Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 8
كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ١ۚ وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ
كَيْفَ : کیسے وَاِنْ : اور اگر يَّظْهَرُوْا : وہ غالب آجائیں عَلَيْكُمْ : تم پر لَا يَرْقُبُوْا : نہ لحاظ کریں فِيْكُمْ : تمہاری اِلًّا : قرابت وَّ : اور لَا ذِمَّةً : نہ عہد يُرْضُوْنَكُمْ : وہ تمہیں راضی کردیتے ہیں بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ (جمع) سے وَتَاْبٰي : لیکن نہیں مانتے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
کیونکر رہے صلح اور اگر وہ تم پر قابو پائیں تو نہ لحاظ کریں تمہارے قرابت کا اور نہ عہد کا، تم کو راضی کردیتے ہیں اپنے منہ کی بات سے اور ان کے دل نہیں مانتے، اور اکثر ان میں بدعہد ہیں۔
اس کے بعد عہد شکنی کرنے والوں کا جہاں یہ حال بیان فرمایا کہ ان لوگوں کے دلوں میں شروع ہی سے خیانت تھی وفائے عہد کا ارادہ ہی نہ تھا یہاں بھی اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ فرما کر اشارہ کردیا کہ ان میں بھی سب کا یہ حال نہیں بعض شریف لوگ ایسے بھی ہیں جو عہد پر قائم رہنا چاہتے تھے مگر دوسروں کے سامنے ان کی بات نہ چلی۔
یہ وہی مضمون ہے جس کی ہدایت قرآن کریم نے دوسری جگہ صاف لفظوں میں اس طرح دی ہے (آیت) لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ یعنی کسی قوم کی عداوت تمہیں اس پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کو چھوڑ بیٹھو۔
اس کے بعد نویں آیت میں ان غدار مشرکین کی غداری کی علت اور ان کے مرض کا سبب بیان فرما کر ان کو بھی ایک ہدایت نامہ دے دیا کہ اگر یہ غور کریں تو اپنی اصلاح کرلیں اور عام مسلمانوں کو بھی متنبہ کردیا کہ جس سبب سے یہ لوگ غدر و خیانت میں مبتلا ہوئے اس سبب سے پورے طور پر پرہیز کو اپنا شعار بنالیں۔ اور وہ سبب ہے حب دنیا کہ دنیا کے مال و متاع کی محبت نے ان کو اندھا کردیا ہے تھوڑے سے پیسوں کے بدلہ میں اللہ کی آیات اور اپنے ایمان کو بیچ ڈالتے ہیں۔ اور ان کا یہ کردار نہایت برا ہے۔
دسویں آیت میں انھیں لوگوں کی انتہائی کجروی کا یہ بیان ہے (آیت) لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤ ْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ ان لوگوں نے عہد کرنے والے مسلمانوں سے غداری کی اور ان کی قرابت اور عہد و پیمان کو پیچھے ڈال دیا بلکہ ان کا حال یہ ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں نہ یہ قرابت کی رعایت کرنے والے ہیں نہ کسی عہد و پیمان کی۔
مشرکین کے مذکورہ حالات کا طبعی تقاضا یہ ہوسکتا تھا کہ مسلمان ان سے ہمیشہ کے لئے بیزار ہوجائیں۔ اور کسی حالت میں بھی ان کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔ اسی لئے قرآنی عدل و انصاف نے گیا رھویں آیت میں یہ ہدایت دے دی۔
Top