Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 46
وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَرَادُوا : وہ ارادہ کرتے الْخُرُوْجَ : نکلنے کا لَاَعَدُّوْا : ضرور تیار کرتے لَهٗ : اس کے لیے عُدَّةً : کچھ سامان وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَرِهَ : ناپسند کیا اللّٰهُ : اللہ انْۢبِعَاثَهُمْ : ان کا اٹھنا فَثَبَّطَهُمْ : سو ان کو روک دیا وَقِيْلَ : اور کہا گیا اقْعُدُوْا : بیٹھ جاؤ مَعَ : ساتھ الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھنے والے
اور اگر وہ چاہتے نکلنا تو ضرور تیار کرتے کچھ سامان اس کا لیکن پسند نہ کیا اللہ نے ان کا اٹھنا سو روک دیا ان کو اور حکم ہوا کہ بیٹھے رہو ساتھ بیٹھنے والوں کے،
چوتھی آیت میں ان کا عذر غلط ہونے کا ایک قرینہ یہ بتلایا گیا ہے کہ (آیت) وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً یعنی اگر واقعی یہ لوگ جہاد کے لئے نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لئے ضروری تھا کہ کچھ تیاری بھی تو کرتے، لیکن انہوں نے کوئی تیاری نہیں کی، جس سے معلوم ہوا کہ عذر کا بہانہ غلط تھا، درحقیقت ان کا ارادہ ہی جہاد کے لئے نکلنے کا نہیں تھا۔
عذر معقول اور نامعقول میں امتیاز
اس آیت سے ایک اہم اصول مستفاد ہوا، جس سے معقول اور نامعقول عذر میں امتیاز کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ عذر انہی لوگوں کا قابل قبول ہوسکتا ہے جو تعمیل حکم کے لئے تیار ہوں، پھر کسی اتفاقی حادثہ کے سبب معذور ہوگئے، معذوروں کے تمام معاملات کا یہی حکم ہے جس نے تعمیل حکم کے لئے کوئی تیاری ہی نہیں کی اور ارادہ ہی نہیں کیا، پھر کوئی عذر بھی پیش آگیا تو یہ عذر گناہ بدتر از گناہ کی ایک مثال ہوگی، صحیح عذر نہ سمجھا جائے گا، جو شخص نماز جمعہ کی حاضری کے لئے تیاری مکمل کرچکا ہے اور جانے کا ارادہ کر رہا ہے کہ دفعة کوئی ایسا عذر پیش آگیا جس کی وجہ سے نہ جاسکا تو اس کا عذر معقول ہے، اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اس کی عبادت کا پورا اجر عطا فرماتے ہیں، اور جس نے کوئی تیاری کی ہی نہیں، پھر اتفاقاً کوئی عذر بھی سامنے آگیا تو وہ محض ایک بہانہ ہے۔
صبح کو سویرے نماز کے لئے اٹھنے کی تیاری پوری پوری کی، گھڑی میں الارم لگایا، یا کسی کو مقرر کیا جو وقت پر جگائے، پھر اتفاق سے یہ تدبیریں غلط ہوگئیں جس کی وجہ سے نماز قضا ہوگئی، جیسے رسول اللہ ﷺ کو لیلة التعریس میں پیش آیا، کہ وقت پر جاگنے کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ حضرت بلال کو بٹھا دیا کہ وہ صبح ہوتے ہی سب کو جگادیں، مگر اتفاق سے ان پر بھی نیند غالب آگئی، اور آفتاب نکل آنے کے بعد سب کی آنکھ کھلی، تو یہ عذر صحیح اور معقول ہے، جس کی بناء پر آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایالا تفریط فی النوم انما التفریط فی الیقظۃ، یعنی نیند میں آدمی معذور ہے، کوتاہی وہ ہے جو جاگتے ہوئے کوتاہی کرے“ وجہ یہ تھی کہ اپنی طرف سے وقت پر جاگنے کا انتظام مکمل کرلیا گیا تھا۔
خلا صہ یہ ہے کہ تعمیل حکم کے لئے تیاری کرنے یا نہ کرنے ہی سے کسی عذر کے معقول یا نامعقول ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے، محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوتا۔
Top