Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
مَا لَكُمْ
: تمہیں کیا ہوا
اِذَا
: جب
قِيْلَ
: کہا جاتا ہے
لَكُمُ
: تمہیں
انْفِرُوْا
: کوچ کرو
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
اثَّاقَلْتُمْ
: تم گرے جاتے ہو
اِلَى
: طرف (پر)
الْاَرْضِ
: زمین
اَرَضِيْتُمْ
: کیا تم نے پسند کرلیا
بِالْحَيٰوةِ
: زندگی کو
الدُّنْيَا
: دنیا
مِنَ
: سے (مقابلہ)
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
فَمَا
: سو نہیں
مَتَاعُ
: سامان
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
فِي
: میں
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
اِلَّا
: مگر
قَلِيْلٌ
: تھوڑا
اے ایمان والو تم کو کیا ہوا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ کوچ کرو اللہ کی راہ میں تو گرے جاتے ہو زمین پر کیا خوش ہوگئے دنیا کی زندگی پر آخرت کو چھوڑ کر سو کچھ نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت تھوڑا،
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو تم لوگوں کو کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین کو لگے جاتے ہو (یعنی اٹھتے اور چلتے نہیں) کیا تم نے آخرت کے عوض دنیاوی زندگی پر قناعت کرلی سو دنیوی زندگی کی تمتع تو کچھ بھی نہیں بہت قلیل ہے اگر تم (اس جہاد کے لئے) نہ نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو سخت سزا دے گا، (یعنی تم کو ہلاک کردے گا) اور تمہارے بدلے دوسری قوم پیدا کردے گا، (اور ان سے اپنا کام لے گا) اور تم اللہ (کے دین) کو کچھ ضرر نہ پہنچا سکو گے، اور اللہ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے اگر تم لوگ رسول (اللہ ﷺ کی مدد نہ کرو گے تو (اللہ آپ کی مدد کرے گا، جیسا کہ) اللہ تعالیٰ آپ کی مدد اس وقت کرچکا ہے جبکہ (اس سے زیادہ مصیبت و پریشانی کا وقت تھا جبکہ) آپ کو کافروں نے (تنگ کر کر کے مکہ سے) جلا وطن کردیا تھا جبکہ دو آدمیوں میں ایک آپ تھے (اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیق آپ کے ہمراہ تھے) جس وقت کہ دونوں (صاحب) غار (ثور) میں (موجود) تھے جبکہ آپ اپنے ہمراہی سے فرما رہے تھے کہ تم (کچھ) غم نہ کرو یقینا اللہ تعالیٰ (کی مدد) ہمارے ہمراہ ہے سو (وہ مدد یہ ہوئی کہ) اللہ تعالیٰ نے آپ (کے قلب) پر اپنی (طرف سے) تسلی نازل فرمائی اور آپ کو (ملائکہ کے) ایسے لشکروں سے قوت دی جن کو تم لوگوں نے نہیں دیکھا، اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کی بات (اور تدبیر) سچی کردی (کہ وہ ناکام رہے) اور اللہ ہی کا بول بالا رہا (کہ ان کی تدبیر اور حفاظت غالب رہی) اور اللہ زبردست حکمت والا ہے (اسی لئے اس کی بات اور حکمت غالب رہی جہاد کیلئے) نکل پڑو (خواہ) تھوڑے سے سامان سے (ہو) اور (خواہ) زیادہ سامان سے (ہو) اور اللہ ہی کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم یقین رکھتے ہو، (تو دیر مت کرو) اگر کچھ لگتے ہاتھ ملنے والا ہوتا اور سفر بھی معمولی ہوتا تو یہ (منافق) لوگ ضرور آپ کے ساتھ ہو لیتے لیکن ان کو تو مسافت ہی دور دراز معلوم ہونے لگی (اس لئے یہاں ہی رہ گئے) اور ابھی (جب تم لوگ واپس آؤ گے تو) خدا کی قسمیں کھا جائیں گے کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے، یہ لوگ (جھوٹ بول بول کر) اپنے آپ کو تباہ (یعنی مستحق عذاب) کررہے ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں (بلا شبہ انکو استطاعت تھی اور پھر یہ نہیں گئے)۔
معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں رسول کریم ﷺ کے غزوات میں سے ایک اہم غزوہ کا بیان اور اس کے ضمن میں بہت سے احکام اور ہدایات ہیں، یہ غزوہ غزوہ تبوک کے نام سے موسوم ہے اور رسول کریم ﷺ کا تقریبا آخری غزوہ ہے۔
تبوک مدینہ کے شمال میں سرحد شام پر ایک مقام کا نام ہے، شام اس وقت رومی مسیحیوں کی حکومت کا ایک صوبہ تھا، رسول کریم ﷺ 8 ہجری میں جب فتح مکہ اور غزوہ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ طیبہ پہنچے تو اس وقت جزیرة العرب کے اہم حصے اسلامی حکومت کے زیر نگیں آچکے تھے اور مشرکین مکہ کی ہشت سالہ مسلسل جنگوں کے بعد اب مسلمانوں کو ذرا سکون کا وقت ملا تھا۔
