Fi-Zilal-al-Quran - Yunus : 92
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۠   ۧ
فَالْيَوْمَ : سو آج نُنَجِّيْكَ : ہم تجھے بچا دیں گے بِبَدَنِكَ : تیرے بدن سے لِتَكُوْنَ : تاکہ تو رہے لِمَنْ : ان کے لیے جو خَلْفَكَ : تیرے بعد آئیں اٰيَةً : ایک نشانی وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ النَّاسِ : لوگوں میں سے عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری نشانیاں لَغٰفِلُوْنَ : غافل ہیں
اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ بعد کی نسلوں کے لئے نشان عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ''۔
فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک ایۃ پس آج کسی اونچے ٹیلہ پر ہم تیرے بدن کو ڈال دیں گے (کہ جسم کو مچھلیاں نہ کھا سکیں اور بدن اپنی شکل کے ساتھ قائم رہے ) تاکہ تو اپنے پیچھے آنے والوں کیلئے عبرت بن جائے۔ نُنَجِّیْ نجوۃ سے مشتق ہے۔ نجوۃ کا معنی ہے اونچی جگہ۔ یا یہ مطلب ہے کہ پانی کے جس قعر میں تیری قوم غرق ہوگئی (اور ان کے بدن بھی تہہ نشین ہوگئے) ہم ان کی طرح تیرے جسم کو پانی کے اندر نہیں داخل کریں گے بلکہ پانی کے اوپر ترائیں گے۔ ببدنک یعنی بےجان لاشہ ‘ یا مکمل جسم ‘ یا برہنہ جسم۔ یا ببدنک سے مراد یہ ہے کہ تجھے تیرے کرتہ سمیت ہم اوپر لا پھینکیں گے۔ فرعون کا ایک کرتہ سنہری تاروں کے جواہر سے مرصع مشہور تھا۔ بغوی نے لکھا ہے : جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعون کے ہلاک ہوجانے کی اطلاع دی تو ان کو یقین نہیں آیا۔ کہنے لگے : فرعون نہیں مرا ہے۔ ان کا شبہ دور کرنے کیلئے اللہ نے فرعون کی لاش کو ساحل پر لا پھینکا۔ لاش سرخ اور چھوٹی تھی ‘ بیل معلوم ہوتی تھی (یعنی پھول گئی تھی) بنی اسرائیل نے دیکھ کر اس کو پہچان لیا اور حضرت موسیٰ کی اطلاع کی تصدیق کی۔ اٰیَۃً سے مراد ہے عبرت ‘ نصیحت یا ایسی نشانی جس سے اللہ کی توحید (قدرت) اور بندہ کا عجز ثابت ہو رہا ہو ‘ خواہ بندہ بادشاہ ہی ہو۔ بات یہ تھی کہ بنی اسرائیل کے دماغوں میں یہ بات جم چکی تھی کہ فرعون کبھی نہیں مرے گا ‘ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ کی اطلاع کے بعد بھی ان کو فرعون کے مرنے میں شک رہا۔ آخر ساحل پر پڑی ہوئی لاش کو دیکھ کر ان کو یقین ہوا۔ یا مَنْ خَلْفِکَسے مراد ہیں آئندہ زمانہ میں آنے والے لوگ کہ ان کو اس واقعہ کو سن کر عبرت ہوگی اور وہ سرکشی سے باز رہیں گے۔ وان کثیرًا من الناس عن ایتنا لغفلون۔ اور بہت لوگ (یعنی کفار) ہماری نشانیوں کی طرف سے غافل ہیں ‘ غور نہیں کرتے اور عبرت اندوز نہیں ہوتے۔
Top