Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 66
فَجَعَلْنٰهَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَ مَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ
فَجَعَلْنَاهَا : پھر ہم نے اسے بنایا نَکَالًا : عبرت لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا : سامنے والوں کے لئے وَمَا خَلْفَهَا : اور پیچھے آنے والوں کے لئے وَمَوْعِظَةً : اور نصیحت لِلْمُتَّقِیْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
پھر ہم نے اس مسخ کے واقعہ کو ان لوگوں کے لئے جو وہاں موجود تھے اور ان کے لئے جو پیچھے آنیوالے تھے ایک عبرت آموز واقعہ بنادیا اور ان لوگوں کے لئے جو ڈرنے والے ہیں۔ اس واقعہ کو موجب نصیحت بنایا۔3
3 اور تم ان لوگوں کا حال تو خواب اچھی طرح جانتے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے بارے میں زیادتی کی تھی اور جو احکام ہفتہ کے دن کے لئے ان کو دیئے گئے تھے۔ ان احکام کی مخالفت میں حد سے تجاوز کر گئے تھے۔ پھر ہم نے ان کو حکم دیا کہ تم بندر ہو جائو۔ ذلیل و خوار اور پھٹکارے ہوئے پھر ہم نے اس واقعہ مسخ اور عقوبت کو ان لوگوں کے لئے جو وہاں موجود تھے اور جو پیچھے تھے ، ایک عبرت آموز واقعہ بنادیا اور جو لوگ خدا سے ڈرنے والے ہیں ان کے لئے اس واقعہ کو موجب نصیحت و موعظت بنایا۔ (تیسیر) منجملہ اور احاکم کے یہود کو یہ بھی حکم تھا کہ ہفتہ کے دن عبادت میں مشغول رہا کرو اور اس دن مچھلیاں نہ پکڑا کرو۔ لیکن کچھ لوگوں نے کھلم کھلا اور کچھ لوگوں نے حیلہ اور فریب کر کے ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں، آخر ان پر مسخ کا عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے امر تکوینی سے یہ لوگ بندر بنا دیئے گئے، ان کی صورتیں تو بندروں کی سی ہوگئیں مگر فہم باقی رہا ایک دوسرے کو دیکھتے اور پہچانتے تھے اور روتے تھے، آخر تیسرے دن سب مرگئے۔ ان پر ایسا خوفناک قہر نازل ہوا کہ صرف بندر ہو جائو پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ خاسئین بھی فرمایا جس کے معنی ذلیل اور رحمت سے دور اور پھٹکارے ہوئے کے ہیں ان بندر نما انسانوں نے تین دن تک نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا اور نہ ان کی نسل باقی رہی بلکہ وہ سب مرگئے اور یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ آج کل جو بندر ہیں یہ ان کی اولاد ہیں بلکہ بندر ایک مستقل جانور ہے جو ہمیشہ سے چلا آتا ہے یہ لوگ تو ان بندروں کی شکل بنا دیئے گئے تھے باقی عقل و شعور سب آدمیوں کا سا موجود تھا، حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ان کے جوان بندر اور بوڑھے سوئر کی شکل میں منتقل کردیئے گئے، مابین یدیھا کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے اختیار کیا کہ جو لوگ وہاں موجود تھے اور جو بعد میں آئے ان کے لئے یہ واقعہ عبرت انگیز اور سبق آموز کردیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بستیاں مراد ہوں جو شہر کے آگے اور پیچھے آباد تھیں، بہرحال جو لوگ اس واقعہ کے دیکھنے والے ہیں اور جو بعد میں آنیوالے ہیں ان کے لئے یہ درد ناک واقعہ نکال یعنی عبرت ہے اور جو اہل خوف وتقویٰ ہیں ان کے لئے موعظت و نصیحت ہے اس لئے کہ لوگ دو ہی قسم کے ہوتے ہیں، نافرمان اور فرمانبردار سونا فرمانوں کے لئے اس واقعہ کو نکال فرمایا اور فرمانبرداروں کے لئے موعظت ارشاد ہوا، یہ واقعہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوا تھا، تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ نویں پارے میں آ جائیگی۔ حضرت شاہ صاحب نے بھی سورة اعراف پر محول کیا ہے۔ (تسہیل)
Top