مگر جس ذات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی (آیت) لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ، نازل فرما کر پورے عالم کی فتوحات اور اس میں اپنے دین حق کو غالب کرنے کی بشارت دے دیتھی اس کو اور اس کے رفقاء کار کو فرصت کہاں، مدینہ پہونچتے ہی ملک شام سے آنے والے تجارت پیشہ لوگ جو شام سے زیتون کا تیل لا کر مدینہ وغیرہ میں فروخت کیا کرتے تھے، ان لوگوں نے یہ خبر پہنچائی کہ شاہ روم ہرقل نے اپنی فوجیں مقام تبوک میں سرحد شام پر جمع کردی ہیں اور فوجیوں کو پورے ایک سال کی تنخواہیں پیشگی دے کر مطمئن اور خوش کردیا ہے، اور عرب کے بعض قبائل سے بھی ان کی سازباز ہے ان کا تہیہ یہ ہے کہ مدینہ پر یکبارگی حملہ کریں۔
جب رسول کریم ﷺ کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے یہ ارادہ فرمالیا کہ ان کے حملہ آور ہونے سے پہلے پیش قدمی کر کے وہیں مقابلہ کیا جائے جہاں ان کی فوجیں جمع ہیں (تفسیر مظہری بحوالہ محمد بن یوسف صالحی)۔
یہ زمانہ اتفاق سے سخت گرمی کا زمانہ تھا، اور مدینہ کے حضرات عموماً زراعت پیشہ لوگ تھے، ان کی کھیتیاں اور باغات کے پھل پک رہے تھے جس پر ان کی ساری معیشت اور پورے سال کے گذارہ کا مدار تھا اور یہ بھی معلوم ہے کہ جس طرح ملازمت پیشہ لوگوں کی جیبیں مہینہ کے آخر میں دنوں میں خالی ہوجاتی ہیں اسی طرح زراعت پیشہ لوگ فصل کے ختم پر خالی ہاتھ ہوتے ہیں، ایک طرف افلاس دوسری طرف قریب آمدنی کی امید، اس پر مزید موسم گرما کی شدت اس قوم کے لئے جس کو ابھی ابھی ایک حریف کے ساتھ آٹھ سال مسلسل جنگوں کے بعد ذرا دم لینے کا موقع ملا تھا، ایک انتہائی صبر آزما امتحان تھا۔
مگر وقت کا تقاضا تھا اور یہ جہاد اپنی نوعیت میں پہلی سب جنگوں سے اس لئے بھی ممتاز تھا کہ پہلے تو اپنی ہی طرح کے عوام سے جنگ تھی، اور یہاں ہرقل شاہ روم کی تربیت یافتہ فوج کا مقابلہ تھا، اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ نے مدینہ طیبہ کے پورے مسلمانوں کو اس جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دیدیا، اور کچھ آس پاس کے دوسرے قبائل کو بھی شرکت جہاد کے لئے دعوت دی تھی۔
یہ اعلان عام اسلام کے فدا کاروں کا ایک سخت امتحان تھا، اور منافق دعویداروں کا امتیاز بھی، اس کے علاوہ لازمی نتیجہ کے طور پر اسلام کا کلمہ پڑھنے والوں کے مختلف حالات ہوگئے، قرآن کریم نے ان میں سے ہر حالت کے متعلق جدا جدا ارشادات فرمائے ہیں۔
ایک حالت ان کامل مکمل حضرات کی تھی جو بلا تردد جہاد کے لئے تیار ہوگئے، دوسرے وہ لوگ جو ابتداء کچھ تردد کے بعد ساتھ ہوگئے، ان دونوں طبقوں کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا (آیت) الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ، یعنی وہ لوگ قابل مدح ہیں جنہوں نے سخت تنگی کے وقت رسول کریم کا اتباع کیا، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک فریق کے قلوب لغزش کرنے لگے تھے۔
تسیری حالت ان لوگوں کی تھی جو کسی صحیح عذر کی بنا پر اس جہاد میں نہ جاسکے، اس کے متعلق قرآن کریم نے آیت (آیت) لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى، میں ان کے عذر کی قبولیت کا اظہار فرمادیا۔
چوتھی قسم ان لوگوں کی تھی جو باوجود کوئی عذر نہ ہونے کے کاہلی کے سبب جہاد میں شریک نہیں ہوئے ان کے متعلق کئی آیتیں نازل ہوئیں (آیت) وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ اور وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اور وَّعَلَي الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْا، تینوں آیتیں ایسے ہی حضرات کے بارے میں نازل ہوئیں، جن میں ان کی کاہلی پر زجر و تنبیہ بھی ہے اور بالاخر ان کی توبہ کے قبول ہونے کی بشارت بھی۔
پانچواں طبقہ منافقین کا تھا جو اپنے نفاق کی وجہ سے اس سخت امتحان میں اپنے نفاق کو چھپا نہ سکا اور شرکت جہاد سے الگ رہا، اس طبقہ کا ذکر بہت سی آیات میں آیا ہے۔
