ووضعنا عنک وزرک الذی انقص ظہرک وزر کے لفظی معنے بوجھ کے ہیں اور نقض ظہر کے لفظیم عنے کم رتوڑ دینے یعنی کمر کو جھکا دینے کے ہیں جیسا کوئی بڑا بوجھ انسان پر لاد دیا جائے تو اس کی کمر جھک جاتی ہے، اس آیت میں ارشاد یہ ہے کہ وہ بوجھ جس نے آپ کی کمر جھکا دی تھی ہم نے اس کو آپ سے ہٹا دیا۔ وہ بوجھ کیا تھا اس کی ایک تفسیر تو وہ ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر میں آچکی ہے کہ اس سے وہ جائز اور مباح کام ہیں جن کو بعض اوقات رسول اللہ ﷺ نے قرین حکمت و مصلحت سمجھ کر اختیار کرلیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مصلحت کیخلاف یا خلاف اولیٰ تھے رسول اللہ ﷺ کو اپنی علوشان اور تقریب الٰہی میں خاص مقام حاصل ہونے کی بناء پر ایسی چیزوں پر بھی سخت رنج و ملال اور صدمہ ہوتا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس آیت میں بشارت سنا کر وہ بوجھ آپ سے ہٹا دیا کہ ایسی چیزوں پر آپ سے مواخذہ نہ ہوگا۔
اور بعض حضرات مفسرین نے وزر یعنی بوجھ کی مراد اس جگہ یہ لکھی ہے کہ ابتداء نبوت میں وحی کا اثر بھی آپ پر شدید ہوتا تھا اور اس میں آپ پر جو ذمہ داری ساری دنیا میں کلمہ حق پھیلانے اور کفر و شرک کو مٹا کر خلق خدا کو توحید پر جمع کرنے کی ڈالی گئی تھی اور اس سب کام میں حکم یہ تھا کہ فاستقم کما امرت یعنی آپ امر الٰہی کے مطابق استقامت پر رہیں جس میں کسی طرف جھکاؤ نہ ہو، اس کا بار عظیم رسول اللہ ﷺ محسوس فرماتے تھے اور بعض روایات حدیث میں آی ہے کہ آپ کی لحیہ مبارک میں کچھ سفید بال آگئے تو آپ نے فرمایا کہ اس آیت فاستقم کما امرت نے بوڑھا کردیا۔
یہ وہ بوجھ تھا جس کو آپ کے قلب سے ہٹا دینے کی بشارت اس آیت میں دی گئی ہے اور اس کے ہٹا دینے کی صورت اگلی آیات میں یہ آئی ہے کہ آپ کی ہر مشکل کے بعد آسانی ہونیوالی ہے حق تعالیٰ نے شرح صدر کے ذریعہ آپ کا حوصلہ اتنا بنلد فرما دیا کہ یہ سب مشکلات آسان نظر آنے لگیں اور وہ بوجھ بوجھ نہ رہا، واللہ اعلم