Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 2
فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ
فَسِيْحُوْا : پس چل پھر لو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اَرْبَعَةَ : چار اَشْهُرٍ : مہینے وَّاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم غَيْرُ : نہیں مُعْجِزِي اللّٰهِ : اللہ کو عاجز کرنے والے وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُخْزِي : رسوا کرنے والا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
سو پھر لو اس ملک میں چار مہینے اور جان لو کہ تم نہ تھکا سکو گے اللہ کو اور یہ کہ اللہ رسوا کرنے والا ہے کافروں کو۔
معارف و مسائل
سورة براءت شروع ہو رہی ہے جس کو سورة توبہ بھی کہا جاتا ہے۔ براءت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں کفار سے براءت کا ذکر ہے اور توبہ اس لئے کہ اس میں مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا بیان ہے (مظہری) اس سورت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ مصاحف قرآن میں اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی اس کے سوا تمام قرآنی سورتوں کے شروع میں بسم اللہ لکھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ معلوم کرنے سے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ قرآن مجید تئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ہے ایک ہی سورت کی آیتیں مختلف اوقات میں نازل ہوئیں، جبریل امین جب وحی لے کر آتے تو ساتھ ہی بحکم الہی یہ بھی بتلاتے تھے کہ یہ آیت فلاں سورت میں فلاں آیت کے بعد رکھی جائے۔ اسی کے مطابق رسول کریم ﷺ کاتبین وحی کو ہدایت فرما کر لکھوا دیتے تھے۔
اور جب ایک سورت ختم ہو کر دوسری سورت شروع ہوتی تھی تو سورت شروع ہونے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوتی تھی جس سے یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ پہلی سورت ختم ہوگئی اب دوسری سورت شروع ہو رہی ہے۔ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں ایسا ہی ہوا۔ سورة توبہ نزول کے اعتبار سے بالکل آخری سورتوں میں سے ہے۔ اس کے شروع میں عام دستور کے مطابق نہ بسم اللہ نازل ہوئی اور نہ رسول کریم ﷺ نے کاتب وحی کو اس کی ہدایت فرمائی۔ اسی حال میں رسول کریم ﷺ کی وفات ہوگئی۔
جامع قرآن حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنی خلافت کے عہد میں جب قرآن مجید کو کتابی صورت میں ترتیب دیا تو سب سورتوں کے خلاف سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ تھی اس لئے یہ شبہ ہوگیا کہ شاید یہ کوئی مستقل سورت نہ ہو بلکہ کسی دوسری سورت کا جز ہو۔ اب اس کی فکر ہوئی کہ اگر یہ کسی دوسری سورت کا جزء ہوتا وہ کونسی سورت ہوسکتی ہے۔ مضامین کے اعتبار سے سورة انفال اس کے مناسب معلوم ہوئی۔
اور حضرت عثمان سے ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ﷺ کے زمانہ میں ان دونوں سورتوں کو قرینتین یعنی ملی ہوئی کہا جاتا تھا۔ (مظہری) اس لئے سورة انفال کے بعد اس کو رکھ دیا گیا یہ احتیاط تو اس لئے کی گئی کہ دوسری سورت کا جز ہو تو اس کے ساتھ رہنا چاہئے مگر احتمال یہ بھی تھا کہ علیحدہ مستقل سورت ہو اس لئے لکھنے میں یہ سورت اختیار کی گئی کہ سورة انفال کے ختم پر سورة توبہ کے شروع سے پہلے کچھ جگہ خالی چھوڑ دی گئی جیسے عام سورتوں میں بسم اللہ کی جگہ ہوتی ہے۔
سورة براءت یا توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھے جانے کی یہ تحقیق خود جامع قرآن حضرت عثمان سے ابوداؤد، نسائی، مسند امام احمد، ترمذی میں مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس کے ایک سوال کے جواب میں منقول ہے۔ اس سوال میں حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان غنی سے یہ بھی استفسار کیا تھا کہ قرآن کی سورتوں کی جو ترتیب قائم کی گئی ہے کہ سب سے پہلے بڑی سورتیں رکھی گئیں جن میں سو آیتوں سے زیادہ ہوں جن کو اصطلاح میں مِئین کہا جاتا ہے اس کے بعد وہ بڑی سورتیں رکھی گئی ہیں جن میں سو سے کم آیات ہیں جن کو مثانی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد چھوٹی سورتیں رکھی گئی ہیں جن کو مفصلات کہا جاتا ہے۔ اس ترتیب کا بھی تقاضا یہ ہے کہ سورة توبہ کو سورة انفال سے پہلے رکھا جائے کیونکہ سورة توبہ کی آیتیں سو سے زائد اور انفال کی سو سے کم ہیں۔ شروع کی سات طویل سورتیں جن کو سبع طوال کہا جاتا ہے اس میں بھی بجائے انفال کے سورة توبہ ہی زیادہ مناسب ہے۔ اس کے خلاف کرنے میں کیا مصلحت ہے۔ حضرت عثمان غنی نے فرمایا کہ یہ سب باتیں صحیح ہیں لیکن قرآن کے معاملہ میں احتیاط کا مقتضی وہی ہے جو اختیار کیا گیا۔ کیونکہ اگر سورة توبہ مستقل سورت نہ ہو بلکہ سورة انفال کا جز ہو تو یہ ظاہر ہے کہ سورة انفال کی آیات پہلے نازل ہوئی ہیں اور توبہ کی اس کے بعد۔ اس لئے ان کو انفال کی آیات پر مقدم کرنا بغیر وحی کے جائز نہیں اور وحی میں ہمیں کوئی ایسی ہدایت نہیں ملی اس لئے انفال کو مقدم اور توبہ کو موخر کیا گیا۔
اس تحیقیق سے یہ معلوم ہوگیا کہ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا احتمال ہے کہ سورة توبہ علیحدہ سورت نہ ہو بلکہ انفال کا جز ہو اس احتمال پر یہاں بسم اللہ لکھنا ایسا نادرست ہوگا جیسے کوئی شخص کس سورت کے درمیان بسم اللہ لکھ دے۔
اسی بنا پر حضرات فقہاء نے فرمایا ہے کہ جو شخص اوپر سے سورة انفال کی تلاوت کرتا آیا ہو اور سورة توبہ شروع کر رہا ہو وہ بسم اللہ نہ پڑھے۔ لیکن جو شخص اسی سورت کے شروع یا درمیان سے اپنی تلاوت شروع کر رہا ہے اس کو چاہئے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کرے بعض ناواقف یہ سمجھتے ہیں کہ سورة توبہ کی تلاوت میں کسی حال بسم اللہ پڑھنا جا ئز نہیں یہ غط ہے اور اس پر دوسری غلطی یہ ہے کہ بجائے بسم اللہ کے یہ لوگ اس کے شروع میں اعوذ باللہ من النار پڑھتے ہیں جس کا کوئی ثبوت آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام سے نہیں ہے۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سے جو بروایت ابن عباس یہ منقول ہے کہ سورة براءت کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم امان ہے اور سورة براءت میں کفار کے امان اور عہد و پیمان کو ختم کیا گیا ہے۔ سو یہ ایک نکتہ اور لطیفہ ہے جو اصلی سبب کے منافی نہیں۔ یعنی اصلی سبب تو یہی ہے کہ سورة انفال اور توبہ کے ایک ہونے کے احتمال کی بنا پر بسم اللہ نہیں لکھی گئی پھر اس نہ لکھے جانے کا ایک لطیفہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سورت میں کفار سے براءت اور رفع امان مذکور ہے جو بسم اللہ کے مناسب نہیں اس لئے تکوینی طور پر یہاں ایسے اسباب پیدا کردیئے گئے کہ بسم اللہ یہاں نہ لکھی جائے۔
سورة توبہ کی آیات مذکورہ کو پورے طور پر سمجھنے کے لئے چند واقعات کا جاننا ضروری ہے جن کے سبب سے یہ آیات نازل ہوئی ہیں اس لئے پہلے ان واقعات کی مختصر تفصیل لکھی جاتی ہے۔
(1) پوری سورة توبہ میں چند غزوات اور ان سے متعلقہ واقعات کا اور ان کے ضمن میں بہت سے احکام و مسائل کا بیان ہوا ہے۔ مثلا تمام قبائل عرب سے معاہدات کا ختم کردینا فتح مکہ غزوہ حنین۔ غزوہ تبوک۔ ان واقعات میں فتح مکہ سب سے پہلے 8 ہجری میں پھر غزوہ حنین اسی سال میں پھر غزوہ تبوک رجب 9 ہجری میں پھر تمام قبائل عرب سے معاہدات ختم کرنے کا اعلان ذی الحجہ 9 ہجری میں ہوا۔
(2) نبذ عہد یعنی معاہدات ختم کردینے کے متعلق جو مضامین ان آیات میں مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا قصد فرمایا اور قریش مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا اور مقام حدیبیہ میں ان سے صلح ہوئی۔ اس صلح کی میعاد روح المعانی کی نقل کے مطابق دس سال کی تھی۔ مکہ میں علاوہ قریش کے دوسرے قبائل بھی تھے معاہدہ صلح کی ایک دفعہ یہ بھی رکھی گئی کہ قریش کے علاوہ دوسرے قبائل میں جس کا جی چاہے وہ قریش کا حلیف اور ساتھی بن جائے اور جس کا جی چاہے وہ رسول اللہ ﷺ کا حلیف ہو کر آپ کے ساتھ ہوجائے۔ چناچہ قبیلہ خزاعہ نے آنحضرت ﷺ کا حلیف بننا پسند کیا اور آپ کے ساتھ ہوگئے اور قبیلہ بنی بکر نے قریش کے ساتھ ہونا اختیار کرلیا۔ اس معاہدہ کی رو سے یہ لازمی تھا کہ دس سال کے اندر نہ باہمی جنگ ہوگی نہ کسی جنگ کرنے والے کو کسی جانب سے کوئی مدد دی جائے گی اور جو قبیلہ کسی فریق کا حلیف ہے وہ بھی اسی کے حکم میں سمجھا جائے گا کہ اس پر حملہ کرنا یا حملہ آور کو مدد دینا معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔
یہ معاہدہ 6 ہجری میں ہوا 7 ہجری میں معاہدہ کے مطابق رسول اللہ کریم ﷺ مع صحابہ کرام کے فوت شدہ عمرہ کی قضاء کرنے کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور تین روز قیام کرکے حسب معاہدہ واپس تشریف لے آئے۔ اس وقت تک کسی فریق کی طرف سے معاہدہ صلح کی کوئی خلاف ورزی نہ تھی۔
اسے کے بعد پانچ چھ ماہ گزرے تھے کہ قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ خزاعہ پر رات کے وقت چھاپہ مارا اور قریش نے بھی یہ سمجھ کر کہ رسول کریم ﷺ بہت دور ہیں اور رات کا وقت ہے آپ تک واقعہ کی تفصیلات پہنچنا مشکل ہے اس حملہ میں بنی بکر کو ہتھیاروں اور اپنے جوانوں سے امداد دی۔
ان واقعات اور حالات کے مطابق جن کو بالآخر قریش نے بھی تسلیم کرلیا وہ معاہدہ صلح ٹوٹ گیا جو حدیبیہ میں دس سال کے التواء جنگ کا ہوا تھا۔
قبیلہ خزاعہ جو رسول اللہ ﷺ کے حلیف تھے انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع آپ کو دے دی۔ آنحضرت ﷺ نے قریش کی عہد شکنی کی خبر پاکر قریش کے خلاف جنگ کی خفیہ تیاری شروع کردی۔
قریش کو بدر و اُحُد اور احزاب کے معرکوں میں مسلمانوں کی غیبی اور ربانی طاقت کا اندازہ ہو کر اپنی قوت و طاقت کا نشہ اتر چکا تھا اس وقت عہد شکنی کرنے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے جنگ کا خطرہ تو پیدا ہو ہی چکا تھا۔ آنحضرت ﷺ کو اطلاع پہنچنے کے بعد مکمل خاموشی سے یہ خطرہ اور زیادہ قوی ہوگیا۔ مجبور ہو کر ابو سفیان کو مدینہ بھیجا کہ وہ خودجا کر حالات کا اندازہ لگائیں اور اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جنگ کی تحریک کا اندازہ ہو تو پچھلے واقعہ پر عذر و معذرت کرکے آئندہ کے لئے تجدید معاہدہ کرلیں۔ ابو سفیان کو مدینہ پہنچ کر رسول کریم ﷺ کی جنگی تیاریوں کا کچھ علم ہوا تو پریشان ہو کر اکابر صحابہ میں سے ایک ایک کے پاس گئے کہ وہ سفارش کرکے معاہدہ کی تجدید کرادیں مگر سب نے ان کے سابقہ اور لاحقہ تلخ معاملات کے سبب انکار کردیا۔ اور ابو سفیان ناکام واپس آئے۔ قریش مکہ پر خوف و ہراس طاری ہوگیا۔
ادھر آنحضرت ﷺ نے حسب روایت بدایتہ و ابن کثیر 10 رمضان 8 ہجری کو مدینہ طیبہ سے صحابہ کرام کی بڑی جمعیت کے ساتھ مکہ پر حملہ کرنے کے قصد سے کوچ فرمایا۔ اور بالآخر مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔
فتح مکہ کے وقت مغلوب دشمنوں کے ساتھ بےنظیر کریمانہ سلوک
فتح کے وقت بہت سے رؤ ساء قریش جو پہلے سے اسلام کی حقانیت کا یقین رکھتے تھے مگر برادری کے خوف سے اظہار نہ کرسکتے تھے اب ان کو موقع مل گیا وہ مشرف باسلام ہوگئے۔ اور جو اس وقت بھی اپنے قدیم مذہب کفر پر جمے رہے ان کو بھی بجز معدودے چند افراد کے رسول کریم ﷺ نے سب کو جان و مال کا امان دے کر پیغمبرانہ اور معجزانہ اخلاق کا وہ ثبوت دیا جس کا دوسرے لوگوں سے تصور بھی نہیں ہوسکتا ان کی تمام گذشتہ عداوتوں اور مظالم اور بےرحمی کے واقعات کو یکسر نظر انداز فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے اس وقت کہی تھی جب کہ وہ والدین کے ساتھ یوسف ؑ کے پاس مصر پہنچے تھے۔ (آیت) لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔ یعنی تمہارے ظلم و جور کا انتقام لینا یا کوئی سزا دینا تو کیا ہم تم کو ملامت کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
فتح مکہ کے وقت مشرکین کی چار قسمیں اور ان کے احکام
بہرحال اس وقت مکہ پر مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہوگیا مکہ اور اطراف مکہ میں رہنے والے غیر مسلموں کو جان و مال کا امان دے دیا گیا۔ لیکن اس وقت ان غیر مسلموں کے مختلف حالات تھے۔ ایک قسم تو وہ لوگ تھے جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا اور وہی فتح مکہ کا سبب ہوا۔ دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لئے کیا گیا اور وہ اس معاہدہ پر قائم رہے جیسے بنی کنانہ کے دو قبیلے بنی ضمرہ اور بنی مدلج جن سے ایک مدت کے لئے صلح ہوئی تھی اور سورة براءت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے۔ تیسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدہ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔ چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا۔