چھٹا طبقہ ان منافقین کا تھا جو جاسوسی اور شرارت کے لئے مسلمانوں کے ساتھ ہو لیا تھا ان کی حالت کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں ہےوَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ۔ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ۔ وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا۔
لیکن اس ساری سختی اور تکلیف کے باوجود شرکت جہاد سے باز رہنے والوں کی مجموعی تعداد پھر بھی برائے نام تھی، بھاری اکثریت انہی مسلمانوں کی تھی جو اپنے سارے منافع اور راحت کو قربان کرکے اللہ کی راہ میں ہر طرح کی مشقت برداشت کرنے کے لئے تیار ہوگئے، اسی لئے اس جہاد میں نکلنے والے اسلامی شکر کی تعداد تیس ہزار تھی، جو اس سے پہلے کسی جہاد میں نظر نہیں آئی۔
نتیجہ اس جہاد کا یہ ہوا کہ جب ہرقل شاہ روم کو مسلمانوں کی اتنی بڑی جمعیت کے مقابلہ پر آنے کی خبر پہنچی تو اس پر رعب طاری ہوگیا، مقابلہ پر نہیں آیا، رسول کریم ﷺ اپنے فرشتہ خصلت صحابہ کرام کے لشکر کے ساتھ چند روز محاذجنگ پر قیام کرکے جب مخالف کے مقابلہ پر آنے سے مایوس ہوگئے تو واپس تشریف لے آئے۔
جو آیتیں اوپر لکھی گئی ہیں بظاہر ان کا تعلق اس چوتھی جماعت سے ہے جو بغیر کسی صحیح عذر کے اپنی سستی اور کاہلی کی بنا پر شریک جہاد نہیں ہوئے، پہلی آیت میں ان کو اس کاہلی اور غفلت پر تنبیہ کی گئی اور اس کے ساتھ ان کے اس مرض غفلت و کاہلی کا سبب اور پھر اس کا علاج بھی ارشاد فرمایا گیا، جس کے ضمن میں یہ بھی واضح ہوگیا کہ
دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت تمام جرائم کی بنیاد ہےکیونکہ مرض کا جو سبب اور علاج اس جگہ بیان فرمایا گیا ہے اگرچہ اس جگہ اس کا تعلق ایک خاص واقعہ سے تھا، لیکن اگر غور کیا جائے تو ثابت ہوگا کہ دین کے معاملہ میں ہر کوتاہی سستی اور غفلت اور تمام جرائم اور گناہوں کا اصلی سبب یہی دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت ہے اسی لئے حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہےحب الدنیا راس کل خطیئۃ، یعنی دنیا کی محبت ہر خطاء و گناہ کی بنیاد ہے اسی لئے آیت مذکورہ میں فرمایا گیا کہ
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تمہیں اللہ کے راستہ میں نکلنے کے لئے کہا جاتا ہے تو تم زمین کو لگے جاتے ہو (حرکت کرنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت کے بدلے صرف دنیا کی زندگی پر مگن ہوگئے۔
تشخیص مرض کے بعد اس کا علاج اگلے جملہ میں اس طرح ارشاد ہوا کہ
دنیوی زندگی سے نفع اٹھانا تو کچھ بھی نہیں بہت قلیل و حقیر ہے“ جس کا حاصل یہ ہے کہ بڑی فکر آخرت کی دائمی زندگی کی چاہئے، اور یہ فکر آخرت ہی درحقیقت سارے امراض کا واحد اور مکمل علاج ہے اور انسداد جرائم کے لئے بےنظر نسخہ اکسیر ہے۔
عقائد اسلام کے بنیادی اصول تین ہیں، توحید، رسالت اور آخرت، ان میں عقیدہ آخرت درحقیقت اصلاح عمل کی روح اور جرائم اور گناہوں کے آگے ایک آہنی دیوار ہے، اگر غور کیا جائے تو بدیہی طور پر معلوم ہوگا کہ دنیا میں امن و سکون اس عقیدہ کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتا آج کی دنیا میں مادی ترقیات اپنے شباب کو پہنچی ہوئی ہیں، جرائم کے انسداد کے لئے بھی کسی ملک و قوم میں مادی تدبیروں کی کوئی کمی نہیں، قانون کی جکڑ بندی اور اس کے لئے انتظامی مشینری روز بروز ترقی پر ہے، مگر اس کے ساتھ یہ بھی آنکھوں دیکھا حال ہے کہ جرائم ہر جگہ اور ہر قوم میں روز بروز ترقی ہی پر ہیں، ہماری نظر میں اس کی وجہ اس کے سوا نہیں کہ مرض کی تشخیص اور علاج کا رخ صحیح نہیں، مرض کا سرچشمہ مادہ پرستی اور مادیات میں انہماک اور آخرت سے غفلت و اعراض ہے، اور اس کا واحد علاج ذکر اللہ اور آخرت کی فکر ہے، جس وقت اور جس جگہ بھی دنیا میں اس اکسیری نسخہ کو استعمال کیا گیا پوری قوم اور اس کا معاشرہ صحیح انسانیت کی تصویر بن کر فرشتوں کے لئے قابل رشک ہوگیا، عہد رسالت اور عہد صحابہ کرام کا مشاھدہ اس کے لئے کافی دلیل ہے۔
Top