بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الرا۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں۔
سورة ھود اثبات حقانیت قرآن و توحید ورسالت وتذکیر آخرت الرا۔ کتب احکمت ایتہ۔۔ الی۔۔ انہ علیم بذات الصدور (ربط): اول قرآن حکیم کا منزل من اللہ ہونا بیان کیا کہ اس کتاب کے نزل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرو پھر آں حضرت ﷺ کا مرسل من اللہ وہنا بیان کیا کہ آپ کو بشارت اور آخرت اور قیامت کو یاد دلایا جس دن بندوں کو ان کے اعمال کی جزا وسزا ملے گی۔ تاکہ پہلے سے تیاری کرلیں۔ اور چونکہ جزا وسزا کے لیے علم کامل اور قدرت کاملہ کا ہونا ضروری ہے کہ حاکم کو مجرم کے جرم کا علم ہو اور اس کے سزا دینے پر اس کو قدرت اور اختیار بھی ہو اس لیے الی اللہ مرجعکم کے بعد وھو علی کل شیئ قدیر۔ سے اپنی قدرت کاملہ کو بیان کیا اور یعلم ما یسرون وما یعلنون انہ علیم بذا لصدور میں اپنے علم محیط کو بیان کیا کہ ہمارا علم ظاہر و باطن سب کو محیط ہے اور بعد ازاں وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا الخ سے اپنی صفت ترزیق و تخلیق کو بیان کیا۔ الر۔ اسرار الہیہ میں سے اللہ کا ایک بھید ہے جو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہ قرآن ایک کتاب ہے جس کی آیتیں نہایت محکم اور مضبوط ہیں یعنی اس کے دلائل ایسے قوی ہیں کہ جن میں نقص اور خلل کو راہ نہیں کیونکہ اس میں وحدانیت اور نبوت و رسالت اور معاد کا اثبات ہے اور یہ ایسے امور ہیں جو دلائل عقلیہ اور فطریہ سے ثابت ہیں جن کو ہر ایک عقل سلیم تسلیم کرتی ہے اور ان میں عیب نکالنے کا موقع نہیں کسی قسم کا تناقص ان میں نہیں۔ پھر اس کی تفصیل بیان کی گئی۔ یعنی ہر حکم کو اچھی طرح سمجھا کر بیان کیا گیا ہے۔ جن میں اجمال اور اغلاق نہیں اور یہ کتاب اس ذات پاک کی طرف سے آئی ہے جو حکمت والا اور خبردار ہے۔ الغرض یہ کتاب اس حکیم وخبیر کے علم و حکمت کا مظہر اور آئینہ ہے۔ اس کا اصل مضمون اور اصل مقصود یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور رہا میں، سو جان لو کہ تحقیق میں اللہ کا نبی ہوں اس کی طرف ڈرانے والا اور بشار دینے ولاا ہوں بدوں کو عذاب سے ڈراتا ہوں اور نیکوں کو اس کے ثواب کی بشارت سناتا ہوں۔ اور اس کتاب محکم کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ تم اپنے پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو یعنی ایمان لے آؤ پھر آئندہ کے لیے اس کی طرف رجوع ہوجاؤ یعنی ہمہ تن اس کی اطاعت اور اعمال صالحہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ تم کو ایمان اور عمل صالح کی برکت سے دنیا میں ایک وقت مقررہ تک اچھا بہرہ مند بنائے گا۔ یعنی تمہارے رزق میں برکت ہوگی اور سکون و اطمینان کی زندگی بسر کرو گے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ بہرہ مند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نعمت پر شکر کی اور بلا پر صبر کی توفیق عطا کرے گا۔ جس سے تم ہر حال میں خوش رہو گے۔ دنیاداروں کی طرح دنیا کے دیوانے نہ بنو گے اور یہ مرتبہ ایمان اور عمل صالح کی برکت سے میسر آتا ہے اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ اجر عطا کرے گا۔ اور ہر حال میں اللہ کا فضل اور انعام بندہ کے عمل سے زیادہ رہے گا۔ کم از کم دس گنا تو زیادہ رہے گا یہ میری بشارت ہے اور اگر تم لوگ ہدایت اور دین حق کے قبول کرنے سے اور میری متابعت سے روگردانی کرو گے تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ قیامت کے دن کو بڑا دن اس لیے کہا گیا کہ وہ تمام دنوں سے بڑا ہوگا اور یہ میری نذارت ہے مجھ کو خدا نے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے جو میری بشارت ونذارت سے اعراض کرے گا وہ بڑے دن کے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف جانا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ یعنی وہ دوبارہ زندہ کرنے اور ثواب و عتاب دینے پر قادر ہے۔ جز وسزا کے لیے یہ ضروری ہے کہ مجرم حاکم کے سامنے حاضر ہو۔ سو حق تعالیٰ تم کو اپنے روبرو حاضر کرنے پر بھی قادر ہے یہ تو حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان ہوا۔ اب آگے اس کے علم محیط کو بیان کرتے ہیں کہ کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ چیز بھی اس پر مخفی نہیں مشرکین اور بعض منافقین یہ کہتے تھے کہ جب ہم گھر کے دروازے بند کرلیں گے۔ اور پردے چھوڑدیں اور اپنے کپڑوں میں اپنے آپ کو چھپا لیں اور اپنے سینے میں محمد ﷺ کی عداوت رکھیں تو ہمارے اس راز کو کون جان سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے آئندہ آیت میں اس کا جواب دیا کہ ہم جان سکتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں : آگاہ ہوجاؤ اور کان کھول کر سن لو تحقیق یہ کافر اپنے سینوں کو دہرا کرتے ہیں۔ یعنی دل میں آں حضرت ﷺ کی عدوت کو چھپاتے ہیں اور اوپر سے کپڑا لپیٹ لیتے تاکہ خدا سے چھپ جائیں ان کا گمان یہ تھا کہ جب ہم کپڑوں میں لپٹ جائیں تو ہماری اس حالت کی خدا کو خبر نہ ہوگی سو آگاہ ہوجاؤ کہ جس وقت وہ لوگ اپنے کپڑوں کو لپیٹتے ہیں اللہ خوب جانتا ہے جو وہ سینوں میں چھپاتے ہیں اور جو زبانوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے علم میں ظاہر و باطن یکساں ہے تحقیق وہ جاننے والا ہے ان بھیدوں کو جو سینوں میں ہیں۔ اے کہ درد دل نہاں کنی سرے آنکہ دل آفریدہ می داند پس جس خدا پر تمہارے سینے کی بات مخفی نہیں اس پر تمہاری زبانوں کی باتیں کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔ شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں " کافر کچھ مخالفت کی بات گھر میں کہتے اس کا جواب قرآن میں اترتا سمجھتے کہ کوئی کھڑآ سنتا ہے جا کر رسول خدا سے کہہ دیتا ہے۔ تب ایسی بات کہتے تو کپڑا اوڑھ کر جھک کر دوہرے ہو کر کہتے اللہ تعالیٰ نے تب یہ نازل کیا " انتہی۔ اور بعض روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت بعض مسلمانوں کے حق میں نازل ہوئی جن پر حیاء کا اس قدر غلبہ تھا کہ استنجاء یا جماع یا دیگر ضروریات بشری کے وقت بھی شرم کی وجہ سے اپنا سر کپڑؤں سے ڈھانپ لیتے اور بدن کو برہنہ کرنے شرماتے کہ آسمان والا ہم کو دیکھتا ہے یہ لوگ مغلوب الحال تھے۔ اس آیت میں ان کی اصلاح فرمادی کہ اس غلو اور تعمق کی ضرورت نہیں ہے بندہ کسی وقت بھی خدا سے نہیں چھپ سکتا لہذا حوائج بشریہ کے متعلق اس قدر غلو سے کام لینا ٹھیک نہیں۔ آیت کا اصل شان نزول وہی ہے جو شروع میں ذکر کیا گیا کہ یہ آیت کافروں کے حق میں نازل ہوئی لیکن آیت اپنے مدلول عام کے لحاظ سے اگر بعض مسلمانوں کی کسی غلطی کی اصلاح کو متضمن ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ الحمد للہ۔ کہ اس آیت پر پارہ یاز دہم کی تفسیر ختم ہوئی اب پارہ دواز دہم کی تفسیر شروع ہوتی ہے۔ وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب
Top