تنبیہ وتہدید برغفلت از آخرت ووعید برحرص مال و دولت :
قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” الھکم التکاثر ..... الی ...... یومئذ عن النعیم “۔
(ربط) سورة القارعہ میں انسان کو قیامت پر پیش آنے والے ہولناک حوادث سے آگاہ وخبردار کیا گیا تھا، اب اس سورت میں جو اسباب غفلت ہیں ان سے باخبر کیا جارہا ہے کہ مال و دولت کی حرص انسان کو آخرت سے غافل اور دور کرنے والی چیز ہے، اسی مال واولاد پر تفاخر و غرور بھی کوئی اچھی بات نہیں، انسان کو چاہئے ان فتنوں میں مبتلا ہو کر اپنے اصل مقصد یعنی فکر آخرت کو فراموش نہ کرے، قتادہ (رح) اور مقاتل (رح) سے یہ منقول ہے کہ یہ سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی، جبکہ مدینہ میں رہنے والے یہود اس پر تفاخر کرتے تھے کہ میرے پاس اس قدرمال ہے اور میری اولاد اتنی ہے، اور ہر ایک اسی فکر میں رہتا اور اس میں اس قدر انہماک اور غلواختیار کیا کہ اپنا دین بھی بھول گئے اور اس سلسلہ میں جو بھی کرنا پڑا۔ حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیر کر گذرے، لیکن یہ روایت باعتبار اسناد محدثین کے نزدیک صحیح نہیں، اس لئے اس سورت کا مکی ہونا ہی جمہور نے اختیار کیا ہے۔
بعض مفسرین اس کا سبب نزول، قریش کے دو قبیلوں بنوعبد مناف اور بنو سہم کے درمیان اسی نزاع اور باہمی قتال کو بتاتے ہیں جو اسی طرح باہمی تفاخر اور سرداری کے لالچ کی وجہ سے پیش آیا، آپس میں خوب لڑے قبروں کے گننے کی نوبت آگئی، انسان کے اس فطری عیب کو بیان کرتے ہوئے اس امر کی بھی تلقین کی گئی کہ دنیا میں اس کو نعمتیں عطا کی جاتی ہیں ان کا حق ہوتا ہے اور اگر انسان اس حق کو ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو مؤاخذہ اور سزا سے ہرگز نہ بچ سکے گا، تو ارشاد فرمایا اے لوگو ! غافل بنادیا ہے تم کو زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی حرص نے اور اس کی کثرت پر فخر کرنے نے اور تم اس تفاخر۔ 1
حاشیہ 1 (ان الفاظ میں اشارہ ہے کہ تکاثر کے دونوں معنی ہیں، مال و دولت زیادہ جمع کرنے کی حرص اور مال واولاد پر تفاخر، ابن عباس ؓ اور حسن بصری (رح) نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے۔ 12)
وتکاثر مال سے باز نہ آؤگے یہاں تک کہ تم قبروں کو دیکھ لو تو مرنے تک اسی طرح باہمی تفاخر اور مال و دولت جمع کرنے کی حرص میں مبتلا رہوگے اور یہ غفلت کا پردہ اس وقت تک نہیں ہٹے گا جب تک کہ تم قبر میں نہیں چلے جاؤ گے، خبردار ہرگز یہ چیز غفلت کی نہیں اور نہ قابل انکار بیشک عنقریب تم جان لوگے کہ قیامت برحق ہے، اور دنیوی زندگی کے اعمال وافعال کا حساب و بدلہ ہے، خبردار ہرگز نہ چیز قابل غفلت نہیں دنیا کی زندگی خالی ہے، بیشک پھر تم۔
حاشیہ۔ 2 (ترجمہ کے درمیان اضافہ کردہ کلمات سے (آیت) ” کلا سوف تعلمون “۔ کے تکرار کے طرف اشارہ ہے، 12)
پھر تم بہت جلد معلوم کرلو گے کہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک خواب ہے۔ 3
حاشیہ 3 (حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن الثخیر ؓ صحابی ایک روز آپکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سورة (آیت) ” الھکم التکاثر “۔ پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے۔
