Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا
: صرف
الصَّدَقٰتُ
: زکوۃ
لِلْفُقَرَآءِ
: مفلس (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: مسکین (جمع) محتاج
وَالْعٰمِلِيْنَ
: اور کام کرنے والے
عَلَيْهَا
: اس پر
وَالْمُؤَلَّفَةِ
: اور الفت دی جائے
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَفِي
: اور میں
الرِّقَابِ
: گردنوں (کے چھڑانے)
وَالْغٰرِمِيْنَ
: اور تاوان بھرنے والے، قرضدار
وَفِيْ
: اور میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
فَرِيْضَةً
: فریضہ (ٹھہرایا ہوا)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: علم والا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
زکوٰة جو ہے سو وہ حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا اور زکوٰة کے کام پر جانے والوں کا اور جن کا دل پرچانا منظور ہے اور گردنوں کے چھڑانے میں اور جو تاوان بھریں اور اللہ کے رستہ میں اور راہ کے مسافر کو ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا، اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔
خلاصہ تفسیر
(فرض) صدقات تو صرف حق ہے غریبوں کا اور محتاجوں کا اور جو کارکن ان صدقات (کی تحصیل وصول کرنے) پر متعین ہیں اور جن کی دلجوئی کرنا (منظور) ہے اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں (صرف کیا جائے) اور قرض داروں کے قرضہ (ادا کرنے) میں اور جہاد والوں کے سامان) میں اور مسافروں کی (امداد) میں یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں۔
معارف و مسائل
مصارف الصدقات
اس سے پہلی آیتوں میں صدقات کے بارے میں رسول کریم کا ذکر تھا، جس میں منافقین نے آنحضرت ﷺ پر یہ الزام لگایا تھا آپ (معاذ اللہ) صدقات کی تقسیم میں انصاف نہیں کرتے، جس کو چاہتے ہیں جو چاہتے ہیں دیدیتے ہیں۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے مصارف صدقات کو متعین فرما کر ان کی اس غلط فہمی کو دور کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات خود متعین فرما دی ہے کہ صدقات کن لوگوں کو دینے چاہئیں، اور رسول کریم ﷺ تقسیم صدقات میں اسی ارشاد ربانی کی تعمیل فرماتے ہیں، اپنی رائے سے کچھ نہیں کرتے۔
اس کی تصدیق اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ابوداؤد اور دار قطنی نے حضرت زیاد بن حارث صدائی کی روایت سے نقل کی ہے، یہ فرماتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو معلوم ہوا کہ آپ ان کی قوم کے مقابلہ کے لئے ایک لشکر مسلمانوں کا روانہ فرما رہے ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ لشکر نہ بھیجیں، میں اس کا ذمہ لیتا ہوں کہ وہ سب مطیع و فرمانبردار ہو کر آجائیں گے، پھر میں نے اپنی قوم کو خط لکھا تو سب کے سب مسلمان ہوگئے، اس پر آپ نے فرمایایا اخا صداء المطاع فی قومہ، جس میں گویا ان کو یہ خطاب دیا گیا کہ یہ اپنی قوم کے محبوب اور مقتدا ہیں میں نے عرض کیا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، اللہ تعالیٰ کے کرم سے ان کو ہدایت ہوگئی اور وہ مسلمان ہوگئے، یہ فرماتے ہیں کہ میں ابھی اس مجلس میں حاضر تھا کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کچھ سوال کرنے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس کو یہ جواب دیا کہ
صدقات کی تقسیم کو اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا غیر نبی کے بھی حوالہ نہیں کیا، بلکہ خود ہی اس کے آٹھ مصرف متعین فرما دیئے، اگر تم ان آٹھ میں داخل ہو تو تمہیں دے سکتا ہوں، انتہٰی۔ (تفسیر قرطبی، ص 168 ج 8)
آیت کا شان نزول معلوم کرنے کے بعد آیت کی مکمل تفسیر اور تشریح سننے سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ اللہ جل شانہ نے تمام مخلوقات انسان و حیوان وغیرہ کو رزق دینے کا وعدہ فرمایا ہے، (آیت) وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا، اور ساتھ ہی اپنی حکمت بالغہ سے ایسا نہیں کیا کہ سب کو رزق میں برابر کردیتے، غنی و فقیر کا فرق نہ رہتا، اس میں انسان کی اخلاقی تربیت اور نظام عالم سے متعلق سینکڑوں حکمتیں ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں غریب فقیر کا حصہ لگا دیا، ارشاد فرمایا (آیت) وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ ، جس میں بتلا دیا کہ مالداروں کے مال میں اللہ تعالیٰ نے ایک معین مقدار کا حصہ فقراء کے لئے رکھ دیا ہے، جو ان فقراء کا حق ہے۔
اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ مال داروں کے مال میں سے جو صدقہ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے یہ کوئی ان کا احسان نہیں، بلکہ فقراء کا ایک حق ہے، جس کی ادائیگی ان کے ذمہ ضروری ہے، دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ حق اللہ تعالیٰ کے نزدیک متعین ہے، یہ نہیں کہ جس کا جی چاہے جب چاہے اس میں کمی بیشی کردے، اللہ تعالیٰ نے اس معین حق کی مقدار بھی بتلانے کا کام رسول کریم ﷺ کے سپرد فرمایا، اور اسی لئے آپ نے اس کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ صحابہ کرام کو صرف زبانی بتلا دینے پر کفایت نہیں فرمائی، بلکہ اس معاملہ کے متعلق مفصل فرمان لکھوا کر حضرت فاروق اعظم اور عمرو بن حزم کو سپرد فرمائے، جس سے واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ زکوٰة کے نصاب اور ہر نصاب میں سے مقدار زکوٰة ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے واسطہ سے متعین کرکے بتلا دیئے ہیں، اس میں کسی زمانہ اور کسی ملک میں کسی کو کمی بیشی یا تغیر و تبدل کا کوئی حق نہیں۔
صدقہ، زکوٰة کی فرضیت صحیح یہ ہے کہ اوائل اسلام ہی میں مکہ مکرمہ کے اندر نازل ہوچکی تھی، جیسا کہ امام تفسیر ابن کثیر نے سورة مزمل کی (آیت) فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ، سے استدلال فرمایا ہے کیونکہ یہ سورة بالکل ابتداء وحی کے زمانہ کی سورتوں میں سے ہے، اس میں نماز کے ساتھ زکوٰة کا حکم بھی ہے، البتہ روایات حدیث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء اسلام میں زکوٰة کے لئے کوئی خاص نصاب یا خاص مقدار مقرر نہ تھی، بلکہ جو کچھ ایک مسلمان کی اپنی ضرورتوں سے بچ رہے وہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا تھا، نصابوں کا تعین اور مقدار زکوٰۃ کا بیان بعد ہجرت مدینہ طیبہ میں ہوا ہے، اور پھر زکوٰة و صدقات کی وصول یابی کا نظام محکمانہ انداز کا تو فتح مکہ کے بعد عمل میں آیا ہے۔
اس آیت میں باجماع صحابہ وتابعین اسی صدقہ واجبہ کے مصارف کا بیان ہے جو نماز کی طرح مسلمانوں پر فرض ہے، کیونکہ جو مصارف اس آیت میں متعین کے گئے ہیں وہ صدقات فرض کے مصارف ہیں، نفلی صدقات میں روایات کی تصریحات کی بنا پر بہت وسعت ہے وہ ان آٹھ مصارف میں منحصر نہیں ہیں۔
اگرچہ اوپر کی آیات میں صدقات کا لفظ عام صدقات کے لئے استعمال ہوا ہے، جس میں واجب اور نفلی دونوں داخل ہیں، مگر اس آیت میں باجماع امت صدقات فرض ہی کے مصارف کا بیان مراد ہے، اور تفسیر قرطبی میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں لفظ صدقہ مطلقاً بولا گیا ہے اور کوئی قرینہ نفلی صدقہ کا نہیں ہے تو وہاں صدقہ فرض ہی مراد ہوتا ہے۔
اس آیت کو لفظ انما سے شروع کیا گیا ہے، یہ لفظ حصر و انحصار کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس شروع ہی کے کلمہ نے بتلا دیا کہ صدقات کے جو مصارف آگے بیان ہو رہے ہیں تمام صدقات واجبہ صرف انہیں میں خرچ ہونے چاہئیں ان کے علاوہ کسی دوسرے مصرف خیر میں صدقات واجبہ صرف نہیں ہو سکتے، جیسے جہاد کی تیاری یا بناء مسجد و مدارس یا دوسرے رفاہ عام کے ادارے، یہ سب چیزیں بھی اگرچہ ضروری ہیں، اور ان میں خرچ کرنے کا بہت بڑا ثواب ہے، مگر صدقات فرض جن کی مقداریں متعین کردی گئی ہیں، ان کو ان میں نہیں لگایا جاسکتا۔
آیت کا دوسرا لفظ صدقات، صدقہ کی جمع ہے، صدقہ لغت میں اس مال کے جزء کو کہا جاتا ہے جو اللہ کے لئے خرچ کیا جائے (قاموس) امام راغب نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ صدقہ کو صدقہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا دینے والا گویا یہ دعوی کرتا ہے کہ میں اپنے قول و فعل میں صادق ہوں، اس کے خرچ کرنے کی کوئی غرض دنیوی نہیں، بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لئے خرچ کررہا ہوں، اسی لئے جس صدقہ میں کوئی نام و نمود یا دنیوی غرض شامل ہوجائے قرآن کریم نے اس کو کالعدم قرار دیا ہے۔
