Maarif-ul-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور ہم نے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا تو (انہوں نے ان سے کہا) کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے (اور پیغام پہنچانے) آیا ہوں
قصہ نوح (علیہ السلام) با قوم او قال تعالیٰ ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ ..... الی .... وانا بریء مما تجرمون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں یہ بیان کیا کہ اہل حق اور اہل باطل کا برابر ہونا ایسا ہی ناممکن ہے جیسا کہ بینا اور نابینا اور شنوا اور بہرے کا برابر ہونا ناممکن ہے۔ پس غور کرلو کہ ان دو مختلف اور متضاد فریقین کا انجام کیسے یکساں ہوسکتا ہے۔ اب آگے اسی مضمون کی تائید اور تاکید کے لیے چند عبرتناک واقعات بیان کرتے ہیں جن میں اول قصہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا ہے کہ جو صدہا سال کی نصیحت کے بعد بھی راہ راست پر نہ آئے بالآخر غرق ہوئے یہ قصہ اگرچہ سورة یونس میں مذکور ہوچکا ہے مگر یہاں کچھ زائد حالات کا ذکر ہے جن سے جدید فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت مل ساڑھے نو سو برس قوم کو نصیحت کرتے رہے اس کے بعد طوفان آیا۔ طوفان کے ساٹھ برس بعد تک زندہ رہے اس قسم کے واقعات سے کفار کو تنبیہ ہے اور آنحضرت ﷺ کو تسلی ہے کہ آپ ﷺ کی تکذیب سے دلگیر نہ ہوں اطمینان اور صبر کے ساتھ دعوت اور تبلیغ میں لگے رہیں۔ نکتہ سورة یونس میں نوح (علیہ السلام) کا قصہ استعجال عذاب کے جواب میں ذکر کیا اور یہاں کفار کی ایذاء رسانی اور ان کے تمسخر کے جواب میں ذکر کیا کہ نوح (علیہ السلام) نے ان کے ایزاء اور تمسخر پر صبر کیا اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو نجات دی اور ان مسخروں کو ہلاک کیا۔ (تفسیر کبیر ص 68 ج 5) اور البتہ تحقیق ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف جو حق کے بارے میں اندھے اور بہرے بنے ہوئے تھے۔ رسول بنا کر بھیجا نوح (علیہ السلام) نے ان سے یہ کہا کہ تحقیق میں تمہارے لیے کھول کر ڈرانے والا ہوں یعنی اسباب عذاب اور وجوہ خلاص کو بیان کرنے والا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ تحقیق میں تم کو ایک بڑے دردناک دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں۔ قوم کا جواب پس ان کی قوم کے جو لوگ کافر تھے ان کے سردار جواب میں یہ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) ! اول تو ہم تم کو اپنے جیسا ہی آدمی دیکھتے ہیں یعنی تم میں کوئی خاص فضیلت اور خصوصیت اور امتیاز نہیں پاتے جس کی بناء پر ہم آپ (علیہ السلام) کو نبی مانیں جیسے انسان تم ہو ویسے ہی انسان ہم بھی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تم پر وحی آئے اور ہم پر نہ آئے اور دوم یہ کہ ہم نہیں دیکھتے کہ تیری پیروی کی ہو کسی نے سوائے ان لوگوں کے جو ہم میں سے رذیل اور کمینہ ہیں اور یہ پیروی بھی انہوں نے بےسوچے سرسری نظر سے کرلی ہے اگر وہ غور وفکر کرتے تو وہ بھی آپ (علیہ السلام) کی پیروی نہ کرتے ان بےسمجھ لوگوں نے سادہ لوحی سے آپ (علیہ السلام) کے سحر کو معجزہ اور آپ (علیہ السلام) کی شبہات کو دلائل اور براہین سمجھ لیا ہے مطلب یہ ہے کہ نہ آپ (علیہ السلام) میں کوئی شان امتیازی ہے اور نہ آپ (علیہ السلام) کے