یقول ابن آدم مالی وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت او لبست فابلیت او تصدقت فامضیت۔
کہ ابن آدم یہ کہتا ہے میرا مال میرا حالانکہ اے انسان اس میں سے تو تیرا مال صرف اتنا ہی ہے جو تو کھا کر ختم کردے یا پہن کر پرانا کردے، یا صدقہ کرکے آگے بھیجدے۔
ایک روایت میں ہے کہ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ تو انسان سے جدا ہونے والا ہے اور آدمی دوسروں کے واسطے چھوڑ کر جانے والا ہے، حقیقت یہ ہے کہ انسان کی طبعی حرص کی کوئی حد نہیں، اسی کا ان کلمات میں بیان ہے۔ لوکان لابن آدم وادیان من الذھب لابتغی ثالثا ولا یملاء جوف ابن آدم الاالتراب ویتوب اللہ علی من تاب۔ یعنی اگر ابن آدم کے لئے دو میدان ہی سونے کے بھرے ہوئے ہیں تو بھی تیسری وادی کی تلاش میں لگ جائے گا، اور انسان کا پیٹ ہرگز کوئی چیز نہیں بھر سکتی سوائے مٹی کے اور اس کی حرص کا خاتمہ بس قبر ہی میں جا کر ہوگا۔ الخ 12)
یہ حقیقت اگرچہ دنیا میں کچھ لوگوں کو معلوم ہوجاتی ہے کہ اصل عیش آخرت کا عیش ہے اور دنیا کی زندگی اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں لیکن جب انسان قبر میں پہنچے گا تو پھر اصل حقیقت کھل کر نظروں کے سامنے آئے گی تو سمجھ لو خبردار ہرگز تمہیں خاک بھی علم نہیں، بیشک اگر تم جان لو آخرت کا حال علم یقین کی صورت میں تو یقیناً ایسی تمام غفلتوں نافرمانیوں اور مال و دولت جمع کرنے کی حرص اور تفاخر سے باز آکر اصل کام میں لگ جاؤ اور آخرت کی تیاری میں ہمہ تن مصروف ہوجاؤ مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا بلکہ انسان اسی طرح غفلت وجہالت میں زندگی گذار دیتا ہے۔ لہذا سن لو اے لوگو ! ضرور بالضرور تم جہنم دیکھو گے، یہ یہی نہیں کہ بس دور سے دیکھ لو اور وہ نظر آجائے بلکہ یقیناً تم اس دوزخ کو دیکھو گے آنکھوں کے مشاہدہ اور یقین کے ساتھ جس میں کسی نوع کا شبہ باقی نہ رہے گا۔
اس میں تم اپنی غفلت اور نافرمانیوں کے باعث داخل ہوگے اور اس کا مزہ چکھوگے۔
حاشیہ (بعض حضرات مفسرین کا خیال ہے کہ اس مقام پر دوزخ کے دو مرتبہ دیکھنے کے ذکر میں اول مرتبہ دیکھنا مرنے کے بعد عالم برزخ میں ہے اور دوسری مرتبہ دیکھنے سے حشر کے روز دیکھنا مراد ہے۔
عارفین بیان کرتے ہیں کہ علم کے تین درجے ہیں
(1) علم الیقین جیسے کسی نے دریا کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔
(2) دوسرا عین الیقین ہے جبکہ اس کے کنارہ پر پہنچ کر پانی چلو میں لے لیا۔
(3) تیسرا حق الیقین ہے جبکہ دریا میں گھس کر غوطہ لگالیا۔
اور ظاہر ہے کہ عین الیقین کا درجہ علم الیقین سے بڑھ کر ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی گمراہی اور گوسالہ پرستی پر اللہ نے مطلع کردیا تھا اور اللہ کی وحی سے جو علم حاصل ہوا وہ بلاشبہ علم یقین ہے، لیکن جب انہوں نے واپس پہنچ کر اپنی آنکھوں سے اس مشرکانہ عمل کو دیکھا تو غصہ کی کوئی حد نہ رہی حالانکہ علم یقین تو اللہ کی وحی سے ہوچکا تھا، آنکھوں سے دیکھا تو عین یقین کا مقام حاصل ہوا تو جو غصہ پہلے علم پر نہ تھا وہ دوسرے علم پر ہوا۔ )