لفظ صدقہ اپنے اصلی معنی کی رو سے عام ہے، نفلی صدقہ کو بھی کہا جاتا ہے، فرض زکوٰة کو بھی، نفل کے لئے اس کا استعمال عام ہے ہی، فرض کے لئے بھی قرآن کریم میں بہت جگہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے، جیسے (آیت) خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً ، اور آیت زیر بحث اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ وغیرہ، بلکہ قرطبی کی تحقیق تو یہ ہے کہ قرآن میں جب مطلق لفظ صدقہ بولا جاتا ہے تو اس سے صدقہ فرض ہی مراد ہوتا ہے، اور روایات حدیث میں لفظ صدقہ ہر نیک کام کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، جیسے حدیث میں ہے کہ کسی مسلمان سے خوش ہو کر ملنا بھی صدقہ ہے، کسی بوجھ اٹھانے والے کا بوجھ اٹھوا دینا بھی صدقہ ہے ‘ کنویں سے پانی کا ڈول اپنے لئے نکالا اس میں سے کسی دوسرے کو دیدینا بھی صدقہ ہے، اس حدیث میں لفظ صدقہ مجازی طور پر عام معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
تیسرا لفظ اس کے بعد لِلْفُقَرَاۗءِ سے شروع ہوا ہے، اس کے شروع میں حرف لام ہے جو تخصیص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے معنی جملہ کے یہ ہوں گے کہ تمام صدقات صرف انہی لوگوں کو حق ہے جن کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے۔
اب ان آٹھ مصارف کی تفصیل سنئے جو اس کے بعد مذکور ہیں
ان میں پہلا مصرف فقراء ہیں، دوسرا مساکین، فقیر اور مسکین کے اصلی معنی میں اگرچہ اختلاف ہے، ایک کے معنے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو، دوسرے کے معنی ہیں جس کے پاس نصاب سے کم ہو، لیکن حکم زکوٰة میں دونوں یکساں ہیں اختلاف نہیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اس کی ضروریات اصلیہ سے زائد بقدر نصاب مال نہ ہو اس کو زکوٰة دی جاسکتی ہے، اور اس کے لئے زکوٰة لینا بھی جائز ہے، ضروریات میں رہنے کا امکان استعمالی برتن اور کپڑے اور فرنیچر وغیرہ سب داخل ہیں، نصاب یعنی سونا ساڑھے سات تولہ یا چاندی ساڑھے باون تولہ یا اس کی قیمت جس کے پاس ہو اور وہ قرضدار بھی نہ ہو نہ اس کو زکوٰة لینا جائز ہے نہ دینا، اسی طرح وہ شخص جس کے پاس کچھ چاندی یا کچھ پیسے نقد ہیں اور تھوڑا سا سونا ہے تو سب کی قیمت لگا کر اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے تو وہ بھی صاحب نصاب ہے، اس کو زکوٰة دینا اور لینا جائز نہیں، اور جو شخص صاحب نصاب نہیں مگر تندرست، قوی اور کمانے کے قابل ہے اور ایک دن کا گذارہ اس کے پاس موجود ہے اس کو اگرچہ زکوٰة دینا جائز ہے مگر یہ جائز نہیں کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے، اس میں بہت سے لوگ غفلت برتتے ہیں، سوال کرنا ایسے لوگوں کے لئے حرام ہے، ایسا شخص جو کچھ سوال کرکے حاصل کرتا ہے اس کو رسول کریم ﷺ نے جہنم کا انگارہ فرمایا ہے (ابوداؤد بروایت علی ‘ قرطبی)
حاصل یہ ہے کہ فقیر اور مسکین میں زکوٰة کے باب میں کوئی فرق نہیں، البتہ وصیت کے حکم میں فرق پڑتا ہے کہ مساکین کے لئے وصیت کی ہے تو کیسے لوگوں کو دیا جائے، اور فقراء کے لئے ہے تو کیسے لوگوں کو دیا جائے، جس کے بیان کی یہاں ضرورت نہیں، فقیر اور مسکین کے دونوں مصرفوں میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ جس کو مال زکوٰة دیا جائے وہ مسلمان ہو اور حاجات اصلیہ سے زائد بقدر نصاب مال کا مالک نہ ہو۔
اگرچہ عام صدقات غیر مسلموں کو بھی دیئے جاسکتے ہیں، رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہےتصدقوا علی اھل الادیان کلھایعنی ہر مذہب والے پر صدقہ کرو۔ لیکن صدقہ زکوٰة کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن بھیجنے کے وقت یہ ہدایت فرمائی تھی کہ مال زکوٰة صرف مسلمانوں کے اغنیاء سے لیا جائے، اور انہی کے فقراء پر صرف کیا جائے، اس لئے مال زکوٰة کو صرف مسلم فقراء و مساکین ہی پر صرف کیا جاسکتا ہے زکوٰة کے علاوہ دوسرے صدقات یہاں تک کہ صدقة الفطر بھی غیر مسلم فقیر کو دینا جائز ہے (ہدایہ)
اور دوسری شرط مالک نصاب نہ ہونے کی خود فقیر و مسکین کے معنی سے واضح ہوجاتی ہے، کیونکہ یا تو اس کے پاس کچھ نہ ہوگا، یا کم ازکم مال نصاب کی مقدار سے کم ہوگا، اس لئے ان دونوں مصرفوں کے بعد اور چھ مصارف کا بیان آیا ہے، ان میں پہلا مصرف عاملین صدقہ ہیں۔
تیسرا مصرف الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا، یہاں عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات زکوٰة و عشر وغیرہ لوگوں سے وصول کرکے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں، یہ لوگ چونکہ اپنے تمام اوقات اس خدمت میں خرچ کرتے ہیں، اس لئے ان کی ضروریات کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہے، قرآن کریم کی اس آیت نے مصارف زکوٰة میں ان کا حصہ رکھ کر یہ متعین کردیا کہ انکا حق الخدمت اسی مد زکوٰة سے دیا جائے گا۔
