Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tahrim : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ : بچاؤ اپنے آپ کو وَاَهْلِيْكُمْ : اور اپنے گھروالوں کو نَارًا : آگ سے وَّقُوْدُهَا النَّاسُ : ایندھن اس کا لوگ ہوں گے وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر عَلَيْهَا مَلٰٓئِكَةٌ : س پر فرشتے ہیں غِلَاظٌ : سخت دل شِدَادٌ : زور آور۔ مضبوط لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ : نہیں وہ نافرمانی کرتے اللہ کی مَآ اَمَرَهُمْ : جو اس نے حکم دیا ان کو وَيَفْعَلُوْنَ : اور وہ کرتے ہیں مَا : وہ جو يُؤْمَرُوْنَ : وہ حکم دئیے جاتے ہیں
مومنو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش (جہنم) سے بچاو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر ہیں) جو ارشاد خدا انکو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں
6۔ 7۔ ہر ایمان دار آدمی اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے یوں بچا سکتا ہے کہ جن باتوں کے بجا لانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے ان کے بجا لانے کی اور جن سے منع فرمایا ہے ان سے باز رہنے کی خود بھی کوشش کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کرتا رہے ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ ایسے فرائض ہیں جن کے ادا کرنے کا وقت سال میں یا عمر میں ایک دفعہ آتا ہے نماز ایک ایسا فرض ہے کہ دن رات میں پانچ وقت ہے اس لئے گھر والوں کو اس کی خاص تاکید رکھنے کا حکم سورة طہ کی آیت وامر ھلک بالصلوۃ میں گزر چکا ہے یہ تو نماز کا دنیا میں اہتمام ہوا کہ قرآن اور حدیث میں جگہ جگہ اس کا ذکر ہے عقبیٰ میں بھی باقی کے سب فرائض سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ چناچہ مسند امام 1 ؎ احمد اور سنن اربعہ میں معتبر سند سے ابوہریرہ کی حدیث میں اس کا ذکر ہے اسی واسطے مسند امام احمد اور ابو داؤود 2 ؎ وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان میں ہے کہ سات برس کے لڑکے کو نماز کی زبانی تاکید کی جائے اور دس برس کے لڑکے کو مار پیٹ کر نماز پڑھائی جائے اس روایت کے چند طریقے ہیں اس لئے ایک کو دوسرے سے تقویت حاصل ہو کر یہ روایت قابل اعتبار ہے اگرچہ دس برس کے لڑکے یا لڑکی پر نماز فرض نہیں ہے لیکن یہ تاکید اس لئے ہے کہ بالغ ہونے کے بعد مسلمان کی اولاد کو نماز کی عادت رہے اکثر سلف کے قول کے موافق دوزخ کا ایندھن گندھک کے ایک قسم کے پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہے اوسط طبرانی میں ناقابل اعتراض سند سے حضرت عمر ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخ پر جو فرشتے تعینات ہیں اگر ان میں سے ایک فرشتہ بھی زمین پر آجائے تو اس کی خوفناک صورت دیکھ کر تمام دنیا کے لوگ مرجائیں ‘ حدیث کا یہ ٹکڑا غلاظ شداد کی گویا تفسیر ہے۔ دنیا کے جیل خانے میں جیل کے داروغہ یا نگہبان کبھی بعض قیدیوں سے مل جاتے ہیں اور ان قیدیوں کی طرح طرح سے رعایت کرنے لگتے ہیں اس لئے فرمایا کہ دوزخ کے درواغہ اور نگہبانوں کا یہ حال نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے پورے فرمانبردار ہیں اس واسطے وہ اللہ کے حکم کی پوری تعمیل کریں گے صحیح مسلم کی انس بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے 3 ؎ کہ قیامت کے دن بعض گناہ گار اپنے گناہوں کے اقبال کرنے میں پہلے پہل طرح طرح کے عذر کریں گے آخر اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر سکوت کی مہر لگا کر ان کے ہاتھ پیروں کو گواہی کے ادا کرنے کا حکم دے گا اور ایسے لوگوں کے ہاتھ پیر ان کے سب عملوں کی شہادت ادا کریں گے اور پھر ان لوگوں کا کوئی عذر نہ سنا جائے گا غرض ان آیتوں میں جس وقت کے عذر کے نہ سنے جانے کا ذکر ہے اس وقت کی یہ حدیث تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ نافرمان لوگوں پہلے عذر داری کا موقع دیا جائے گا اور آخری شہادت پر فیصلہ ہو کر اس طرح وہ فیصلہ آخر ان لوگوں کو سنا دیا جائے گا نیک و بد سے ایک طرح کا برتاؤکرنا بڑی ناانصافی ہے اس لئے اے نافرمان لوگو تمہارے حق میں منصفانہ فیصلہ یہی ہے کہ تم اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ اوپر صحیح حدیثوں کے حوالہ سے یہ گزر چکا ہے کہ دوزخ کے جیل خانہ کی سزا کے بعد جن گناہ گاروں کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہوگا ان کی سزا حسب حیثیت جرم میعادی ہوگی جس میعاد کے گزر جانے کے بعد پھر وہ دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کئے جائیں گے ہاں اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک ٹھہرانے والے لوگ بغاوت کے جرم کے مجرم ہیں اس واسطے ان کی سزا اس فیصلہ میں دائم الجس قرار پائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ایسے لوگوں کے حق میں یہی منصفانہ وعدہ ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔ (1 ؎ مشکوٰۃ شریف باب الصلوٰۃ فی التطوع فصل ثانی ص 117۔ ) (2 ؎ ابو داؤود متی یومر الفلاہ بالصلوٰۃ ج 1۔ ) (3 ؎ صحیح مسلم کتاب الزھد ص 409 ج 2۔ )
Top