پیروؤں میں کوئی خاص خصوصیت ہے بلکہ وہ رذیل اور بےعقل اور جاہل لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنا بھی ہم جیسے معززین کے لیے باعث عار اور ننگ ہے اور آج کل بھی ایسا طبقہ موجود ہے کہ جو اہل ایمان کو عموما اور علما کو خصوصا حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور ان کو بیوقوف سمجھتا ہے اس لیے کہ یہ طبقہ دنیاوہ مال و جاہ میں ان سے کم ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک شرف و عزت کا دارومدار مال و دولت پر ہے جس کے پاس مال نہیں وہ ان کے نزدیک رذیل ہے اگرچہ عقل و فہم میں ان سے کہیں بلند ہو اور ہم آپ لوگوں سے کس بات میں کم ہیں۔ ہم تمہارے لیے اپنے اوپر کسی قسم کی برتری نہیں دیکھتے تم ہم سے نہ مال و دولت میں زیادہ ہو اور نہ عزت و وجاہت میں ہم سے بڑھ کر ہو پھر کیوں آپ (علیہ السلام) کے تابع اور پیرو بنیں۔ بلکہ ہمارا گمان تو یہ ہے کہ تم سب جھوٹے ہو تم نے ایک بات بنا لی ہے اور چند بیوقوفوں نے بےسوچے سمجھے ہاں میں ہاں ملا دی ہے ایسے حقیر اور فقرا اور بےعقل اور جاہلوں کو اتباع آپ (علیہ السلام) کی صداقت کی دلیل کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ ان ملعونین اور مغرورین و متکبرین کی جہالت آمیز تقریر تھی جو ختم ہوئی اب آئندہ آیت میں نوح (علیہ السلام) کا جواب ماصواب آتا ہے اب اس کو سنیئے اور خوب کان لگا کر سنیئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف سے جواب باصواب نوح (علیہ السلام) نے ان کے جواب میں یہ کہا کہ اے میری قوم تمہارا میری بشری اور ظاہری صورت کو دیکھ کر یہ کہنا کہ میں اور تم برابر ہیں یہ تمہاری جہلات اور حماقت ہے صورت بشریہ میں سب انسان شریک ہیں مگر باطنی فضائل و کمالات میں مختلف ہیں۔ بیشک انسان ہونے میں میں اور تم برابر ہیں مگر انسان اور بشر ہونا نبوت و رسالت کے منافی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہری صورت کے اعتبار سے اگرچہ مجھ کو تمہاری ہی جیسی صورت عطاء کی ہے مگر باطنی فضائل و کمالات کے اعتبار سے مجھ کو تم سے جدا اور ممتاز بنایا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنی نبوت و رسالت کے روشن دلائل لیکر آیا ہوں میں تمہارے مثل کیسے ہوسکتا ہوں صورت بشریہ کے اعتبار سے اگرچہ تمہارے مثل ہوں مگر فضائل و کمالات اور آیات بینات کے اعتبار سے تم سے ممتاز اور بالکل جدا ہوں۔ بتلاؤ تو سہی کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں جو میری صداقت پر گواہ ہو اور جس سے میری نبوت ثابت ہوتی ہو اور دی ہو اس نے اپنے پاس سے مجھے اپنی خاص رحمت یعنی نبوت و ہدایت کاملہ اور طہارت فاضلہ جس کو دیکھ کر ایک نظر میں صاحب بصر سمجھ جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کوئی بنائی ہوئی بات نہیں پھر یہ روش حقیقت تمہاری آنکھ بند کرلینے کی وجہ سے تم پر پوشیدہ اور مخفی کردی گئی تکبر اور غرور نے تم کو اندھا بنا دیا اس لیے تم کو میری نبوت نظر نہیں آتی تو بتلاؤ ایسی صورت میں میں کیا کروں مجبور ہوں کیا اس رحمت اور ہدایت کو ہم زبردستی تمہارے سر لگا دیں درآنحالیکہ تم اس سے بیزار اور متنفر ہو اور اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی تم کو گوارا نہیں۔ مشعل ہدایت تمہارے سامنے کردی ہے اب دیکھنا اور نہ دیکھنا تمہارا کام ہے باقی کسی کو ہدایت یاب کردینا یہ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے نبی اور ولی کے اختیار میں نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ میری نبوت تو دلائل اور براہین سے روز روشن کی طرح واضح ہے مگر تم کو اس لیے نظر نہیں آتی کہ تم دل کے اندھے ہو یا آنکھیں بند کیے ہوئے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے میری ذیعے جو تم کو رحمت دی تم نے اس کی قدر نہ جانی بلکہ تکذیب کے درپے ہو تو کیا میں باوجود تمہاری اس کراہت اور نفرت کے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کو تمہارے گلے باندھ دوں۔ یہاں تک کافروں کے پہلے شبہ اور اعتراض کا جواب ہوا کہ تم ہم جیسے بشر ہو اب ان کے دوسرے شبہ اور اعتراض کا جواب دیتے ہیں۔ دوسرا شبہ انکا یہ تھا کہ آپ (علیہ السلام) کے اتباع کرنے والے حقیر اور ذلیل لوگ ہیں سو یہ اعتراض بھی جہالت اور حماقت پر مبنی ہے عزت اور ذلت کا دارومدار مال و دالت پر مبنی نہیں بلکہ اتباع پر ہے جس غریب و فقیر نے دولت حق اور باطل کے فرق کو سمجھ کر حق کا اتباع کیا وہ عزت والا ہوگیا اور جس دولت مند نے حق سے منہ موڑا وہ ذلیل و خوار ہوا لہٰذا معلوم ہوا کہ اراذل اور ضعفاء اور فقراء کا اتباع نبوت اور صداقت میں قادح نہیں پھر یہ کہ اراذل صورت بشریہ میں تمہارے مثل ہیں پس تم جیسے اہل عقل اور اہل فہم کا نبوت کو قبول کرنا تم پر حجت ہے یہ غرباء اور فقراء اگر مال و دولت میں تم سے کم ہیں تو عقل اور فہم میں تم سے بڑھ کر ہیں اور اگر برابر بھی ہوں تو ان کی آنکھوں پر کوئی پردہ نہیں اور تمہاری آنکھوں پر تکبر اور غرور کا پردہ پڑا ہوا ہے اس لیے تم کو یہ روشن حقیقت نظر نہیں آتی جو ان فقراء اور ضعفاء کو نظر آرہی ہے چناچہ فرماتے ہیں اور یہ فرمایا اے میری قوم میں تم سے تبلیغ و رسالت پر کوئی مال نہیں مانگتا جس کا دینا تم پر شاق ہو اور نہ دینا مجھے ناگوار ہو۔ جزایں نیست کہ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے اور جس کا اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میرا مقصود تو نصیحت اور تبلیغ رسالت ہے میری نظر صرف اللہ تعالیٰ پر ہے مال و دولت پر میری نظر نہیں۔ اس لیے میری نظر میں امیر و فقیر اور دولت مند اور حاجت مند سب برابر ہیں ظاہری صورت کے اعتبار سے بیشک میں بشر ہوں مگر حقیقت باطنہ کے لحاظ سے فرشتہ بلکہ فرشتہ سے بڑھ کر ہوں حرص اور طمع سے بالکل پاک اور منزہ ہوں اور ظاہر ہے کہ جو طمع اور غرض سے پاک ہو وہ کیوں جھوٹ بولے گا۔ تم درہم و دینار کے بندے ہو اور میں خالص خدا کا بندہ ہوں۔ میری نظر صرف خدا پر ہے مجھ میں اور تم میں یہ فرق ہے اگر عقل رکھتے ہو تو سمجھ لو اور تم میرے متبعی کی ظاہری شکستگی اور تنگدستی کو دیکھ کر انہیں رذیل کہتے اور حقیر سمجھتے ہو اور یہ چاہتے ہو کہ میں ان کو اپنے پاس سے نکال دوں تب تم میرے پاس بیٹھو۔ اور میری بات سنو تو خوب سمجھ لو کہ میں اہل ایمان کو اپنی مجلس اور صحبت سے ہانک دینے والا نہیں میں تمہاری درخواست کی بناء پر ضعفاء مومنین اور فقراء مسلمین کو اپنی مجلس سے نہیں ہٹا سکتا۔ تحقیق یہ درویشان اسلام عزت و کرامت کے ساتھ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں قیامت کے دن ان کے ایمان اور اعمال صالحہ سے ان کی کرامت ظاہر ہوگی اور مومن کو دنیا ومافیہا سے دس گنا زیادہ دولت ملے گی۔ اور یہ دولت مند کافر مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہ ہوں گے و لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک جاہل قوم ہو کہ اپنے مال و دولت اور موٹر بنگلہ کو عزت سمجھتے ہو اور اہل ایمان جو خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز اور مقرب ہیں دل سے ان کو حقیر و ذلیل اور زبان سے ان کو کمینہ اور رذیل کہتے ہو تم ایسی جاہل قوم ہو کہ تمہیں عزت و ذلت کے معنی بھی معلوم نہیں۔ خداوند ذوالجلال سے صحیح تعلق (ایمان) کا نام عزت ہے اور خدا وند تعالیٰ سے بغاوت اور قطع تعلق (کفر) کا نام ذلت ہے۔ وللہ العزۃ ولرسولہ ولل مومنین ولکن المنفقین لا یعلمون۔ خاکساران جہاں رابحقارت منگر توجہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد اور اے میری قوم ! اگر بالفرض والتقدیر تمہاری رعایت سے ان غربار اور فقراء کو اپنی مجلس سے علیحدہ کر دوں تو بتلاؤ کون مجھ کو اللہ کے عذاب سے چھڑائے گا۔ غریب طالب حق کو دولتمند کی رعایت سے مجلس سے نہیں پٹایا جاسکتا یہ بےانصافی اور ظلم ہے میں تمہاری رعایت سے خدا کے مخلص بندوں کے ساتھ بےانصافی نہیں کرسکتا اگر خدانخواستہ ایسا کروں تو مجھے خدا کی گرفت سے کون بچا سکے گا کیا بھلا تم غور نہیں کرتے کہ ایمان اور اطاعت سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت ملتی ہے۔ محض دنیاوی مال و دولت سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو نبوت و رسالت کا منصب عطاء کیا اور ان فقراء مومنین کو ولایت باکرامت کی عزت سے سرفراز فرمایا۔ بعد ازاں نوح (علیہ السلام) نے کافروں کے اور بعض اقوال کا جواب ارشاد فرمایا اور میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے اور جسکے نہ ہونے کو خساست اور رذالت سمجھتے ہو اور مال و دولت کے نہ ہونے کو کاذب ہونے کی دلیل قرار دیتے ہو اور یہ کہتے ہو کہ بل نظنکم کاذبین۔ خوب سمجھ لو کہ رسول کے لیے یہ شرط نہیں کہ وہ خزانوں کا مالک میرے نزدیک مال و دولت کا وجود اور عدم سب برابر ہے۔ میرے نزدیک عزت کا دارومدار ایمان اور اطاعت پر ہے اور مال و دولت کا نہ ہونا کاذب ہونے کی دلیل نہیں کیا فقیر، کاذب اور مال دار صادق ہوتا ہے اور نہ میں غیب دان ہوں کہ لوگوں کے باطن کی خبر دوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں یعنی تم جو یہ کہتے ہو کہ ہم تم کو اپنے ہی جیسا بشر دیکھتے ہیں تو میرا یہ دعویٰ کب ہے کہ میں فرشتہ ہوں مگر تمہاری یہ جہالت ہے کہ تم بشریت کو نبوت کے منافی خیال کرتے ہو فرشتوں کا رتبہ تو انبیاء سے کم ہی ہے البتہ میں بشر ہوں مگر مؤید یہ معجزات ہوں تم عجیب نادان ہو کہ شجر اور حجر کو تو خدا اور معبود سمجھتے ہو اور بشر کے نبی ہونے کے منکر ہو صورت بشر یہ میں تمہارے مثل ہوں لیکن کمالات بشریہ اور فضائل انشانیہ میں تم سے ممتاز اور جدا ہوں یہ تو اپنے متعلق ارشاد فرمایا اب آگے اپنے متبعین کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں اور جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں میں ان کی نسبت یہ نہیں کہتا کہ یہ لوگ دل سے ایمان نہیں لائے اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز کوئی بھلائی نہیں دے گا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے اگر یہ لوگ مثل