اس میں اصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں سے زکوٰة و صدقات وصول کرنے کا فریضہ براہ راست رسول کریم ﷺ کے سپرد فرمایا ہے، جس کا ذکر اسی سورت میں آگے آنے والی اس آیت میں ہے (آیت) خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً ، یعنی وصول کریں آپ مسلمانوں کے اموال میں سے صد قہ، اس آیت کا مفصل بیان تو آئندہ آئے گا، یہاں یہ بتلانا منظور ہے کہ اس آیت کی رو سے مسلمانوں کے امیر پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ زکوٰة صدقات وصول کرے، اور یہ ظاہر ہے کہ امیر خود اس کام کو پورے ملک میں بغیر اعوان اور مددگاروں کے نہیں کرسکتا، انہی اعوان اور مددگاروں کا ذکر مذکور الصدر آیت میں والْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا کے الفاظ سے کیا گیا ہے۔
انہی آیات کی تعمیل میں رسول کریم ﷺ نے بہت سے صحابہ کرام کو صدقات وصول کرنے کے لئے عامل بنا کر مختلف خطوں میں بھیجا ہے، اور آیت مذکورہ کی ہدایت کے موافق زکوٰة ہی کی حاصل شدہ رقم میں سے ان کو حق الخدمت دیا ہے، ان میں وہ حضرات صحابہ بھی شامل ہیں جو اغنیاء تھے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ کسی غنی یعنی مال دار کے لئے حلال نہیں، بجر پانچ شخصوں کے، ایک وہ شخص جو جہاد کے لئے نکلا ہے اور وہاں اس کے پاس بقدر ضرورت مال نہیں، اگرچہ وہ شخص کہ اگرچہ اس کے پاس مال ہے مگر وہ موجودہ مال سے زیادہ کا مقروض ہے، چوتھے وہ شخص جو صدقہ کا مال کسی غریب مسکین سے پیسے دے کر خرید لے، پانچویں وہ شخص جسکو کسی غریب فقیر نے صدقہ کا حاصل شدہ مال بطور ہدیہ تحفہ پیش کردیا ہو۔
رہا یہ مسئلہ کہ عاملین صدقہ کو اس میں سے کتنی رقم دی جائے سو اس کا حکم یہ ہے کہ ان کی محنت و عمل کی حیثیت کے مطابق دی جائے گی (احکام القرآن جصاص، قرطبی)
البتہ یہ ضروری ہوگا کہ عاملین کی تنخواہیں نصف زکوٰة سے بڑہنے نہ پائیں، اگر زکوٰة کی اصول یابی اتنی کم ہو کہ عاملین کی تنخواہیں دے کر نصف بھی باقی نہیں رہتی تو پھر تنخواہوں میں کمی کی جائے گی، نصف سے زائد صرف نہیں کیا جائے گا (تفسیر مظہری ظہیریہ)
بیان مذکور سے معلوم ہوا کہ عاملین صدقہ کو جو رقم مد زکوٰة سے دی جاتی ہے وہ بحثیت صدقہ نہیں بلکہ ان کی خدمت کا معاوضہ ہے، اسی لئے باوجود غنی اور مال دار ہونے کے بھی وہ اس رقم کے مستحق ہیں، اور زکوٰة سے ان کو دینا جائز ہے، اور مصارف زکوٰة کی آٹھ مدات میں سے صرف ایک یہی مد ایسی ہے جس میں رقم زکوٰة بطور معاوضہ خدمت دی جاتی ہے، اور نہ زکوٰة نام ہی اس عطیہ کا ہے جو غریبوں کو بغیر کسی معاوضہ خدمت کے دیا جائے، اور اگر کسی غریب فقیر کو کوئی خدمت لے کر مال زکوٰة دیا گیا تو زکوٰة ادا نہیں ہوئی۔
اسی لئے یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں، اول یہ کہ مال زکوٰة کو معاوضہ خدمت میں کیسے دیا گیا، دوسرے یہ کہ مال دار کے لئے اصلی حیثیت کو سمجھ لیا جائے، وہ یہ ہے کہ یہ حضرات فقراء کے وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور یہ سب جانتے ہیں کہ وکیل کا قبضہ اصل موکل کے قبضہ کے حکم میں ہوتا ہے، اگر کوئی شخص اپنا قرض وصول کرنے کے لئے کسی کو وکیل مختار بنا دے، اور قرضدار یہ قرض وکیل کو سپرد کردے تو وکیل کا قبضہ ہوتے ہی قرضدار بری ہوجاتا ہے، تو جب رقم زکوٰة عاملین صدقہ نے فقراء وکیل ہونے کی حیثیت سے وصول کرلی تو ان کی زکوٰة ادا ہوگئی، اب یہ پوری رقم ان فقراء کی ملک ہے جن کی طرف سے بطور وکیل انہوں نے وصول کی ہے اب جو رقم بطور حق الخدمت کے ان کو دی جاتی ہے وہ مال داروں کی طرف سے نہیں بلکہ فقراء کی طرف سے ہوئی، اور فقراء کو اس میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اختیار ہے، ان کو یہ بھی حق ہے کہ جب اپنا کام ان لوگوں سے لیتے ہیں تو اپنی رقم میں سے ان کو معاوضہ خدمت دیدیں۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ فقراء نے تو ان کو وکیل مختار بنایا نہیں، یہ ان کے وکیل کیسے بن گئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا سربراہ جس کو امیر کہا جاتا ہے وہ قدرتی طور پر منجانب اللہ پورے ملک کے فقراء غرباء کا وکیل ہوتا ہے، کیونکہ ان سب کی ضروریات کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے، امیر مملکت جس جس کو صدقات وصول یابی پر عامل بنا دے وہ سب ان کے نائب کی حیثیت سے فقراء کے وکیل ہوجاتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوگیا کہ عاملین صدقہ کو جو کچھ دیا گیا وہ در حقیقت زکوٰة نہیں دی گئی، بلکہ زکوٰة جن فقراء کا حق ہے ان کی طرف سے معاوضہ خدمت دیا گیا، جیسے کوئی غریب فقیر کسی کو اپنے مقدمہ کا وکیل بناوے اور اس کا حق الخدمت زکوٰة کے حاصل شدہ مال سے ادا کردے تو یہاں نہ تو دینے والا بطور زکوٰة کے دے رہا ہے اور نہ لینے والا زکوٰة کی حیثیت سے لے رہا ہے۔
