Maarif-ul-Quran - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر خدا لوگوں کی برائی میں جلدی کرتا جس طرح وہ طلب خیر میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی (عمر کی) میعاد پوری ہوچکی ہوتی۔ سو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کو توقع نہیں انہیں ہم چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بہکتے رہیں۔
منکرین نبوت کے شبہ کا جواب قال اللہ تعالی۔ ولو یعجل اللہ للناس الشر۔۔۔ الی۔۔۔ فی طغیانھم یعمہون (ربط): اس سورت کا آغاز منکرین نبوت کے شبہات کے جوابات سے ہوا ہے چناچہ منکرین نبوت کے ایک شبہ کا جواب شروع سورت میں ہوچکا ہے اب ان آیات میں ان کے ایک اور شبہ کا جواب دیتے ہیں کہ کفار اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ اگر محمد ﷺ خدا کے سچے نبی ہیں تو ان کی مخالفت کرنے پر عذاب کیوں نہیں آتا اور ہم پر آسمان سے پتھر کیوں نہیں برستے۔ اور ہم ہلاک کیوں نہیں کردئیے جاتے لہذا حق سبحانہ ان کے اس شبہ کا جواب ارشاد فرماتے ہیں کہ منکرین اور مخالفین پر فورا عذاب نازل کرنا ہماری حکمت اور حمت کے خلاف ہے۔ ہم جیسا لوگوں پر رحمت اور نعمت نازل کرنے میں جلدی کرتے ہیں اگر ایسے ہی ان کے ہلاک کرنے میں جلدی کریں تو کام ہی تمام ہوجائے۔ اللہ کی حکمت اور رحمت یہی ہے کہ ان کے ہلاک کرنے میں جلدی نہ کی جائے ویسے خدا تعالیٰ کو ان کے پکڑنے پر ہر وقت قدرت ہے۔ وہ حلیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے۔ شاید سنبھل جائیں۔ اور حق کو قبول کرلیں یہ اس کا فضل ہے کہ وہ شر کی دعا جلدی قبول نہیں کرتا نیز اس سے اہل ایمان کو ادب سکھانا ہے کہ شر کے مانگنے میں جلدی نہ کریں۔ (ربط دیگر): کہ گزشتہ آیات میں آں حضرت ﷺ کی نبوت و رسالت پر کفار مکہ کے استعجاب کو دفع فرمایا۔ اب ان آیات میں ان کے دوسرے تعجب کو دفع کرتے ہیں وہ اس بات پر تعجب کرتے تھے کہ باوجود ہماری مخالفت کے ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ جواب یہ ہے کہ وہ حلیم کریم ہے فور انہیں پکڑتا بلکہ مہلت دیتا ہے۔ نہ گردن کشاں را بگیر بفور نہ عذر آوراں را براند بحور (ربط دیگر): گزشتہ آیات یعنی ان الذین لا یرجون لقاءنا الخ میں ان کی غفلت اور جہالت اور حماقت کو بیان کرتے ہیں وہ یہ کہ نزول عذاب کے بارے میں عجلت کے خواہاں ہیں جیسا کہ سورة ص میں ہے وقالو ربنا عجل لنا قطعنا قبل یوم الحساب چناچہ فرماتے ہیں کہ اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر برائی پہنچانے اور سختی کرنے میں جلدی کرتا اور نادانوں کی خواہش کے مطابق ان کی بد دعا قبول کرنے میں اور ان کی بداعمالیوں کی سزا میں جلدی کرتا جیسا کہ یہ لوگ دنیاوی فوائد کے حاصل کرنے میں دعائے خیر کے قبول ہونے میں جلدی کرتے ہیں تو البتہ کبھی کی ان کی موت آچکی ہوتی اور سب مرچکے ہوتے اور ان کا نام ونشان بھی نہ رہتا لیکن ہمارا حلم اور ہماری حکمت جلد بازی کی مقتضی نہیں۔ پس اس لیے کہ ہم ان لوگوں کو جن کو ہمارے سامنے پیش ہونے کی نہ امید ہے اور نہ ڈر ہے۔ ان کو ان کے حال پر بلا عذاب کے ان کی سر کشی اور بےراہی چھوڑ دیتے ہیں کہ بھٹکتے پھریں تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے یعنی ایسے سرکشوں کو مہلت دینا اور نہ پکڑنا بطور استدارج کے ہے کہ اللہ کی حجت ان پر پوری ہوجائے اور عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حلم اور اپنے لطرف وکرم سے ان نادانوں کی بد دعا قبول کرنے میں جلدی نہیں کرتا اور جو لوگ بعث اور جزا وسزا کے منکر ہیں وہ عذاب نہ ہونے سے یہ نہ سمجھیں کہ وہ حق پر ہیں بلکہ یہ سمجھیں کہ یہ مہلت ان کے حق میں استدراج اور خذلان ہے اور ایک قسم کی رحمت بھی ہے کہ فورا نہیں پکڑلیا۔ انسان کی طبعی کمزور اور اس کی ناسپاسی اور احسان فراموشی قال اللہ تعالی۔ واذا مس الانسان الضر دعانا۔۔۔ الی۔۔۔ ماکانوا یعملون۔ (ربط): حق تعالیٰ نے کفار پر نبی کریم ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے کبھی کچھ تکلیفیں نازل کیں تاکہ متنبہ ہوجائیں اور سنبھل جائیں مگر ان کا حال یہ ہوا کہ جب مصیبت نے ان کو آپکڑا تو اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ اور اپنے بتوں کو بھول گئے بلکہ ان کو چھوڑ بیٹھے۔ مصیبت کے ایک تازیانے سمجھا دیا کہ شرک سراسر باطل ہے پھر خدا تعالیٰ نے جب ان کی تکلیف دور کردی تو پھر خدا کو بالکل بھول گئے۔ اس آیت سے مقصود انسان کی بےصبری اور اس کے جزع وفزع کا حال بیان کرنا ہے کہ انسان بڑا ہی بےصبرا اور بڑا ہی ناشکرا ہے ذرا سی مصبت میں گھبرا جاتا ہے اور ذرا سی راحت ونعمت میں اترانے لگتا ہے اور منعم حقیقی کو بھول جاتا ہے۔ یہ آیت اگرچہ کفار کے بارے میں نازل ہوئی مگر جس حالت کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے وہ اہل کفر کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ بہت سے مسلمان بھی اس میں مبتلا ہیں سو جاننے چاہیے کہ حالت ضراء میں صبر اور رضا بالقضاء لازم ہے اور حالت سراء میں حمد وشکر اور ثناء لازم ہے ہر حالت کے احکام الگ الگ ہیں۔ (ربط دیگر): یہ کہ گزشتہ آیت میں کفار کی بےباکی اور سرکشی کو بیان کیا تھا کہ یہ بیباک خدا تعالیٰ کی معصیت کر کے سوال کرتے ہیں کہ خدا اپنے مجرموں کو فورا کیوں نہیں پکڑتا اب اس آیت میں یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان اپنی بےباکی سے خود عذاب طلب کرتا ہے اور زبان سے برائی مانگتا ہے مگر اتنا کمزور اور بودا ہے کہ جہاں ذرا تکلیف پہنچی گھبراکر ہمیں پکارنا شروع کردیا۔ ذرا ایک مصیبت آئی تو غرور کا سارا نشہ کافور ہوا۔ (ربط دیگر): یہ کہ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا معاملہ اور برتاؤ انسان کے ساتھ بیان کیا اب اس آیت میں یہ بتلاتے ہیں کہ انسان کا معاملہ اور برتاؤ ہمارے ساتھ کیسا ہے نیز یہ بتلانا ہے کہ ان کا استعجال عذاب یعنی نزول عذاب کی طلب، طلب کا ذت تھی ذرا سی تکلیف پہنچی تو اسی وقت بارگاہ خداوندی میں عجز وزاری شروع کردی۔ چناچہ فرماتے ہیں اور انسان کا عجب حال یہ ہے کہ جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہم کو کروٹ پر لیٹا ہوا یا بیٹھا ہوا یا کھڑا ہوا یعنی جس حالت میں بھی ہو اس تکلیف کے دور کرنے کے لیے ہم کو پکارتا رہت ا ہے۔ پس جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ بدستور اپنے پہلے طریق کفر اور غفلت پر چل دیتا ہے گویا کہ اس نے ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ تکلیف اور رنج کے وقت کچھ دل نرم ہوجاتا ہے اور ہماری طرف جھک جاتا ہے اور جب تکلیف دور ہوجاتی ہے تو اپنی اسی قدیم شق اور اور غفلت کی طرف لوٹ جاتا ہے اور جس تکلیف اور مصیبت کے وقت ہم کو پکارتا ہے وہ بھی بھول جاتا ہے۔ اسی طرح آراستہ کردئیے گئے۔ حد سے گزرنے والوں کے لیے ان کے اعمال۔ جو لوگ حد سے نکل گئے ان کو اپنے برے اعمال اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ مقصود آیت یہ ہے کہ کافر انسان نزول بلا کے وقت بےصبرا ہے اور حصول نعمت کے وقت ناشکرا ہے۔ تکلیف کے وقت اسے خدا یاد آتا ہے اور راحت کے وقت خدا کو بھول جاتا ہے اور یہ اس کے بےایمانی کی دلیل ہے اور مومن کامل وہ ہے جو کسی وقت خدا کو نہ بھولے۔ بلا اور مصیبت میں صابر رہے اور راحت ونعمت میں شاکر رہے ایک حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے بندے تو مجھے اپنی راحت میں یاد رکھ میں تجھے تیری مصیبت میں یاد رکھوں گا۔
Top