Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 54
اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ١ؕ زُیِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : یہ جو النَّسِيْٓءُ : مہینے کا ہٹا دینا زِيَادَةٌ : اضافہ فِي الْكُفْرِ : کفر میں يُضَلُّ : گمراہ ہوتے ہیں بِهِ : اس میں الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) يُحِلُّوْنَهٗ : وہ اس کو حلال کرتے ہیں عَامًا : ایک سال وَّيُحَرِّمُوْنَهٗ : اور اسے حرام کرلیتے ہیں عَامًا : ایک سال لِّيُوَاطِئُوْا : تاکہ وہ پوری کرلیں عِدَّةَ : گنتی مَا : جو حَرَّمَ : حرام کیا اللّٰهُ : اللہ فَيُحِلُّوْا : تو وہ حلال کرتے ہیں مَا حَرَّمَ : جو حرام کیا اللّٰهُ : اللہ زُيِّنَ : مزین کردئیے گئے لَهُمْ : انہیں سُوْٓءُ : برے اَعْمَالِهِمْ : ان کے اعمال وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یا پھر اللہ نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو کچھ عطا فرمایا ہے اس کا انہیں حسد ہے ؟ اگر یہی بات ہے تو ہم نے خاندان ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی تھی اور ساتھ ہی بڑی بھاری سلطنت بھی عطا فرمائی تھی
الٰہی فیصلے ایسے فیصلے نہیں ہیں جن کو دنیا کے حاسد روک لیں : حسد کرنے والوں کو یہ بات نہیں بھولنی چائے کہ حاسد ہمیشہ اپنا نقصان کرتا ہے جس پر حسد کیا جاتا ہے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اور یہ اتنا بڑا پکا اصول ہے کہ تم ایک ایک حاسد کا تجزیہ کر دیکھو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ نقصان میں ہمیشہ وہی رہے جنہوں نے حسد کیا ۔ ہاں ! اگر حسد دونوں طرف سے شروع ہوجائے تو یہ دوسری بات ہے اس لئے جس کا حسد کیا جائے اس کو یہ یقین کرنا چاہئے کہ حاسدین کا اپنا نقصان ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں مشرکین مکہ کی ہلاکت کا باعث بھی ان کا حسد ہی تھا اور یہود و نصاریٰ کی ہلاکت کا باعث بھی وہی ۔ کیونکہ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی کریم ﷺ کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں بھی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل و شرف ماننا پڑتا تھا اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کیلئے انسان مشکال ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے۔ اس پر پیچھے فرمایا گیا کہ جن لوگوں کی بخیلی کا یہ حال ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے انہیں اگر کہیں اللہ نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کردہ ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے۔ اس مضمون کو سورة بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا کہ : ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہو کہ کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔ “ (بنی اسرائیل : 100:17) نبی اعظم و آخر ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ” رَحْمَتًہ لِلْعٰلَمِیْن “ کا خطاب عطا فرمایا کیوں ؟ اس لئے کہ آپ ﷺ فی الواقع تمام جہانوں کے لئے رحمت تھے کہ آپ ﷺ میں ہر وہ خوبی موجود تھی جو سابقین انیائے کرام میں سے کسی میں کوئی اور کسی میں کوئی تھی کوئی نبی کسی فضتلئ میں زیادہ تھا اور کوئی سی میں لیکن رسول اللہ ﷺ کی ذلت ہی وہ ذات تھی جس میں ہر طرح کی خوبیاں بیک وقت موجود تھیں۔ اس کو کسی نے اس طرح ادا کیا ہے کہ : آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری آل ابراہیم میں یہود و نصاریٰ بھی داخل ہیں لیکن اس جگہ آل ابراہیم مراد صرف مسلمان ہی لہئے جاسکتے ہیں سلئے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے خاص کرلیا ہے ان کا سارا فخر بنی اسرائیل ہی کے ناطے سے تھا اگر وہ آل ابراہیم کا نام لیتے تو اس طرح بنی اسماعیل بھی اس میں شمار ہوجاتے کیونکہ وہ بھی آل ابراہیم ہی ہیں اور مسلمان باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل بھی آل ابراہیم میں اپنا امتیازی نشان آل ابراہیم کی وجہ سے رکھتے ہیں گویا اس طرح یہ بات خوبخود واضح ہوگئی کہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کے مقابلہ میں مسلمان ایک وسعع المظرف قوم تھے لیکن افسوس کہ آج ان لوگوں نے اپنا یہ قومی امتیاز بھی ختم کردیا اور وسیع الظرف ہونتے کی بجائے تنگ ظرف ہو کر رہ گئے۔ کیونکہ گرو بندی اور خصوصاً مذہبی گروہ بندی اس تنگ نظری کا نتیجہ ہے۔ کوئی قوم جتنے گروہوں میں تقسیم ہوتی جائے گی اتنی ہی وہ تنگ نظر ہوگی اور گروہی تقسیم سے جتنا کوئی قوم دور رہے گی اتنی وسیع الظرف کہلائے گی۔ بہر حال اس جگہ اللہ کا فضل جس چیز کو قرار دیا گیا وہ کیا ہے ابراہیم (علیہ السلام) کے لوگوں کو کتاب و حکمت عطا کرنا اور ساتھ ایک ملک عظیم کی پیش گوئی بھی کی جو گویا کتاب و حکمت ہی کا ثمرہ ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ درخت جتنا اچھا اور اس کی نگرانی و حفاظت جتنی بہتر ہوگی اتنا ہی اس کا پھل بہتر ہوگا۔ اس طرح جتنی کتاب و حکمت کی حفاظت ہوگی اتنا ہی اس کا ثمرہ بھی بڑا ہوگا۔ جب کتاب و حکمت کا ثمرہ ” ملک عظیم “ ہے تو اس ملک عظیم کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کردینا کتاب و حکمت سے دوری ہی کا دوسرا نام ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو ” ملک عظیم “ عطا فرمایا تھا آج اس کی بیسیوں حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا گیا اور پھر ان ہی کا ہر ایک حصہ دوسرے حصہ سے جس طرح پیکار جنگ ہے آج کسی سے پوشیدہ نہیں اور پھر اس کا جو نتیجہ ہے وہ بھی سب ا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ کاش کہ آج بھی مسلمان مسلمان ہوجائیں ؟ اور یہ تب ہی وہ سکتا ہے جب مسلمانوں کی سوچ ایک ہوگی۔ ان کا دفاع ایک ہوگا۔ وہ سب ایک جسم کے کے مختلف اعضاء ہونے کے باوجود ایک جسم و جان ہوں گے۔ ان کی آنکھیں آنکھوں کا کام کریں گی اور ان کا دماغ اپنا کام سنبھال لے گا اور ان کے ہاتھ وہی کام کریں گے جو ہاتھوں کتے کرنے کا ہے اور یہی فطرۃ اللہ ہے جس کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کی اس فطرۃ کو تبدیل نہ کرو اگر تم نے ایسا کیا تو دنیا میں ذلیل و خوار ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اسے اللہ ! مسلمانوں کے بر سر اقتدار لوگوں کو اپنے اس قانون کے مطابق سوچنے کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ ! ہماری دعا قبول فرما۔
Top