Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اور بعضے ان میں کہتے ہیں مجھ کو رخصت دے اور گمراہی میں نہ ڈال، سنتا ہے وہ تو گمراہی میں پڑچکے ہیں اور بیشک دوزخ گھیر رہی ہے کافروں کو،
چھٹی آیت میں ایک خاص منافق جد بن قیس کا ایک خا ص بہانہ ذکر کر کے اس کی گمراہی بیان فرمائی، اس نے جہاد میں جانے سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ میں نوجوان آدمی ہوں، رومیوں کے مقابلہ پر جاؤں گا تو ان کی حسین عورتوں کے فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہے، قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرمایا اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا، کہ یہ بیوقوف ایک موہوم فتنہ کا بہانہ کرکے ایک یقینی فتنہ یعنی امر رسول کی خلاف ورزی اور ترک جہاد کے گناہ میں فی الحال مبتلا ہوگئے۔
(آیت) ۭوَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ ، یعنی جہنم ان سب کافروں کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے جس سے نکل نہیں سکتے، اس کی مراد یا تو یہ ہے کہ آخرت میں جہنم ان کو گھیرے میں لے لی گی اور یا یہ کہ جہنم میں پہنچنے کے اسباب جو اس وقت ان کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہیں، انہی کو جہنم سے تعبیر فرما دیا، اس معنی کے اعتبار سے گویا فی الحال بھی یہ لوگ جہنم ہی کے دائرہ میں ہیں۔
Top