فائدہ
تفصیل مذکور سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آجکل جو اسلامی مدارس اور انجمنوں کے مہتمم یا ان کی طرف سے بھیجے ہوئے سفیر صدقات زکوٰة وغیرہ مدارس اور انجمنوں کے لئے وصول کرتے ہیں، ان کا وہ حکم نہیں جو عاملین صدقہ کا اس آیت میں مذکور ہے کہ زکوٰة کی رقم میں سے ان کی تنخواہ دی جاسکے، بلکہ ان کو مدارس اور انجمن کی طرف سے جداگانہ تنخواہ دینا ضروری ہے زکوٰة کی رقم سے ان کی تنخواہ نہیں دی جاسکتی، وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ فقراء کے وکیل نہیں بلکہ اصحاب زکوٰة مال داروں کے وکیل ہیں، ان کی طرف سے مال زکوٰة کو مصرف پر لگانے کا ان کو اختیار دیا گیا ہے، اسی لئے ان کے قبضہ ہوجانے کے بعد بھی زکوٰة اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک یہ حضرات اس کو مصرف پر خرچ نہ کردیں۔
فقراء کا وکیل نہ ہونا اس لئے ظاہر ہے کہ حقیقی طور پر کسی فقیر نے ان کو اپنا وکیل بنایا نہیں، اور امیر المومنین کی ولایت عامہ کی بناء پر جو خود بخود وکالت فقراء حاصل ہوتی ہے وہ بھی ان کو حاصل نہیں، اس لئے بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ ان کو اصحاب زکوٰة کا وکیل قرار دیا جائے اور جب تک یہ اس مال کو مصرف پر خرچ نہ کردیں انکا قبضہ ایسا ہی ہے جیسا کہ زکوٰة کی رقم خود مال والے کے پاس رکھی ہو۔
اس معاملہ میں عام طور پر غفلت برتی جاتی ہے، بہت سے ادارے زکوٰة کا فنڈ وصول کر کے اس کو سالہا سال رکھے رہتے ہیں، اور اصحاب زکوٰة سمجھتے ہیں کہ ہماری زکوٰة ادا ہوگئی، حالانکہ ان کی زکوٰة اس وقت ادا ہوگی جب ان کی رقم مصارف زکوٰة میں صرف ہوجائے۔
اسی طرح بہت سے لوگ ناواقفیت سے ان لوگوں کو عاملین صدقہ کے حکم میں داخل سمجھ کر زکوٰة ہی کی رقم سے ان کی تنخواہ دیتے ہیں، یہ نہ دینے والوں کے لئے جائز ہے نہ لینے والوں کے لئے۔
ایک اور سوال عبادت پر اجرت
یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے اشارات اور احادیث رسول ﷺ کی بہت سی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ کسی عبادت پر اجرت و معاوضہ لینا حرام ہے، مسند احمد کی حدیث میں بروایت عبدالرحمن بن شبل منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایااقراوا القران ولا تاکلوا بہ ”یعنی قرآن پڑھو، مگر اس کو کھانے کا ذریعہ نہ بناؤ۔ اور بعض روایات میں اس معاوضہ کو قطعہ جہنم فرمایا ہے جو قرآن پر لیا جائے، اس کی بناء پر فقہاء امت کا اتفاق ہے کہ طاعات و عبادات پر اجرت لینا جائز نہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ صدقات وصول کرنے کا کام ایک دینی خدمت اور عبادت ہے رسول کریم ﷺ نے اس کو ایک قسم کا جہاد فرمایا ہے، اس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ اس پر بھی کوئی اجرت و معاوضہ لینا حرام ہوتا، حالانکہ قرآن کریم کی اس آیت نے صراحةً اس کو جائز قرار دیا، اور زکوٰة کے آٹھ مصارف میں اس کو داخل فرمایا۔
امام قرطبی اپنی تفسیر میں اس کے متعلق فرمایا کہ جو عبادات فرض یا واجب عین ہیں ان پر اجرت لینا مطلقاً حرام ہے، لیکن جو فرض کفایہ میں ان پر کوئی معاوضہ لینا اسی آیت کی رو سے جائز ہے، فرض کفایہ کے معنی یہ ہیں کہ ایک کام پوری امت یا پورے شہر کے ذمہ فرض کیا گیا ہے، مگر یہ لازم نہیں کہ سب ہی اس کو کریں، اگر بعض لوگ ادا کرلیں تو سب سبکدوش ہوجاتے ہیں، البتہ اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب گنہگار ہوتے ہیں۔
امام قرطبی نے فرمایا کہ اسی آیت سے ثابت ہوا کہ امامت و خطابت کا معاوضہ لینا بھی جائز ہے، کیونکہ وہ بھی واجب علی العین نہیں بلکہ واجب علی الکفایہ ہیں، انہتی۔ اسی طرح تعلیم قرآن و حدیث اور دوسرے دینی علوم کا بھی یہی حال ہے، کہ یہ سب کام پوری امت کے ذمہ فرض کفا یہ ہیں، اگر بعض لوگ کرلیں تو سب سبکدوش ہوجاتے ہیں، اس لئے اگر اس پر کوئی معاوضہ اور تنخواہ لی جائے تو وہ بھی جائز ہے۔