ظاہر کے باطن میں بھی مومن بنیں تو ان کو بہتر جزا ملے گی جو تمام روئے زمین کی سلطنت اور اس کے خزانوں سے بہتر ہوگی چونکہ یہ لوگ ظاہر میں مسلمان ہیں اس لیے میں اس کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کرتا ہوں باطن کی خبر تو اللہ تعالیٰ جانے اگر میں ان کو نکال دوں تو بلاشبہ میں ظالموں سے ہوں گا کہ محض شبہ اور گمان کی بناء پر ان کو نکال دیا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ ظاہر کے مطابق معاملہ کریں۔ الغرض تمہارے یہ تمام شبہات اور اعتراضات سب لایعنی اور مہمل ہیں اور جو میں کہتا ہوں وہ حق اور صحیح ہے اور دلیل اور برہان سے ثابت ہے۔ جب کفار نوح (علیہ السلام) کے جوابات سے لاجواب ہوئے تو یہ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) تو نے ہمارے ساتھ مباحثہ اور مجادلہ کیا اور بحث کو بہت بڑھایا اور طول دیا۔ خیر اب بحث تو چھوڑو۔ پس اگر آپ (علیہ السلام) سچوں میں سے ہیں تو آپ (علیہ السلام) وہ عذاب لے آئیں جس سے آپ (علیہ السلام) ہم کو ڈراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تم مجھ پر ایمان نہ لاؤ گے۔ اور مجھے رسول نہ مانو گے تو تم پر عذاب آئیگا۔ اب آپ بحث کو چھوڑئیے اور عذاب لائیے تو نوح (علیہ السلام) نے ان کو جواب میں کہا میرے اختیار میں دعوت و نصیحت تھی وہ کرچکا۔ باقی عذاب کا لانا وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جزائیں نیست کہ اللہ تعالیٰ ہی عذاب لائے گا جب اس کو منظور ہوگا۔ دیر میں آئے یا سویر میں اور پھر تم اس عذاب سے بچ نہیں سکتے مجھے جو نصیحت کرنی تھی وہ میں نے تم کو کردی۔ اب آخری بات یہ ہے جس پر میں اپنے کلام کو ختم کرتا ہوں وہ یہ کہ میری نصیحت تم کو سود مند نہ ہوگی اگر میں چاہوں کہ تمہاری خیرخواہی کروں تو میرے ارادے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ازل میں تمہارے گمراہ کرنے کا ارادہ فرما لیا ہے اور رسول میں یہ قدرت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو بدل سکے۔ وہی تمہارا مربی اور محسن ہے اس نے تمہاری ہدایت کے لیے پیغمبر بھیجے تم کو چاہئے تھا کہ اس کے حکموں پر چلتے مگر ازراہ عناد تم مجرم بنے اور ایک دن تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور اپنے اعمال کی جزا پاؤ گے۔ کیا کافر یہ کہتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) نے یہ پیغام اپنی طرف سے بنا لیا ہے یعنی ازخود گھڑ لیا ہے۔ اے نوح (علیہ السلام) آپ جواب میں کہہ دیجئے کہ اگر یہ پیغام میں نے خود گھڑ لیا ہے تو میرے جرم کا وبال مجھ پر ہوگا اور میں بری ہوں اس جرم سے جس کے تم مرتکب ہو مفسرین کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ یہ آیت نوح (علیہ السلام) کے قصہ کا تتمہ ہے اور بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ گفتگو کفار مکہ کی آنحضرت ﷺ سے تھی کہ یہ قرآن آپ ﷺ خود بنا لائے ہیں۔ خدا کا کلام نہیں ہے حضرت نوح (علیہ السلام) کوئی کتاب نہ لائے تھے جو ان کی قوم یہ بات کہتی۔ اس لیے یہ آیت آنحضرت ﷺ سے متعلق ہے بطور جمہ معترضہ کفار مکہ کے کلام کو درمیان قصہ نوح (علیہ السلام) ذکر فرمایا یہاں تک جتنے سوالات اور جوابات ذکر کیے وہ سب قوم نوح کے متعلق تھے مگر کفار مکہ بھی یہی کہتے تھے اس لیے درمیان قصہ بطور جملہ معترضہ کفار مکہ کا کلام ذکر کردیا گیا۔ اب آگے پھر نوح (علیہ السلام) کا باقی قصہ ذکر ہوتا ہے۔ لطائف و معارف عارف رومی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں۔ اشقیاء را دیدہ بینا بنود نیک و بدر دیدہ شاں یکساں نمود بدبخت لوگ دل کی آنکھوں سے محروم تھے۔ اس لیے ان کی نظر میں نیک و بد یکساں دکھائی دیتے تھے۔ ہمسری با انبیاء برداشتند اولیاء راہمچو خود پنداشتند انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ہمسری کے مدعی تھے اور اولیاء (رح) کو اپنے برابر سمجھتے تھے۔ گفتہ اینک ما بشع ایشاں بشر ماؤ ایشاں بستہ خوابیم و خود اور یہ کہتے تھے کہ ہم بھی انسان ہیں اور انبیاء (علیہ السلام) بھی انسان ہیں کھانے اور سونے کے دونوں پابند ہیں، پھر ہم میں اور ان میں فرق کیا رہا۔ ایں ندانستند ایشاں از عمیٰ ہست فرقے درمیاں بےمنتہیٰ اور کور باطنی سے یہ سمجھا کہ دونوں میں بےانتہا فرق ہے۔ ہر دو گوں ز نبور خود دند از محل لیک شد زاں نیش وذاں دیگر عسل دونوں قسم کے زنبور (بھڑ) ایک ہی جگہ سے پھلوں کا رس چوستی ہیں مگر ایک زنبور سے ڈنگ پیدا ہورا ہے اور دوسرے زنبور سے شہد پیدا ہوتا ہے۔ ہر دو گون آ ہوگیا خور دند آب زیں یکے سرگیں شدد زاں مشکناب اس شعر میں ایک دوسری مثال ذکر کرتے ہیں کہ دونوں قسم کے ہرن ایک ہی قسم کی گھاس چرتے ہیں اور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں لیکن ایک سے تو مینگیاں بنتی ہیں اور دوسرے سے خالص مشک نکلتی ہے۔ ہر دو نے خورد نداز یک آب خورد آں یکے خالی و آں پر از شکر یہ تیسری مثال ہے کہ دونوں قدم کی نے ایک ہی گھاٹ سے سیراب ہوتے ہیں لیکن ایک کھوکھلی ہے اور دوسری شکر اور رس سے پر ہے۔ صد ہزاراں ایں چنیں اشباہ بیں فرق شاں ہفتاد سالہ راہ بیں اس قسم کی سو ہزار نظریں دیکھو گے ان میں ستر سال کا فرق پاؤ گے۔ ایں خورد گر دو پلیدی زوجدا واں خورد گردد ہم نور خدا خدا کا نافرمان غذا کھاتا ہے تو اس سے نجاست نکلتی ہے اور خدا کا فرمانبردار کھاتا ہے تو اس سے نور خدا یعنی معرفت اور محبت خداوندی پیدا ہوتی ہے۔ ایں خورد زاید ہمہ بخل و حسد واں خرد زاید ہمہ نور احد یہ کھاتا ہے تو سراسر بخل و حسد پیدا ہوتا ہے اور وہ کھاتا ہے تو اس سے نور خدا پیدا ہوتا ہے۔ ہر دو صورت گر بہم ماند رواست آب تلخ و آب شیریں واصفا است سعید اور شقی کا صورت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مشابہ ہونا ممکن ہے جیسا کہ آب تلخ اور آب شیریں ظاہر کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ دونوں میں صفائی موجود ہے مگر حقیقت مختلف ہے۔ جس کا فرق چکھنے ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کفار نے محض ظاہری مشابہت کی بنا پر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اپنے ہمسر اور برابر جانا یہی ان کی کور باطنی اور بےعقلی کی دلیل ہے رہبر کا کام راستہ بتانا ہے۔ اگر کسی گم گشتہ راہ کو لق و دو میدان میں کوئی رہنما مل جائے جو راستہ سے بخوبی واقف ہو اور وہ اس کو راستہ بتلائے اور یہ شخص جو اب میں یہ کہے کہ تم تو مجھ جیسے انسان ہو میں تم کو ہادی کیسے مانوں اور تمہارے کہنے پر کیسے چلوں تو یہی جواب اس کی نادانی اور حماقت کی دلیل ہے بلاشبہ وہ ہادی طریق صورت و شکل میں تم ہی جیسا انسان ہے مگر وہ منزل مقصود کی راہ سے بخوبی واقف ہے اور تم بیخبر ہو۔
Top