فتح مکہ سے پہلے جتنے مشرکین یا اہل کتاب سے رسول کریم ﷺ نے معاہدات کئے ان سب کا یہ تلخ تجربہ مسلسل ہوتا رہا کہ انھوں نے خفیہ اور علانیہ عہد شکنی کی اور دشمنوں سے سازش کرکے رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی مقدور بھر پوری کوششیں کیں۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے اپنے مسلسل تجربہ اور اشارات الٰہیہ کے ماتحت یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آئندہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ صلح نہ کیا جائے گا۔ اور جزیرة العرب کو ایک اسلامی قلعہ کی حیثیت سے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص کردیا جائے گا جس کا مقتضی یہ تھا کہ مکہ اور جزیرة العرب پر اقتدار حاصل ہوتے ہی اعلان کردیا جاتا کہ غیر مسلم یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے اصول عدل و انصاف اور رحیمانہ سلوک اور رحمۃ للعالمین کی رحمت عامہ کے ماتحت بلا مہلت کے ایسا کرنا مناسب نہ تھا۔ اس لئے سورة براءت کے شروع میں ان چاروں قسم کی غیر مسلم جماعتوں کے جدا جدا احکام نازل ہوئے۔
پہلی جماعت جو قریش مکہ کی تھی جنہوں نے میثاق حدیبیہ کو خود توڑ دیا تھا اب یہ کسی مزید مہلت کے مستحق نہ تھے مگر چونکہ یہ زمانہ اشہر حرم کا زمانہ تھا جن میں جنگ و قتال منجانب اللہ ممنوع تھا اس لئے ان کے متعلق تو وہ حکم آیا جو سورة توبہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہے (آیت) فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ ، جس کا حاصل یہ تھا کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کرکے اپنا کوئی حق باقی نہیں چھوڑا مگر اشھر حرم کا احترام بہرحال ضروری ہے اس لئے اشھر حرم ختم ہوتے ہی یا وہ جزیرة العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہوجائیں ورنہ ان سے جنگ کی جائے۔
اور دوسری جماعت جن سے کسی خاص میعاد کے لئے معاہدہ صلح کیا گیا اور وہ اس پر قائم رہے ان کا حکم سورة توبہ کی چوتھی آیت میں یہ آیا۔ (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۔ یعنی وہ مشرک لوگ جن سے تم نے معاہدہ صلح کرلیا پھر انہوں نے معاہدہ پر قائم رہنے میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ میں تھمارے کسی دشمن کی مدد کی تو تم ان کے معاہدہ کو اس کی مدت تک پورا کردو کیونکہ اللہ تعالیٰ احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ حکم بنو ضمرہ اور بنو مدلج کا تھا جس کی رو سے ان کو نو مہینے کی مہلت مل گئی۔
اور تیسری اور چوتھی دونوں جماعتوں کا ایک ہی حکم آیا جو سورة توبہ کی پہلی اور دوسری آیت میں مذکور ہے۔ (آیت) بَرَاۗءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖٓ اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ۝ۭفَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِي الْكٰفِرِيْنَ۔ یعنی اعلان دست برداری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ہے ان مشرکین کے لئے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا سو تم لوگ اس سرزمین میں چار مہینے چل پھر لو۔ اور یہ جان رکھو کہ تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ کافروں کو رسوا کریں گے۔
غرض پہلی دوسری آیتوں کی رو سے ان سب لوگوں کو جن سے بلا تعیین مدت کوئی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ تھا چار مہینے کی مہلت مل گئی۔
اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو تا اختتام معاہدہ مہلت مل گئی جن کے ساتھ کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور پانچویں آیت سے مشرکین مکہ کو اشھر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔
Top