چوتھا مصرف مصارف زکوٰة میں سے مولّفة القلوب ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لئے ان کو صدقات دیئے جاتے تھے، عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان میں تین چار قسم کے لوگ شامل تھے، کچھ مسلمان کچھ غیر مسلم، پھر مسلمانوں میں بعض تو وہ لوگ تھے جو غریب حاجت مند بھی تھے، اور نو مسلم بھی، ان کی دل جوئی اس لئے کی جاتی تھی کہ اسلام پر پختہ ہوجائیں، اور بعض وہ تھے جو مال دار بھی تھے اور مسلمان ہوگئے تھے، مگر ابھی تک ایمان کا رنگ ان کے دلوں میں رچا نہیں تھا، اور بعض وہ لوگ تھے جو خود تو پکے مسلمان تھے مگر ان کی قوم کو ان کے ذریعہ شر سے بچنے کے لئے ان کی دل جوئی کی جاتی تھی، اور بعض وہ تھے جن کے بارے میں یہ تجربہ تھا کہ نہ تبلیغ وتعلیم سے اثر پذیر ہوتے ہیں، نہ جنگ و تشدد سے بلکہ احسان و حسن سلوک سے متاثر ہوتے ہیں، رحمتہ للعالمین ﷺ تو یہ چاہتے تھے کہ خلق خدا کو کفر کی ظلمت سے نکال کر نور ایمان میں لے آئیں، اس کے لئے ہر وہ جائز تدبیر کرتے تھے جس سے یہ لوگ متاثر ہوسکیں، یہ سب قسمیں عام طور پر مولفة القلوب میں داخل سمجہی جاتی ہیں، جن کو صدقات کا چوتھا مصرف اس آیت میں قرار دیا ہے۔
چوتھا مصرف مولفة القلوب میں، ان کے متعلق گذشتہ صفحات میں یہ بتلایا جا چکا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لئے ان کو صدقات سے حصہ دیا جاتا تھا، عام خیال کے مطابق ان میں مسلم وغیر مسلم دونوں طرح کے لوگ تھے، غیر مسلموں کی دل جوئی اسلام کی ترغیب کے لئے اور نو مسلموں کی دل جوئی اسلام پر پختہ کرنے کے لئے کی جاتی تھی، عام طور پر مشہور یہ ہے کہ ان کو رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک خاص علت اور مصلحت کے لئے جس کا ذکر ابھی آچکا ہے صدقات دیئے جاتے تھے، آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جبکہ اسلام کو مادی قوت بھی حاصل ہوگئی اور کفار کے شر سے بچنے یا نو مسلموں کو اسلام پر پختہ کرنے کے لئے اس طرح کی تدبیروں کی ضرورت نہ رہی تو وہ علت اور مصلحت ختم ہوگئی، اس لئے ان کا حصہ بھی ختم ہوگیا جس کو بعض فقہاء نے منسوخ ہوجانے سے تعبیر فرمایا، فاروق اعظم حسن بصری، ابو حنیفہ، مالک بن انس ؓ اجمعین کی طرف یہی قول منسوب ہے۔
اور بہت سے حضرات نے فرمایا کہ مولفة القلوب کا حصہ منسوخ نہیں، بلکہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم کے زمانہ میں اس کو ساقط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت نہ رہنے کی وجہ سے ان کا حصہ ساقط کردیا گیا، آئندہ کسی زمانہ میں پھر ایسی ضرورت پیش آجائے تو پھر دیا جاسکتا ہے، امام زہری، قاضی عبدالوہاب ابن عربی، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے، لیکن تحقیق اور صحیح بات یہ ہے کہ غیر مسلموں کو صدقات وغیرہ سے کسی وقت کسی زمانہ میں حصہ نہیں دیا گیا، اور نہ وہ مولفة القلوب میں داخل ہیں، جن کا ذکر مصارف صدقات میں آیا ہے۔
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں ان سب لوگوں کے نام تفصیل کے ساتھ شمار کئے ہیں جن کی دل جوئی کے لئے رسول کریم ﷺ نے مد صدقات سے حصہ دیا ہے، اور یہ سب شمار کرنے کے بعد فرمایاوبالجملۃ فکلھم مومن ولم یکن فیھم کافر، یعنی خلاصہ یہ ہے کہ مولفة القلوب سب کے سب مسلمان ہی تھے، ان میں کوئی کافر شامل نہیں تھا۔
اسی طرح تفسیر مظہری میں ہےلم یثیت ان النبی ﷺ اعطی احدا من الکفار للایلاف شیئا من الزکوٰة، یعنی یہ بات کسی روایت سے ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کافر کو مال زکوٰة میں سے اس کی دلجوئی کیلئے حصہ دیا ہو، اس کی تائید تفسیر کشاف کی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مصارف صدقات کا بیان یہاں ان کفار منافقین کے جواب میں آیا ہے جو رسول اللہ ﷺ پر تقسیم صدقات کے بارے میں اعتراض کیا کرتے تھے کہ ہم کو صدقات نہیں دیتے، اس آیت میں مصارف صدقات کی تفصیل بیان فرمانے سے مقصد ہے کہ ان کو بتلا دیا جائے کہ کافر کا کوئی حق مال صدقات میں نہیں ہے، اگر مولفة القلوب میں کافر بھی داخل ہوں تو اس جواب کی ضرورت نہ تھی۔
تفسیر مظہری میں اس مغالطہ کو بھی اچھی طرح واضح کردیا ہے جو بعض روایات حدیث کے سبب لوگوں کو پیش آیا ہے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض غیر مسلموں کو کچھ عطیات دیئے ہیں، چناچہ صحیح مسلم اور ترمذی کی روایت میں جو یہ مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صفوان بن امیہ کو کافر ہونے کے زمانے میں کچھ عطیات دیئے، اس کے متعلق امام نووی کے حوالہ سے تحریر فرمایا کہ یہ عطیات زکوٰة کے مال سے نہ تھے، بلکہ غزوہ حنین کے مال غنیمت کا جو خمس بیت المال میں داخل ہوا اس میں سے دیئے گئے، اور یہ ظاہر ہے کہ بیت المال کی اس مد سے مسلم وغیرہ دونوں پر خرچ کرنا باتفاق فقہاء جائز ہے، پھر فرمایا کہ امام بیہقی، ابن سید الناس، امام ابن کثیر وغیرہم سب نے یہی قرار دیا ہے کہ یہ عطاء مال زکوٰة سے نہیں بلکہ خمس غنیمت سے تھی۔
