مسائل
ان واقعات کے ضمن میں بہت سے احکام و ہدایات اور ضمنی فوائد آئے ہیں، وہی ان واقعات کے بیان کرنے کا اصل مقصد ہیں۔
آیات مذکورہ میں سب سے پہلی ہدایت تو یہ دی گئی کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی اپنی جمعیت اور طاقت پر غرہ نہ ہونا چاہئے، جس طرح کمزوری اور بےسامانی کے وقت ان کی نظر اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد پر رہتی ہے اسی طرح قوت و طاقت کے وقت بھی ان کا مکمل اعتماد صرف اللہ تعالیٰ کی امداد ہی پر ہونا چاہئے۔
غزوہ حنین میں مسلمانوں کی تعدادی کثرت اور سامان حرب کے کافی ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کرام کی زبان پر جو بڑا بول آگیا تھا کہ آج تو کسی کی مجال نہیں جو ہم سے بازی لیجاسکے، اللہ تعالیٰ کو اپنی اس محبوب جماعت کی زبان سے ایسے کلمات پسند نہ آئے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابتدائی ہلہ کے وقت مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے، اور بھاگنے لگے، پھر اللہ تعالیٰ ہی کی غیبی امداد سے یہ میدان فتح ہوا۔
مفتوح و مغلوب کفار کے اموال میں عدل و انصاف اور احتیاط
دوسری ہدایت اس واقعہ سے یہ حاصل ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ حنین کے لئے مکہ کے مفتوح غیر مسلموں سے جو سامان جنگ زرہیں اور نیزے لئے تھے یہ ایسا موقع تھا کہ ان سے زیر دستی بھی یہ چیزیں کی جاسکتی تھیں، مگر آنحضرت ﷺ نے عاریت کہہ کرلیا اور پھر سب کو ان کی مستعار چیزیں واپس کردیں۔
اس واقعہ نے مسلمانوں کے ساتھ بھی پورے عدل و انصاف اور رحم و کرم کے معاملہ کا سبق دیا۔
تیسری ہدایت اس ارشاد نبوی سے حاصل ہوئی جس میں حنین کی طرف جاتے ہوئے خیف بنی کنانہ میں قیام کے وقت فرمایا کہ کل ہم ایسے مقام پر قیام کریں گے جس میں بیٹھ کر ہمارے دشمن قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف مقاطعہ کی قرارداد پر معاہدہ کیا تھا، اس میں اشارہ ہے کہ جب مسلمانوں کو حق تعالیٰ نے فتح و قوت عطا فرمادی تو اپنے پچھلے مصیبت کے دور کو نہ بھلا دیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہوسکے، ہوازن کے شکست خوردہ لوگوں کے بار بار حملہ آور ہونے اور تیر برسانے کے جواب میں رحمۃ للعالمین کی زبان مبارک سے بددعا کے بجائے ان کے لئے ہدایت کی دعا مسلمانوں کو یہ سبق دے رہی ہے کہ مسلمانوں کی جنگ و جہاد کا مقصد صرف دشمن کو زیر کرنا نہیں، بلکہ ان کو ہدایت پر لانا ہے، اس لئے اس کی کوشش سے کسی وقت غفلت نہ ہونی چاہئے۔
تیسری آیت نے یہ ہدایت کردی کہ جو کفار مقابلہ میں مغلوب ہوجائیں ان سے بھی مایوس نہ ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کو پھر اسلام و ایمان کی ہدایت دیدیں، جیسا کہ وفد ہوازن کے واقعہ اسلام سے ثابت ہوا۔
وفد ہوازن کی درخواست پر ان کے جنگی قیدیوں کی واپسی کے وقت جب صحابہ کرام کے مجمع سے آنحضرت ﷺ نے سوال کیا اور مجمع کی طرف سے یہ آوازیں آئیں کہ ہم سب انکی واپسی کے لئے خوشدلی سے رضا مند ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو کافی نہ سمجھا بلکہ جدا جدا ہر ایک کی اجازت معلوم کرنے کا اہتمام فرمایا۔
اس سے ثابت ہوا کہ حقوق کے معاملہ میں جب تک خوش دلی کا اطمینان نہ ہوجائے کسی کا حق لینا جائز نہیں، مجمع کے رعب یا لوگوں کی شرم سے کسی کا خاموش رہنا رضا مندی کے لئے کافی نہیں، اسی سے حضرات فقہاء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص پر اپنی وجاہت کا رعب ڈال کر کسی دینی مقصد کے لئے چندہ کرنا بھی درست نہیں، کیونکہ ایسے حالات میں بہت سے شریف آدمی محض شرما شرمی کچھ دیدیتے ہیں، پوری رضا مندی نہیں ہوتی، اس طرح کے مال میں برکت بھی نہیں ہوتی۔
Top