Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Hud : 36
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ
وَاُوْحِيَ
: اور وحی بھیجی گئی
اِلٰي نُوْحٍ
: نوح کی طرف
اَنَّهٗ
: کہ بیشک وہ
لَنْ يُّؤْمِنَ
: ہرگز ایمان نہ لائے گا
مِنْ
: سے
قَوْمِكَ
: تیری قوم
اِلَّا
: سوائے
مَنْ
: جو
قَدْ اٰمَنَ
: ایمان لا چکا
فَلَا تَبْتَئِسْ
: پس تو غمگین نہ ہو
بِمَا
: اس پر جو
كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
: وہ کرتے ہیں
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے ان کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ تو جو کام یہ کر رہے ہیں انکی وجہ سے غم نہ کھاؤ۔
بمے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بیخبر نبود زراہ و رسم منزلہا تتمہ قصہ نوح (علیہ السلام) متعلق بہ طوفان قال اللہ تعالیٰ واوحی الی نوح انہ لن یؤمن ..... الی .... فکان من المغرقین۔ (ربط) جب کفار اپنے شبہات اور اعتراضات کا کافی اور شافی جواب سن چکے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے جوابات قاہری کی تاب نہ لاسکے تو دوسرا رنگ اختیار کیا ظلم اور تعدی اور ایذا رسانی اور دشنام طرازی پر اتر آئے۔ چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پر خالش برہم کشد روئے را کبھی ان کو دیوانہ اور مجنون کہتے اور کبھی ان کو زمین پر لٹا کر ان کا گلہ گھونٹتے یہاں تک کہ وہ بیہوش ہوجاتے جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں شکایت کی۔ رب انی دعوت قومی لیلا و نھارا (الیٰ ) رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا۔ اور دعا مانگی رب مغلوب فانتصی۔ اس پر نوح (علیہ السلام) کی تسلی کے لیے یہ وحی نازل ہوئی۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جب نوح (علیہ السلام) کو وعظ و نصیحت کرتے ایک زمانہ دراز گزر گیا اور ان پر کچھ اثر نہ ہوا تو نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی گئی کہ اب تیری قوم میں سے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لاچکے ہیں اور کوئی نیا شخص ایمان نہیں لائیگا۔ پس وہ جو کچھ ظلم و ستم کر رہے ہیں آپ اس سے رنجیدہ اور غمگین نہ ہوئیے۔ اور ان کی مخالفت اور عداوت کی پرواہ نہ کیجئے جس عذاب کا یہ لوگ مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس کا وقت نزدیک آگیا ہے جو ان شریروں کا اور ان کی شرارتوں کا یک لخت خاتمہ کر دیگا دعوت اور حجت کا وقت اب ختم ہوا اور نزول عقوبت اور سزا کا وقت قریب آگیا اور اے نوح (علیہ السلام) ! اب کمر ہمت باندھ لیجئے اور ہماری نظروں کے سامنے ہمارے حکم کے مطابق کشتی بناؤ ہم تم کو بتلائیں گے کہ کشتی کس طرح بنائی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل کشتی کا وجود ہی نہ تھا اور باعیننا۔ کا مطلب یہ ہے کہ بےفکر ہو کر کشتی تیار کرو ہماری نظر ہائے عنایت و حفاظت ہر طرف سے تم کو اور تمہاری کشتی کو محیط ہونگی جس کے ذریعے سے تم اور تمہارے متبعین طوفان سے محفوظ رہیں گے۔ طوفان کے وقت اصل محافظ ہماری نظر عنایت ہوگی۔ لہٰذا جب کشتی تیار ہوجائے تو تم ہمارا نام لیکر اس میں سوار ہوجانا اور ہماری نظر عنایت پر نظر رکھنا کشتی پر اعتماد نہ کرنا۔ ہماری حفاظت اور نظر عنایت کے بغیر کشتی بذات خود کسی کو نہیں بچا سکتی اور یہ سن لو کہ ان ظالموں کے بارے میں بمقتضائے شفقت و مرحمت عذاب دفع ہونے کی مجھ سے کوئی درخواست نہ کرنا بلاشبہ یہ غرق کیے جائیں گے۔ ان کی غرقابی کا حکم قطعی ہے اور آپ (علیہ السلام) کی بھی یہی دعا اور التجا تھی۔ رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا لہٰذا نزول عذاب کے وقت بمقتضائے شفقت و رحمت کوئی دعا اور التجا کے خلاف ہو۔ ہماری بارگاہ سے ان ظالموں کی غرقابی کا قطعی فیصلہ ہوچکا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نجار میں تھے اور کشتی بنانا نہیں جانتے تھے۔ اس لیے عرض کیا کہ اے خدا میں کس طرح کشتی بناؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم بنوا دیں گے۔ پس بحکم خداوندی تیشہ لے کر لکڑی تراشنا شروع کی تو برابر ٹھیک بنتی چلی جاتی تھی۔ اور اس طرح وہ کشتی بناتے تھے اور ان کی قوم کے سرداروں میں کوئی جماعت جب ان پر گزرتی تو ان کے ساتھ تمسخر کرتے۔ اور یہ کہتی کہ اے نوح (علیہ السلام) پہلے تو تم پیغمبر تھے اور اب بڑھئی ہوگئے اور دریا سے دور خشک بیابان میں کشتی تیار کر رہے ہو۔ اتنی بڑی کشتی خشکی سے کھینچ کر دریا میں کیسے لے جاؤ گے۔ تم جنون ہوگئے ہو نیز خشکی میں کشتی کی ضرورت کیا۔ بلا ضرورت کس لیے کشتی بناتے ہو جہاں دور دور پانی کا نام و نشان نہ ہو وہاں کشتی بنانا بالکل عبث ہے۔ ابن عطیہ (رح) کہتے ہیں اس سے پہلے لوگوں نے کشتی دیکھی بھی نہ تھی۔ اور نہ اس کے استعمال کے طریقے سے واقف تھے اس لیے تعجب کرتے اور قہق ہے لگاتے اور کہتے کہ اے نوح (علیہ السلام) تم اس کو کیا کرو گے نوح (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ اگر تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو ہم بھی تم پر ہنسیں گے جیسا کہ تم ہم پر ہنستے ہو وہ ہنستے تھے اس بات پر کہ خشکی پر کشتی بنائی جا رہی ہے کیا یہ کشتی خشکی پر چلے گی اور نوح (علیہ السلام) اس بات پر ہنستے تھے کہ یہ لوگ اپنے انجام سے بیخبر ہیں موت ان کے سر پر کھڑی ہے۔ ان کو معلوم نہیں کہ کس طرح زمین سے پانی ابل پڑے گا اور یہی خشکی تری بن جائے گی۔ اور ان کو غرق کر ڈالے گی۔ سو عن قریب جانا لوگے کہ وہ کون ہے کہ جس پر دنیا میں ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو اس کو رسوا کرے گا۔ یعنی غرق ہوگا جسے دیکھ کر لوگ ہنسیں گے اور اس دنیاوی عذاب کے علاوہ آخرت میں اس پر ایک دائمی عذاب نازل ہوگا۔ جو کبھی اس سے دور نہ ہوگا۔ غرض یہ کہ اسی طرح سوال و جواب اور تمسخر کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ جب عذاب کے متعلق ہمار احکم آپہنچا اور اس کی ابتداء اس طرح سے ہوئی کہ روٹی پکانے کا تنور جوش مارنے لگا۔ یعنی اس میں سے پانی ابلنے لگا جو مقدمہ طوفان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو عذاب آنے کی یہ نشانی بتا دی تھی کہ جب اس تنور میں سے پانی پھوٹنے لگے تو ہم اہل ایمان کو لیکر کشتی پر سوار ہوجانا وھذا قول الحسن (رح) وقالہ مجاھد (رح) و عطیتہ (رح) عن ابن عباس ؓ علیہ۔ (دیکھو تفسیر قرطبی ص 33) ابن جریر (رح) اور دیگر محققین کا قول یہی ہے کہ تنور سے یہی روٹی پکانے کا تنور مراد ہے جس سے خلاف عادت پانی ابلنے لگا اور بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ تنور سے صبح مراد ہے مگر اکثر مفسرین کے نزدیک مختار یہی ہے کہ تنور سے ظاہری معنی مراد ہیں اس لیے کہ تنور کے یہ معنی حقیقی اور معروف و متبادر ہیں۔ اور دوسرے معنی مجازی ہیں اور جب لفظ حقیقت اور مجاز کے درمیان دائر ہو تو بالاجماع اس کو حقیقت پر محمول کرنا اولیٰ ہے حق تعالیٰ جل شانہ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ فرما دیا تھا۔ کہ جب تنور سے پانی ابلتے دیکھو تو کشتی میں سوار ہو جانایہ علامت تھی طوفان شروع ہونے کی۔ چناچہ جب عذاب کی علامت ظاہر ہوئی کہ تنور ابلنا شروع ہوا اور زمین کے چمشے رواں کر دئیے گئے اور آسمان سے بشدت پانی برسنا شروع ہوا۔ کما قال تعالیٰ ففتحنا ابواب اسماء بماء منھمر و فجرنا الارض عیونا۔ تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ہر قسم کے جانوروں میں سے جو انسان کے لیے کار آمد ہیں اور پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے دو عدد جوڑا یعنی ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ کشتی میں اپنے ساتھ لادلو اور اپنے اہل و عیال کو جو ایمان والے ہیں ان کو بھی کشتی میں سوا کرلو مگر ان لوگوں کو مت سوار کرنا جن کی غرقابی اور ہلاکت کے متعلق قضا وقدر جاری ہوسکتی ہے۔ اور اہل و عیال کے علاوہ ان لوگوں کو بھی سوار کرلیجئے جو ایمان لائے ہیں اور نہیں ایمان لائے تھے ان کے ساتھ مگر تھوڑے اشخاص جن کی تعداد اسی تھی پس حضرت نوح (علیہ السلام) نے حسب الحکم ان کو کشتی میں سوار کیا اور فرمایا کہ سوار ہوجاؤ اس کشتی میں اور غرق کا اندیشہ مت کرو کیونکہ اس کا چلنا اور ٹھہرنا سبب اللہ ہی کے نام کی برکت سے ہے۔ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے کشتی کا چلنا اور ٹھہرنا سب اس کی رحمت اور اس کے نام کی برکت سے ہے نجات کا دارومدار اس کی رحمت پر ہے۔ یہ کشتی اس کا ظاہری سبب ہے۔ لہٰذا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھو نہ کہ کشتی پر اور بعض علماء تفسیر یہ فرماتے ہیں کہ بسم اللہ مجرھا ومرسھا۔ مستقل جملہ نہیں بلکہ ماقبل سے حال واقع ہے اور مطلب یہ ہے کہ کشتی میں بسم اللہ پڑھتے ہوئے سوار ہو۔ چناچہ وہ لوگ مع ضروری جانوروں کے اس کشتی میں سوار ہوگئے اور اس اثناء میں پانی بہت بڑھ گیا۔ اب وہ کشتی ان کو لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چل رہی تھی یعنی پانی اس قدر کثیر تھا کہ اس کی موجیں اور لہریں پہاڑ کی مانند بلند تھیں مقصود یہ ہے کہ طوفان نہایت شدید تھا مگر یہ کشتی انہی موجوں میں اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اور نظر رحمت کے ساتھ اہل ایمان کو سکون، اطمینان کے ساتھ لیکر چل رہی تھی جس میں کسی قسم کا اضطراب نہ تھا پانی اور ہوا کے تھپیڑوں کا کشتی پر کوئی اثر نہ تھا اور اسی اثناء میں کشتی چلے سے پہلے نوح (علیہ السلام) نے اپنے سگے یا سوتیلے بیٹے کو آواز دی جس کا نام کنعان تھا اور وہ کشتی سے علیحدہ تھا۔ اور اس وقت کشتی رواں تھی اور پانی چڑھا آتا تو بمقتضائے شفقت پدری آواز دی اور یہ کہا اے میرے چھوٹے بیٹے خدارا ایمان لے آ اور کشتی میں ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ مت رہ یعنی ان بدبخت کافروں کی معیت کو چھوڑ اور ہمارے ساتھ سوار ہوجا تاکہ اس مصیبت عظمیٰ سے تو نجات پاسکے۔ شفقت پدری کی بناء پر نصیحت فرمائی کہ یہ آخری وقت ہے اگر اس وقت بھی ایمان لے آیا تو غرق سے بچ جائیگا۔ بیٹا بولا کہ مجھے کشتی کی ضرورت نہیں میں عنقریب کسی بلند پہاڑ پر ٹھکانالوں گا۔ جو مجھ کو پانی میں غرق ہونے سے بچا لے گا یہ وقت ابتداء طوفان کا تھا پانی پہاڑوں پر نہیں پہنچتا تھا اس لیے اس نے یہ کہا۔ نوح (علیہ السلام) کو گمان یہ تھا کہ شاید اس قہر عام کو دیکھ کر بیٹا ہوش میں آجائے دنیا کی پریشانی اور میرا سکون اور اطمینان اس کی نظروں کے سامنے ہے فرق کو دیکھ لے اور سمجھ لے مگر غفلت کا پردہ اتنا سخت تھا بیٹا ہوش میں نہ آیا اور خیال کیا کہ پہاڑ کی چوٹی مجھ کو گرق ہونے سے بچا لے گی۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ اس خیال کو دماغ سے نکال دے یہ کوئی معمولی سیلاب نہیں یہ اللہ کا قہر ہے جس میں اسباب عادیہ اور تدابیر مادیہ کا رگر نہ ہونگی۔ آج کے دن اللہ کے قہر سے کوئی چیز بچانے والی نہیں مگر جس پر خدا رحم کرے وہی بچ سکتا ہے پہاڑ بھی تو اللہ ہی کے حکم کے تابع ہے وہ بغیر حکم خداوندی کسی کو کیسے پناہ دے سکتا ہے اللہ کی تقدیر پر محکم جاری ہوچکی ہے کہ اس عذاب سے بچے گا کوئی نہیں۔ غرض یہ کہ یہی گفتگو ہو رہی تھی کہ پانی کا روز اس کی طرف بھی بڑھ گیا اور ان دونوں باپ اور بیٹے کے درمیان موج حائل ہوگئی اور اس طرح ان کی گفتگو ختم ہوئی۔ پس ہوگیا وہ بیٹا غرق ہونے والوں میں سے اور کافروں کے ساتھ بیٹا بھی غرق ہوا۔ جمہور علماء اسلام اور اہل کتاب کا قول یہ ہے کہ طوفان عام تھا جہاں پر آیا اور اس کی بعد دنیا میں صرف نوح (علیہ السلام) کی نسل جاری ہوئی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ 1۔ وجعلنا ذریتہ ہم الباقین۔ یعنی طوفان نوح کے بعد ہم نے صرف نوح (علیہ السلام) کی اولاد کو باقی رکھا۔ اور باقی سب کو غرق کردیا اور جو لوگ نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھے صرف انہوں نے نجات پائی اور آئندہ کو جو نسل چلی وہ نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے چلی اس وجہ سے نوح (علیہ السلام) کو آدم ثانی (علیہ السلام) کہتے ہیں۔ 2۔ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی یہ دعا رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا۔ یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ طوفان تمام اہل زمین کے لیے تھا اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ طوفان صرف نوح (علیہ السلام) کی قوم کے حق میں تھا۔ کیونکہ ان کی بعثت صرف اپنی قوم کے لیے تھی اس لیے یہ طوفان اس خطہ تک محدود تھا جہاں ان کی قوم آباد تھی۔ عام نہ تھا۔ بعض شہر اس طوفان سے بچ گئے تھے یہ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا انقلاب نہیں آیا جس سے ازسر نو دنیا کی آبادی کی ضرورت ہوئی ہو۔ حضرت شاہ عبد العزیز قدس سرہ فرماتے ہیں کہ سلف اور خلف میں سے کسی کا یہ قول نہیں کہ طوفان صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے حق میں تھا اور یہود کے باطل اقوال کا اعتبار نہیں اور نوح (علیہ السلام) کی بعثت اگرچہ عام نہ تھی صرف اپنی قوم کے ساتھ مخصوص تھی مگر اس وقت ان کی قوم اور ان کی امت ہی کل اہل زمین اور اہل جہان کا مصداق تھی اور ان کی امت ہی سارا جہان اور ساری دنیا تھی موجودہ دنیا کی طرح ساری زمین آباد نہ تھی جیسے آدم (علیہ السلام) کی ذریت تھی وہی ان کی امت تھی۔ اس طرح تمام اہل زمین حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم تھی مطلب یہ ہوا کہ اس زمانہ میں جہاں تک دنیا آباد تھی وہاں تک طوفان آیا جو سب کو عام اور شامل تھا۔ جس سے سوائے نوح (علیہ السلام) کے اور اہل ایمان کے کوئی نہیں بچا غرض کہ تمام زمین کی چیزیں غرق ہوگئیں اور صرف نوح (علیہ السلام) اور وہ لوگ جو کشتی میں ان کے ساتھ سوار تھے زندہ رہے اور طوفان کے بعد دنیا ازسر نو آباد ہوئی۔ آج کل کے مدعیان تحقیق یہ کہتے ہیں کہ اسی آدمیوں سے دنیا کا آباد ہونا محال نظر آتا ہے ان نادانوں کو یہ خبر نہیں کہ یہ ساری دنیا صرف حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا سے آباد ہوئی ہے۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ ایسے عظیم انقلاب کا دنیا کی تاریخوں میں ذکر نہیں۔ ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں کہ تاریخ میں جن واقعات کا ذکر ہے وہ نہایت قلیل ہیں اور جو واقعات پیش آئے وہ لاکھوں اور کروڑوں ہیں جن کے ذکر سے تاریخ خالی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ نوح (علیہ السلام) کی بعثت عام تھی اور تمام اہل زمین کے لیے تھی تو جاننا چاہئیے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت تمام اہل زمین کے لیے ہر زمانہ میں ہے اور قیامت تک رہے گی اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت اسلام سب اہل زمین کے لیے صرف ان کے زمانہ تک محدود تھی بعد میں باقی نہ رہی اور ہمارے نبی اکرم ﷺ کی نبوت اور بعثت اور دعوت تمام اہل زمین کے لیے ہے ہر زبان میں ہر مکان میں اور اسی طرح تاقیامت باقی رہے گی۔ (فتاویٰ عزیزی ص 47 ج 4) الغرض جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہ طوفان عام اور عالمگیر تھا۔ سوائے اہل کشتی کے کوئی متنفس اس جانکاہ عذاب سے جانبر نہیں ہوا۔ اور قرآن مجید کی آیات اور اشارات سے بھی یہی معلوم اور مفہوم ہوتا ہے کہ وہ طوفان عام تھا اور تمام جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا کا کشتی میں سوار کرنا یہ بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے کیونکہ اگر طوفان عام نہ ہوتا تو جانوروں کے سوار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دوسرے مقامات پر تو جانور موجود ہی تھے جو لوگ طوفان کے عام ہونے کے منکر ہیں کبھی تو یہ کہتے ہیں کہ واقعہ طوفان فطرت کے خلاف ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ قانون طبیعت کے خلاف ہے۔ خوب سمجھ لو کہ یہ سب متکبر انہ دعوت ہیں جن پر کوئی دلیل نہیں اور اس قسم کی باتوں سے کسی چیز کا محال ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔
Top