ایک عظیم فائدہ
اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ خود رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں اموال صدقات اگرچہ بیت المال میں جمع کئے جاتے تھے مگر ان کا حساب بالکل جدا تھا، اور بیت المال کی دوسری مدات جیسے خمس غنیمت یا خمس معادن وغیرہ ان کا حساب جدا، اور ہر ایک کے مصارف جدا تھے، جیسا کہ حضرات فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ اسلامی حکومت کے بیت المال میں چار مد علیحدہ رہنی چاہئیں، اور اصل حکم یہ ہے کہ صرف حساب علیحدہ رکھنا نہیں بلکہ ہر ایک مد کا بیت المال الگ ہونا چاہئے تاکہ ہر ایک کو اس کے مصرف میں خرچ کرنے کی پوری احتیاط قائم رہے، البتہ اگر کسی وقت کسی خاص مد میں کمی ہو تو دوسری مد سے بطور قرض لے کر اس پر خرچ کیا جاسکتا ہے یہ مدات بیت المال یہ ہیں
اول خمس غنائمیعنی جو مال کفار سے بذریعہ جنگ حاصل ہو اس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کرکے باقی پانچواں حصہبیت المال کا حق ہے، خمس معادن یعنی مختلف قسم کی کانوں سے نکلنے والی اشیاء میں سے پانچواں حصہ بیت المال کا حق ہے، خمس رکاذیعنی جو قدیم خزانہ کسی زمین سے برآمد ہو اس کا بھی پانچواں حصہ بیت المال کا حق ہے، یہ تینوں قسم کے خمس بیت المال کی ایک ہی مد میں داخل ہیں۔
دوسری مد صدقات ہیں، جس میں مسلمانوں کی زکوٰة، صدقہ الفطر، اور ان کی زمینوں کا عشر داخل ہے۔
تیسری مد خراج اور مال فئی ہے، جس میں غیر مسلموں کی زمینوں سے حاصل شدہ خراج اور ان کا جزیہ اور ان سے حاصل شدہ تجارتی ٹیکس اور وہ تمام اموال داخل ہیں جو غیر مسلموں سے ان کی رضامندی کے ساتھ مصالحانہ طور پر حاصل ہوں۔
چوتھی مد ضوائع کی ہے، جس میں لاوارث مال، لا وارث شخص کی میراث وغیرہ داخل ہیں، ان چار مدات کے مصارف اگرچہ الگ الگ ہیں، لیکن فقراء و مساکین کا حق ان چاروں مدات میں رکھا گیا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی حکومت میں قوم کے اس ضعیف عنصر کو قوی کرنے کا کس قدر اہتمام کیا گیا ہے، جو در حقیقت اسلامی حکومت کا طغرٰی امتیاز ہے ورنہ دنیا کے عام نظاموں میں ایک مخصوص طبقہ ہی بڑہتا رہتا ہے، غریب کو بھرنے کا موقع نہیں ملتا، جس کے ردعمل نے اشتراکیت اور کمیونزم کو جنم دیا، مگر وہ باکل ایک غیر فطری اصول اور بارش سے بھاگ کر پرنالہ کے نیچے کھڑے ہوجانے کے مرادف اور انسانی اخلاق کے لئے سم قاتل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں چار بیت المال چار مدات کے لئے الگ الگ مقرر ہیں اور فقراء و مساکین کا حق چاروں میں رکھا گیا ہے، ان میں سے پہلی تین مدوں کے مصارف خود قرآن کریم نے تفصیل کے ساتھ متعین فرما کر واضح طور پر بیان کردیئے ہیں، پہلی مد یعنی خمس غنائم کے مصارف کا بیان سورة انفال دسویں پارہ کے شروع میں مذکور ہے، اور دوسری مد یعنی صدقات کے مصارف کا بیان سورة توبہ کی مذکور الصدر ساٹھویں آیات میں آیا ہے، جس کی تفصیل اس وقت زیر بحث ہے، اور تیسری مد جس کو اصطلاح میں مال فئی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کا بیان سورة حشر میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے، اسلامی حکومت کی اکثر مدات فوجی اخراجات اور عمال حکومت کی تنخواہیں وغیرہ اسی مد سے خرچ کی جاتی ہیں، چوتھی مد یعنی لاوارث مال رسول کریم ﷺ کی ہدایات اور خلفائے راشدین کے تعامل سے اپاہج محتاجوں اور لاوارث بچوں کے لئے مخصوص ہے۔ (شامی، کتاب الزکوٰة)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرات فقہاء نے بیت المال کی چاروں مدات بالکل الگ الگ رکھنے اور اپنے اپنے معینہ مصارف میں خرچ کرنے کی جو ہدایات دی ہیں، یہ سب قرآنی ارشادات اور رسول کریم ﷺ پھر خلفائے راشدین کے تعامل سے واضح طور پر ثابت ہیں۔
