Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 54
وَ مَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ
وَمَا : اور نہ مَنَعَهُمْ : ان سے مانع ہوا اَنْ : کہ تُقْبَلَ : قبول کیا جائے مِنْهُمْ : ان سے نَفَقٰتُهُمْ : ان کا خرچ اِلَّآ : مگر اَنَّهُمْ : یہ کہ وہ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاللّٰهِ : اللہ کے وَبِرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول کے وَلَا يَاْتُوْنَ : اور وہ نہیں آتے الصَّلٰوةَ : نماز اِلَّا : مگر وَهُمْ : اور وہ كُسَالٰى : سست وَ : اور لَا يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ نہیں کرتے اِلَّا : مگر وَهُمْ : اور وہ كٰرِهُوْنَ : ناخوشی سے
اور موقوف نہیں ہوا قبول ہوا ان کے خرچ کا مگر اسی بات پر کہ وہ منکر ہوئے اللہ سے اور اس کے رسول سے اور نہیں آتے نماز کو مگر ہارے جی سے اور خرچ نہیں کرتے مگر برے دل سے،
معارف و مسائل
سابقہ آیات میں منافقین کی بداخلاقی اور بد اعمالی کا ذکر تھا، مذکورہ تمام آیات میں بھی یہی مضمون ہے(آیت) اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا، میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ منافقین کے مال و اولاد ان کے لئے نعمت نہیں عذاب ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کی محنت میں انہماک انسان کیلئے اس دنیا ہی میں ایک عذاب و مصیبت بن جاتا ہے، اول مال دنیا کے حاصل کرنے کی تمناؤں اور پھر تدبیروں میں کیسی کیسی محنت، مشقت اور کوفت جسمانی اور روحانی اٹھانی پڑتی ہے، نہ دن کا چین نہ رات کی نیند، نہ اپنے تن بدن کی خبر، نہ اہل و عیال ہی میں دل بہلانے کی فرصت، پھر اگر ذرا سا نقصان ہوگیا یا کوئی بیماری پیش آگئی تو غمون کا پہاڑ آپڑا، اور اگر ساری چیزیں اتفاق سے طبیعت اور خواہش کے مطابق حاصل بھی ہوجائیں تو اس کے گھٹ جانے کا اندیشہ اور بڑھاتے چلے جانے کی فکر کسی وقت چین نہیں لینے دیتی۔
پھر جب آخرکار یہ چیزیں موت کے وقت یا پہلے ہی اس کے ہاتھ سے جاتی ہیں تو اس پر حسرت و یاس مسلط ہوجاتی ہے یہ سب عذاب ہی عذاب ہے جس کو بیوقوف انسان جس نے سامان راحت کا نام راحت رکھ لیا ہے، اور حقیقی راحت ہی کو راحت سمجھ کر اس پر مگن رہتا ہے، جو حقیقت میں اس کیلئے دنیا کے چین و آرام کا بھی دشمن ہے اور آخرت کے عذاب کا مقدمہ بھی۔
کیا صدقات کا مال کافر کو دیا جاسکتا ہے
آخری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اموال صدقات میں سے منافقین کو بھی حصہ ملا کرتا تھا، مگر وہ خواہش کے مطابق نہ ملنے پر ناراض ہوجاتے اور طعن وتشنیع کرنے لگتے تھے، یہاں اگر صدقات سے مراد عام معنی لئے جائیں جس میں صدقات واجبہ اور نافلہ سب شامل ہیں، تو کوئی اشکال ہی نہیں کیونکہ نفلی صدقات میں سے غیر مسلموں کو دینا باتفاق امت جائز اور سنت سے ثابت ہے، اور اگر صدقات سے مراد اس جگہ صدقات فرض، زکوٰة عشر وغیرہ ہی ہوں، تو منافقین کو اس میں سے حصہ دینا اس بناء پر تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، اور ظاہری کوئی حجت ان کے کفر پر قائم نہ ہوئی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے بمصلحت حکم یہی دے رکھا تھا کہ منافقین کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے جو مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا تھا ‘ (بیان القرآن ملخصاً)
(آیت) لَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى، اس آیت میں منافقین کی دو علامتیں بتلائی گئی میں، ایک یہ کہ نماز کو آویں تو سستی کاہلی اور ہارے جی سے آویں دوسرے اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو ناگواری کے ساتھ خرچ کریں۔
اس میں مسلمانوں کو بھی اس پر تنبیہ ہے کہ نماز میں سستی کاہلی اور زکوٰة صدقات سے دلی ناگواری پیدا ہونا علامت نفاق ہے، مسلمانوں کو کوشش کرکے ان علامات سے بچنا چاہئے۔
Top