Taiseer-ul-Quran - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
(اے نبی) آپ انہیں اس شخص 177 کا حال سنائیے جسے ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں لیکن وہ ان (کی پابندی) سے نکل بھاگا۔ پھر شیطان اس کے پیچھے پڑگیا۔ چناچہ وہ گمراہ ہوگیا
177 دنیا اور خواہشات نفس کے پیچھے پڑنے والے لوگوں کی مثال :۔ اس شخص کا نام نہ قرآن میں مذکور ہے اور نہ احادیث میں اور جو مفسرین کے اقوال ہیں وہ بھی مختلف ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کا طریق بیان ایسا ہے کہ عموماً کسی برے شخص کا نام لے کر اسے بدنام نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اس کی خصلت کو بیان کردیا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سے بچ جائیں اور یہ بات انتہائی اخلاقی بلندی کی دلیل ہے کہ کسی کو بدنام بھی نہ کیا جائے اور اصل مقصد بھی حاصل ہوجائے اور اس کی مثال ہر اس شخص پر صادق آسکتی ہے جو ایسی صفات رکھتا ہو۔ یہ شخص آیات الٰہی کا عالم تھا باعمل اور مستجاب الدعوات تھا اور لوگوں میں اس کے زہد و اتقاء کی شہرت بھی تھی چند لوگوں نے اس کے پاس آ کر ایک ایسی دعا کی درخواست کی جو شرعاً ناجائز تھی پہلے تو اس نے ایسی ناجائز دعا کرنے سے انکار کردیا لیکن جب ان لوگوں نے اسے بہت سے مال و دولت کا لالچ دیا تو تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ اس ناجائز کام پر آمادہ ہوگیا اس طرح اسے دنیوی فائدہ تو حاصل ہوگیا لیکن جس مقام بلند پر وہ جا رہا تھا اور آگے جانے کا اردہ رکھتا تھا اس سے گرگیا ۔ ایک دفعہ جب اس پر شیطان کا داؤ چل گیا تو آگے شیطان کا کام نسبتاً آسان تھا۔ چناچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ محض دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کا پورا نافرمان بن گیا اور اپنے ارفع مقام سے گرتا گرتا زمین کی انتہائی پستی تک پہنچ گیا اس شخص یا اس جیسے شخص کی مثال اللہ تعالیٰ نے اس کتے سے دی ہے جس کی حرص اور لالچ کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کی طرف پتھر پھینکے تو بھی یہی سمجھتا ہے کہ شاید اس نے کوئی ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا پھینکا ہوگا۔ پھر وہ اسے نوچتا اور ایک بار ضرور منہ میں لیتا ہے اس کی زبان ہر وقت باہر نکلی اور رال ٹپکتی رہتی ہے اور ہر چیز کو اس لیے سونگھنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید کہیں سے کھانے کی بو پا سکے اس کی حرص و آز کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اسے کھانے کے لیے کہیں سے مردار پڑا مل جائے اور وہ اس کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تو بھی اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا کتا اس کے ساتھ اس مردار کے کھانے میں شریک نہ ہو اور یہ مثال ان دنیا کے کتوں پر راس آتی ہے جو اپنی خواہش اور دنیوی مفادات کی خاطر اپنی اچھی سے اچھی قدروں کو قربان کردینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
Top