Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 5
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ١ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَاِذَا : پھر جب انْسَلَخَ : گزر جائیں الْاَشْهُرُ : مہینے الْحُرُمُ : حرمت والے فَاقْتُلُوا : تو قتل کرو الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع) حَيْثُ : جہاں وَجَدْتُّمُوْهُمْ : تم انہیں پاؤ وَخُذُوْهُمْ : اور انہیں پکڑو وَاحْصُرُوْهُمْ : اور انہیں گھیر لو وَاقْعُدُوْا : اور بیٹھو لَهُمْ : ان کے لیے كُلَّ مَرْصَدٍ : ہرگھات فَاِنْ : پھر اگر تَابُوْا : وہ توبہ کرلیں وَاَقَامُوا : اور قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ : اور زکوۃ ادا کریں فَخَلُّوْا : تو چھوڑ دو سَبِيْلَهُمْ : ان کا راستہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحیم
پھر جب گزر جائیں مہینے پناہ کے تو مارو مشرکوں کو جہاں پاؤ اور پکڑو اور گھیرو اور بیٹھو ہر جگہ ان کی تاک میں، پھر اگر وہ توبہ کریں اور قائم رکھیں نماز اور دیا کریں زکوٰة تو چھوڑ دو ان کا رستہ، بیشک اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔
(7) ساتواں مسئلہ مذکورہ پانچویں آیت کی تفصیلات سے یہ معلوم ہوا کہ جب صحیح مقصد کے لئے کسی قوم سے جنگ چھڑ جائے تو پھر ان کے مقابلہ کے لئے ہر طرح کی قوت پورے طور پر استعمال کرنا چاہئے اس وقت رحم دلی یا نرمی درحقیقت رحم دلی نہیں بلکہ بزدلی ہوتی ہے۔
(8) آٹھواں مسئلہ مذکورہ پانچویں آیت سے یہ ثابت ہوا کہ کسی غیر مسلم کے مسلمان ہوجانے پر اعتماد تین چیزوں پر موقوف ہے۔ ایک توبہ دوسرے اقامت صلوٰة تیسرے ادائے زکوٰة جب تک اس پر عمل نہ ہو محض کلمہ پڑھ لینے سے ان کے ساتھ جنگ بند نہ کی جائے گی۔ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جن لوگوں نے زکوٰة دینے سے انکار کردیا تھا ان کے مقابلہ پر صدیق اکبر نے جہاد کرنے کے لئے اسی آیت سے استدلال فرما کر تمام صحابہ کو مطمئن کردیا تھا۔
(9) نواں مسئلہ ان آیات میں یہ ہے کہ (آیت) يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ سے کیا مراد ہے۔ اس میں حضرات مفسرین کے مختلف اقوال ہیں حضرت عبداللہ بن عباس، فاروق اعظم، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر ؓ اجمعین وغیرہ نے فرمایا کہ يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ سے مراد یوم عرفہ ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے الحج عرفۃ (ابوداؤد۔ ترمذی)۔
اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد یوم النحر یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے۔ حضرت سفیان ثوری اور بعض دوسرے ائمہ نے ان سب اقوال کو جمع کرنے کے لئے فرمایا کہ حج کے پا نچوں دن يَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ کا مصداق ہیں جن میں عرفہ اور یوم النحر دونوں داخل ہیں اور لفظ یوم مفرد لانا اس محاورہ کے مطابق ہے جیسے غزوہ بدر کے چند ایام کو قرآن کریم میں یوم الفرقان کے مفرد نام سے تعبیر کیا ہے۔ اور عرب کی عام جنگوں کو لفظ یوم ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اگرچہ ان میں کتنے ہی ایام صرف ہوئے ہوں جیسے یوم بعاث، یوم احد وغیرہ اور چونکہ عمرہ کو حج اصغر یعنی چھوٹا حج کہا جاتا ہے اس سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآنی اصطلاح میں ہر سال کا حج حج اکبر ہی ہے۔ عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جس سال عرفہ بروز حمبعہ واقع ہو صرف وہ ہی حج اکبر ہے اس کی اصلیت اس کے سوا نہیں ہے کہ اتفاقی طور پر جس سال رسول کریم ﷺ کا حجة الوداع ہوا ہے اس میں عرفہ بروز جمعہ ہوا تھا۔ یہ اپنی جگہ ایک فضیلت ضرور ہے مگر آیت مذکورہ کے مفہوم سے اس کا تعلق نہیں۔ امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ ایام حج کو حج اکبر فرمانے سے یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ ایام حج میں عمرہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ان ایام کو قرآن کریم نے حج اکبر کے لئے مخصوص فرما دیا ہے۔
Top