محققین، محد ثین و فقہاء کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مولفة القلوب کا حصہ کسی کافر کو کسی وقت بھی نہیں دیا گیا، نہ رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں اور نہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں، اور جن غیر مسلموں کو دینا ثابت ہے وہ مد صدقات و زکوٰة سے نہیں بلکہ خمس غنیمت میں سے دیا گیا ہے، جس میں سے ہر حاجت مند مسلم و غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے، تو مولفة القلوب صرف مسلم رہ گئے، اور ان میں جو فقراء ہیں ان کا حصہ بدستور باقی ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے، اختلاف صرف اس صورت میں رہ گیا کہ یہ لوگ غنی صاحب نصاب ہوں تو امام شافعی امام احمد کے نزدیک چونکہ تمام مصارف زکوٰة میں فقر و حاجت مندی شرط نہیں، اس لئے وہ مولفة القلوب میں ایسے لوگوں کو بھی داخل کرتے ہیں جو غنی اور صاحب نصاب ہیں، امام اعظم ابوحنیفہ اور مام مالک کے نزدیک عاملین صدقہ کے علاوہ باقی تمام مصارف میں فقر و حاجت مندی شرط ہے، اس لئے مولفة القلوب کا حصہ بھی ان کو اسی شرط کے ساتھ دیا جائے گا کہ وہ فقیر و حاجتمند ہوں جیسے غارمین اور رقاب، ابن سبیل وغیرہ سب میں اسی شرط کے ساتھ ان کو زکوٰة دی جاتی ہے کہ وہ اس جگہ حاجتمند ہوں، گو وہ اپنے مقام میں مال دار ہوں۔
اس تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولفة القلوب کا حصہ ائمہ اربعہ کے نزدیک منسوخ نہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بعض حضرات نے فقراء و مساکین کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں فقر و حاجت مندی کے ساتھ مشروط نہیں کیا، اور بعض نے یہ شرط کی ہے، جن حضرات نے یہ شرط رکھی ہے وہ مولفة القلوب میں بھی صرف انہی لوگوں کو دیتے ہیں جو حاجتمند اور غریب ہوں، بہرحال یہ حصہ قائم اور باقی ہے (تفسیر مظہری)
یہاں تک صدقات کے آٹھ مصارف میں سے چار کا بیان آیا ہے، ان چاروں کا حق حرف لام کے تحت بیان ہوا، لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ ، آگے جن چار مصارف کا ذکر ہے ان میں عنوان بدل کر لام کی جگہ حرف فی استعمال فرمایاوَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ ، زمخشری نے کشاف میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا منظور ہے کہ یہ آخری چار مصرف بہ نسبت پہلے چار کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ حرف فِی ظرفیت کے لئے بولا جاتا ہے، جس کی وجہ سے معنی یہ پیدا ہوتے ہیں کہ صدقات کو ان لوگوں کے اندر رکھ دینا چاہئے، اور ان کے زیادہ مستحق ہونے کی وجہ ان کا زیادہ ضرورت مند ہونا ہے، کیونکہ جو شخص کسی کا مملوک غلام ہے وہ بہ نسبت عام فقراء کے زیادہ تکلیف میں ہے، اسی طرح جو کسی کا قرضدار ہے اور قرضخواہوں کا اس پر تقاضا ہے وہ عام غرباء فقراء سے زیادہ تنگی میں ہے کہ اپنے اخراجات کے فکر سے بھی زیادہ قرضداروں کے قرض کی فکر اس کے ذمہ ہے۔
ان باقی ماندہ چار مصارف میں سب سے پہلے وَفِي الرِّقَابِ کا ذکر فرمایا ہے، رقاب رقبہ کی جمع ہے، اصل میں گردن کو رقبہ کہتے ہیں، عرف میں اس شخص کو رقبہ کہہ دیا جاتا ہے جس کی گردن کسی دوسرے کی غلامی میں مقید ہو۔
اس میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ رقاب سے مراد اس آیت میں کیا ہے ؟ جمہور فقہاء و محدثین اس پر ہیں کہ اس سے مراد وہ غلام ہیں جن کے آقاؤں نے کوئی مقدار مال کی متعین کرکے کہہ دیا ہے کہ اتنا مال کما کر ہمیں دے دو تو تم آزاد ہو جس کو قرآن و سنت کی اصطلاح میں مکاتب کہا جاتا ہے ایسے شخص کو آقا اس کی اجازت دیدیتا ہے کہ وہ تجارت یا مزدوری کے ذریعہ مال کمائے، اور آقا کو لا کر دے، آیت مذکورہ میں رقاب سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کو رقم زکوٰة میں سے حصہ دے کر اس کی گلو خلاصی میں امداد کی جائے۔
یہ قسم غلاموں کی باتفاق مفسرین و فقہاء لفظ وَفِي الرِّقَابِ کی مراد ہے کہ رقم زکوٰة ان کو دے کر ان کی گلو خلاصی میں امداد کی جائے، ان کے علاوہ دوسرے غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا یا ان کے آقاؤں کو رقم زکوٰة دے کر یہ معاہدہ کرلینا کہ وہ ان کو آزاد کردیں گے، اس میں ائمہ فقہاء کا اختلاف ہے، جمہور ائمہ ابوحنیفہ، شافعی، احمد بن حنبل وغیرہ رحمہم اللہ اس کو جائز نہیں سمجہتے، اور حضرت امام مالک بھی ایک روایت میں جمہور کے ساتھ متفق ہیں کہ وَفِي الرِّقَابِ کو صرف مکاتب غلاموں کے ساتھ مخصوص فرماتے ہیں، اور ایک روایت میں امام مالک سے یہ بھی منقول ہے وَفِي الرِّقَاب میں عام غلاموں کو داخل کرکے اس کی بھی اجازت دیتے ہیں کہ رقم زکوٰة سے غلام خرید کر آزاد کئے جائیں (احکام القرآن ابن عربی مالکی)
اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ معارف القرآن جلد سے پڑہیں
Top