Maarif-ul-Quran - Hud : 48
قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَ١ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ یَمَسُّهُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ
قِيْلَ : کہا گیا يٰنُوْحُ : اے نوح اهْبِطْ : اتر جاؤ تم بِسَلٰمٍ : سلامتی کے ساتھ مِّنَّا : ہماری طرف سے وَبَرَكٰتٍ : اور برکتیں عَلَيْكَ : تجھ پر وَ : اور عَلٰٓي اُمَمٍ : گروہ پر مِّمَّنْ : سے، جو مَّعَكَ : تیرے ساتھ وَاُمَمٌ : اور کچھ گروہ سَنُمَتِّعُهُمْ : ہم انہیں جلد فائدہ دینگے ثُمَّ : پھر يَمَسُّهُمْ : انہیں پہنچے گا مِّنَّا : ہم سے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (جو) تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر (نازل کی گئی ہیں) اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہونگی جن کو ہم (دنیا کے فوائد سے) محظوظ کریں گے پھر انکو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا۔
خاتمہ قصہ مشتمل بر بیان حکمت و ذکر استدلال بروحی نبوت قال اللہ تعالیٰ قیل ینوح اھبط بسلم منا .... الیٰ .... ان العاقبۃ للمتقین۔ (ربط) جب کشتی جودی پہاڑ پر جاکر ٹھہر گئی اور پانی بھی اتر گیا تو اس وقت حکم ہوا کہ اے نوح اب کشتی سے اترو ہماری طرف سے سلام اور سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ اور یہ سلامتی اور برکتیں تجھ پر مبذول ہوں گی اور ان لوگوں پر مبذول ہوں گی جو تیرے ہمراہیوں سے پیدا ہونگے یعنی تیرے ہمراہیوں کی مسلمان اولاد پر بھی ہماری سلامتی اور برکتیں مبذول ہونگی۔ مطلب یہ ہے کہ آپ (علیہ السلام) کے ہمراہیوں کی مسلمان نسل کا بھی اس سلامتی اور برکت میں سے حصہ ملے گا۔ اور آئندہ نسلوں میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو ایمان نہیں لائیں گے۔ ہم ان کو دنیا میں چند روزہ بہرہ مند کریں گے۔ یعنی معت کے وقت تک دنیا میں ان کو رسائیں بسائیں گے۔ پھر آخرت میں ان کو ہماری طرف سے دوزخ کا دردناک عذاب پہنچے گا۔ و اھم سنمتعھم سے کافر امتیں مراد ہیں کہ ان کو دنیا میں عیش و آرام دیں گے اور پھر آخرت میں کفر و شرک کی وجہ سے عذاب میں پکڑے جائیں گے اور آخرت میں صرف ایمان اور عمل صالح نفع دے گا نسب کام نہ دے گا جیسا کہ کنعان کو بغیر ایمان اور عمل صالح کے نسب سے کوئی نفع نہ ہوا قریش مکہ کان کھول کر سن لیں۔ یہاں تک نوح (علیہ السلام) کا قصہ تمام ہوا اب اس قصہ کو ختم کرکے اس کے دو فائدے بیان کرتے ہیں ایک تو یہ کہ ایک امی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مفصل اور مستند واقعات کا بیان اس کی نبوت کی دلیل ہے۔ دوم یہ کہ اس کی تسلی مقصود ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی طرح آپ ﷺ کا اور آپ ﷺ کے رفقاء کا انجام بہتر ہوگا۔ یہ قصہ نوح (علیہ السلام) منجملہ غیب کی خبروں کی ایک خبر ہے جس کو ہم بذریعہ وحی کے تجھ پر القاء کرتے ہیں اس قصہ کو ہمارے بتلانے سے پہلے نہ آپ جانتے تھے نہ آپ کی قوم جانتی تھی۔ اور کسی امر غیبی کی بذریعہ وحی اطلاع دینا یہ دلیل نبوت ہے۔ اور اگر اس واضح دلیل کے بعد بھی آپ ﷺ کو نبی نہ مانیں تو آپ ﷺ ان کی ایذاء اور تکلیف دہ باتوں پر صبر کیجئے۔ کیونکہ اس میں شک نہیں کہ نیک انجام خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ہے۔ جیسا کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب کو صبر کی برکت سے نیک انجام نصیب ہوا۔ اسی طرح آپ ﷺ بھی کافروں کی ایذاؤں پر صبر کریں۔ آپ ﷺ کا اور آپ کے رفقاء کا انجام بھی بہتر ہوگا۔ قصہ ہود (علیہ السلام) باقوم عاد
Top