Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 77
فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ
فَاَعْقَبَهُمْ : تو اس نے ان کا انجام کار کیا نِفَاقًا : نفاق فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلٰى : تک يَوْمِ : اس روز يَلْقَوْنَهٗ : وہ اسے ملیں گے بِمَآ : کیونکہ اَخْلَفُوا : انہوں نے خلاف کیا اللّٰهَ : اللہ مَا : جو وَعَدُوْهُ : اس سے انہوں نے وعدہ کیا وَبِمَا : اور کیونکہ كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ : وہ جھوٹ بولتے تھے
پھر اس کا اثر رکھ دیا نفاق ان کے دلوں میں جس دن تک کہ وہ اس سے ملیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے خلاف کیا اللہ سے جو وعدہ اس سے کیا تھا اور اس وجہ سے کہ بولتے تھے جھوٹ
(آیت) فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِهِمْ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بد عملی اور بد عہدی کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں نفاق کو اور پختہ کردیا، کہ اب ان کو توبہ کی توفیق ہی نہ ہوگی۔
فائدہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اعمال بد کی نحوست ایسی ہوتی ہے کہ توبہ کی توفیق سلب ہوجاتی ہے، نعوذ با للہ منہ
ابن جریر نے حضرت ابو امامہ کی تفصیلی روایت جو ابھی ذکر کی گئی ہے اس کے آخر میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ثعلبہ کے لئے یا ویح ثعلبہ تین مرتبہ فرمایا تو اس مجلس میں ثعلبہ کے کچھ عزیز و اقارب بھی موجود تھے، یہ سن کر ان میں سے ایک آدمی فورًا سفر کر کے ثعلبہ کے پاس پہونچا، اور اس کو ملامت کی اور بتلایا کہ تمہارے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوگئی ہے، یہ سن کر ثعلبہ گھبرایا، اور مدینہ حاضر ہو کر درخواست کی کہ میرے صدقہ قبول کرلیا جائے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حق تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے، یہ سن کر ثعلبہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو تمہارا اپنا عمل ہے، میں نے تمہیں حکم دیا تم نے اطاعت نہ کی، اب تمہارا صدقہ قبول نہیں ہوسکتا، ثعلبہ ناکام واپس ہوگیا، اور اس کے کچھ دن بعد ہی رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی، اور صدیق اکبر خلیفہ ہوئے تو ثعلبہ صدیق اکبر کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہا کہ میرا صدقہ قبول کرلیجئے، صدیق اکبر نے فرمایا جب رسول اللہ ﷺ نے قبول نہیں کیا تو میں کیسے قبول کرسکتا ہوں۔
پھر صدیق اکبر کی وفات کے بعد ثعلبہ فاروق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور وہی درخواست کی اور وہی جواب ملا جو صدیق اکبر نے دیا تھا، پھر حضرت عثمان غنی کے زمانہ خلافت میں ان سے درخواست کی انہوں نے بھی انکار کردیا، اور خلافت عثمان کے زمانہ میں ثعلبہ مرگیا، (نعوذ باللہ من سیئات الاعمال) (مظہری)
مسئلہیہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ثعلبہ تائب ہو کر حاضر ہوگیا تو اس کی توبہ کیوں قبول نہ کی گئی، وجہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا تھا کہ یہ اب بھی اخلاص کے ساتھ توبہ نہیں کر رہا ہے، اس کے دل میں نفاق موجود ہے، محض وقتی مصلحت سے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر راضی کرنا چاہتا ہے، اس لئے قبول نہیں، اور جب آنحضرت ﷺ نے اس کو منافق قرار دے دیاتو بعد کے خلفاء کو اس کا صدقہ قبول کرنے کا حق نہیں رہا، کیونکہ زکوٰة کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ کے بعد چونکہ کسی شخص کے دل کا نفاق قطعی طور پر کسی کو معلوم نہیں ہوسکتا، اس لئے آئندہ کا حکم یہی ہے کہ جو شخص توبہ کرلے اور اسلام و ایمان کا اعتراف کرلے اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے خواہ اس کے دل میں کچھ بھی ہو (بیان القرآن)۔
Top