پھر اس روز تم سے ضرور بالضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں جو تم پر حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے کئی گئیں کہ تم نے ان کا کیا حق ادا کیا تم نے ان نعمتوں کے بعد ان کی عظمت کو پہچانا یا نہیں۔ ؟ تم نے اپنے منعم کی محبت اور جذبہ اطاعت کو اپنے دل میں محسوس کیا یا نہیں ؟ تم اپنے منعم کی ناراضگی سے ڈرے یا نہیں ؟ اور ظاہر ہے کہ ان سوالات کا جواب دینا کوئی آسان کام نہیں بالخصوص اس دن اور اس عالم میں جہاں ظاہر و باطن کا کوئی فرق نہیں ہوسکتا اور زبان سے صرف وہی بات ادا ہوسکتی ہے جو حقیقت اور عین صداقت ہے پس انسان کو سوچنا چاہئے کہ ان بےپایاں نعمتوں پر جن کی شان یہ ہے (آیت) ” وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا “۔ محاسبہ اور مؤاخذہ پر وہ کیا جواب دے گا نعمتوں کی بیشک کوئی حد و انتہاء نہیں، ظاہری نعمتیں باطنی نعمتیں جسمانی نعمتیں روحانی نعمتیں، پھر ہر قسم میں متعدد انواع و اقسام اور مراتب غرض ایک وسیع سلسلہ اللہ رب العزت کی نعمتوں کا انسان پر ہمہ وقت قائم وجاری ہے، حیات و تندرستی اعضاء کی خوبی اور سلامتی حسن و جمال ادراک عقل وفہم، اسباب راحت و آسائش اوراقسام و انواع کے فواکہ اور رزق اور جملہ نعماء غرض ہر شعبہ حیات بیشمار انعامات کا مرکز نظر آتا ہے، تو بلاشبہ ان کے حق کا سوال ہونا ہی چاہئے، اس لئے انسان کو چاہئے کہ ان نعمتوں کی وجہ سے غافل ومغرور نہ ہو بلکہ اس کی تیاری میں لگ جائے کہ روز محشر جب ان نعمتوں کا حق ادا کرنے کا سوال ہوگا تو میں کیا جواب دوں گا۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرمایا ابوبکر وعمر ؓ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ آنحضرت ﷺ وہاں تشریف لے آئے اور ان کو دیکھ کر فرمایا یہاں تم لوگ کیوں بیٹھے ہو، دونوں نے عرض یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق دے کر بھیجا ہے ہمیں کسی بھی چیز نے گھر سے باہر نہیں نکالا ہے سوائے بھوک کے کہ اس بےچینی میں گھر سے باہر نکلے ہیں کہ شاید کوئی چیز کھانے کو مل جائے، آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا خدا کی قسم مجھے بھی اس کے سوا اور کسی چیز نے باہر نہیں نکالا، یہ تینوں حضرات ایک انصاری کے پاس پہنچے ان کی بیوی نے دیکھ کر کہا ” مرحبا کیسا مبارک دن ہے ایسے مبارک اور معزز مہمان میرے یہاں آگئے اور بتایا کہ انصاری تو میٹھا پانی لینے باہر گئے ہوئے ہیں، اتنے میں وہ بھی آگئے، ایک بکری کا بچہ ذبحہ کرکے پکاکر لایا گیا اور کچھ چھوہارے بھی پیش کئے گئے، ان حضرات نے شکم سیر ہو کر کھایا، ٹھنڈا پانی پیا آنحضرت ﷺ نے ابوبکر ؓ و عمر ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا (آیت) ” لتسئلن یومئذ عن النعیم “۔ بیشک اس روز تمہارے سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا، تمہیں گھر سے بھوک نے نکالا، اور تم واپس لوٹنے سے پہلے ان نعمتوں سے بہرہ ور ہوگئے، تو یہ کس قدر اللہ کا انعام ہے، انسان اگر اس حقیقت کو سمجھ لے تو اس کو قدم قدم پر اللہ کی بےپایاں نعمتوں کا مشاہدہ ہونے لگے گا۔
تم بحمد اللہ تفسیر سورة الھکم التکاثر :